’ کلچر امن و ترقی کا پل ہے‘، صدر زرداری کا عالمی ثقافتی فورم میں خطاب
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان، چین اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ثقافتی تبادلوں کو وسعت دینے، تخلیقی صنعتوں کو مضبوط کرنے اور برداشت و افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔
Pakistan’s President Asif Ali Zardari addressed the 2nd
Golden Panda Awards International Culture Forum in
Chengdu, stressing the power of art and culture in
uniting people, strengthening Pakistan-China
friendship and promoting a shared future for humanity.
For more details:… pic.twitter.com/zHYODNUHPS
— The Diplomatic Insight (@DiplomaticIns) September 13, 2025
چین کے وژن کی حمایت
چین کے شہر چینگدو میں منعقدہ ’سیکنڈ گولڈن پانڈا ایوارڈز انٹرنیشنل کلچر فورم‘ سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ کلچر امن، خوشحالی اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے لیے ایک لازمی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
China’s Chengdu rolls out the red carpet for the Second Golden Panda Awards from September 12 to 13. The film event bodes well for cross-border cultural ties, said Hannatu Musa Musawa, Nigerian Minister of Art, Culture, Tourism and the Creative Economy. #2025GoldenPandaAwards pic.twitter.com/QQim6aL6fQ
— First Voice (@decameronshow) September 13, 2025
انہوں نے چین کے تہذیبی تبادلے اور باہمی سیکھنے کے وژن کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
عالمی اقدامات کی اہمیت
صدر نے چین کے پیش کردہ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو (GDI)، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو (GSI) اور گلوبل گورننس انیشی ایٹو (GGI) کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات پائیدار ترقی، علاقائی استحکام اور جامع بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔
کلچر بطور مکالمہ، تصادم نہیں
صدر زرداری نے کہا کہ GGI تہذیبوں کی تنوع کا احترام، ثقافتوں کے مابین برابری اور عوامی سطح پر تبادلے کو فروغ دیتا ہے، تاکہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے بیانیے کو ختم کیا جا سکے۔
George Papandreou, former prime minister of #Greece, emphasized at the #Chengdu #GoldenPandaForum that arts and sports possess far greater civilizational power than commonly perceived. He stated these elements are crucial for shaping humanity’s future, noting that true… pic.twitter.com/mXFKmcrQAl
— China Daily (@ChinaDaily) September 13, 2025
بدلتی دنیا اور چین کا کردار
انہوں نے کہا کہ دنیا تیز رفتار تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے، اور اس موقع پر صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے محاذ آرائی کے بجائے تعاون اور win-win حل پیش کر کے ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مدد کے کلچر کا فقدان
پاکستان میں سیلاب ابھی جاری ہے۔ لیکن وسطی پنجاب سے پانی نکل کر اب سندھ پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ بلکہ وسطیٰ پنجاب کے علاقوں سے پانی اترنا شروع ہو گیا ہے۔ آیندہ چند دنوں میں لوگ اپنے گھروں میں واپس جانا شروع ہو جائیں گے۔ بلکہ کچھ علاقوں میں لوگ واپس اپنے گھروں میں جانا شروع ہو گئے ہیں، جہاں تباہی ہو چکی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس تباہی پر بات کریں۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ سیلاب صرف پاکستان میں نہیں آیا۔ سیلاب بھارتی پنجاب میں بھی آیا ہے۔ بھارت نے کوئی پانی پاکستان کی سرحد پر لاکر نہیں چھوڑ دیا۔ پانی نے بھارتی پنجاب میں بھی خوب تباہی مچائی ہے۔ ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق بھارتی پنجاب کے 23اضلاع سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان 23اضلاع میں بیس لاکھ سے زائد لو گ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
2050گاؤں بھارتی پنجاب میں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ چار لاکھ سے زائد لوگوں کو گھروں سے نکال کر محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچایا گیا ہے۔ پونے دو لاکھ ایکڑ سے زائد زیر کاشت رقبہ تباہ ہوا ہے۔ جہاں کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں اور پانی کھڑا ہے۔ اڑھائی لاکھ جانور مر گئے ہیں۔ چھ لاکھ پولٹری کی مرغیاں مر گئی ہیں۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں کم تباہی نہیں ہوئی ہے، وہاں سیلاب نے خوب تباہی مچائی ہے۔
لیکن ایک فرق کھل کر سامنے آیا ہے۔ بھارت میں لوگ دوسروں کی مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔ وہاں کے اسٹارز مدد کے لیے سامنے آئے ہیں، کاروباری لوگ مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔ لو گ دیہاتوں کے دیہات اپنے ذمے لے رہے ہیں کہ ان کا نقصان پورا کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے سامنے آرہے ہیں۔ ہم شائد اب پابندیوں کی وجہ سے یہاں بھارت کی خبریں کم دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو بھارتی پنجاب کے ریلیف کے کام دیکھنے کا موقع ملے تو وہاں لوگ متاثرین کی بہت مدد کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباری ادارے مدد کے لیے سامنے آئے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ مجھے پاکستان میں یہ کلچر بہت کم نظر آیا ہے۔ یہاں لوگ حکومتوں سے گلہ کر رہے ہیں لیکن خود کچھ نہیں کر رہے ۔ پاکستان میں بھی بہت بڑے بڑے گلوکار ہیں جو ایک ایک کنسرٹ کا کروڑوں روپے چارج کرتے ہیں لیکن وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ ہمارے کھلاڑی ارب پتی ہیں لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر رہے۔ پاکستان میں بھی کوئی کم امیر لوگ نہیں ہیں۔
یہاں بھی بھارت سے زیادہ امیر لوگ موجود ہیں لیکن وہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے سامنے نہیں آئے۔ پاکستان کا کارپوریٹ کلچر بھی سامنے نہیں آیا۔ وہ پاکستان سے اربوں روپے کماتا تو ہے لیکن پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ مجھے پاکستان میں لوگوں کی مدد کا کلچر کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ تو بہت سننے کو ملتا ہے کہ ہمیں عالمی دنیا سے مدد مانگنی چاہیے۔ ایسے مشورے تو بہت سننے کو ملتے ہیں کہ ہمیں عالمی دنیا سے چندہ مانگنا چاہیے، اپنی مظلومیت کا رونا رونا چاہیے، اقوام عالم سے مدد مانگنی چاہیے، سیلاب کے لیے بڑے پیمانے پر دنیا میں فنڈ ریزنگ کرنی چاہیے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ پاکستان میں تو لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے نکلیں پھر دنیا سے بھی مدد مانگ لیں گے۔ چندہ مانگنے چلے جائیں، اپنی جیب سے ایک روپیہ نہ نکالیں۔
سب سے پہلے پاکستانیوں کو پاکستانیوں کی مدد کے لیے نکلنا چاہیے، اگر ہر کوشش کے بعد ہم نقصان پورا نہ کر سکیں تو باہر سے مدد مانگنی چاہیے۔ کیا پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جو دس دس دیہات اپنے ذمے نہیں لے سکتے۔ کیا پاکستان میں ایسے کاروباری اداروں کی کمی ہے جو ایک نہیں درجنوں دیہات کی بحالی کا کام اپنے ذمے لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں تو ایسے امیر لوگوں کی کمی نہیں ہیے جو لوگوں کا نقصان پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ بھی چندہ مانگنے کی بات کرتے ہیں۔ جن کو خود سب کچھ کرنا چاہیے وہ بھی باہر سے مانگنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے ۔
پاکستان میں کس شہر کے چیمبر نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام شروع کیا ہے۔ کسی نے نہیں۔ آپ ان کے عہدیداروں سے سیاسی پریس کانفرنسیں کروا لیں، ٹیکس کے خلاف اتحاد بنوا لیں، حکومت کے خلاف اتحاد بنوا لیں۔ لیکن پاکستانیوں کی مدد کے لیے نہ کہیں۔ اگر ہر چیمبر اپنے ایک ایک رکن پر ایک گاؤں کی بحالی کی ذمے داری بھی ڈالے تو کیا ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت رہے، ہرگز نہ رہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ وہ عوام سے چندہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔
بڑے کاروباری ادارے دیکھ لیں۔ سب کی ایک جیسی صورتحال ہے۔ ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں کوئی سیلاب آیا ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے ٹیکس کے خلاف تو متحد ہو جاتے ہیں لیکن لوگوں کی مدد کے لیے اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں بھی کیا گلہ کر رہا ہوں جو ملک کو ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں، وہ سیلاب ز دگان کی کیا مدد کریں گے۔ شائد ان میں اب یہ جذبہ ہی ختم ہو گیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ حکومت کو چندہ دیں، بھائی خود جاکر مدد کریں، اپنے پیسوں سے خود مدد کریں۔ جائیں لوگوں کے گھر بنانے شروع کریں۔ جائیں لوگوں میں جانور تقسیم کریں۔ جائیں لوگوں کو ان کے کھیت دوبارہ قابل کاشت بنانے میں مدد کریں۔ لوگوں کے گھروں کی تمام اشیا بہہ گئی ہیں۔ لوگوں کو نئی اشیا کی ضرورت ہے، جائیں لوگوں کی براہ را ست مدد کریں۔ ایک ایسا کلچر بنائیں کہ لوگ کہیں کہ ہمیں اب مدد کی ضرورت نہیں۔ ہمارا نقصان پورا ہو گیا ہے۔ ہر شہر کا چیمبر اپنے علاقے کا ذمے لے۔ یہ کوئی ناممکن کام نہیں، صرف ایک جذبہ کی ضروت ہے جو نظر نہیں آرہا۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبہ کی کمی ہورہی ہے۔ امیر کو غریب کی کوئی فکر نہیں، امیر کو اپنی دولت کی فکر ہے۔ یہ کسی بھی قوم کی کوئی اچھی پہچان نہیں۔ دنیا میں کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری پہچان بھکاریوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ ہمارے ملک کے لوگوں پر ویزہ اس لیے بند کر رہے ہیں کہ ہمارے بھکاری وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے پاکستان سے مانگنے کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ اپنی مدد آپ کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ مدد مانگنے کا کلچر کوئی اچھی پہچان نہیں۔