اغوا کیس کا ڈراپ سین: ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کا سابق منگیتر حسن زاہد کیخلاف مقدمات واپس لینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT
ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے اپنے سابق منگیتر حسن زاہد کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کرتے ہوئے ان کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کا اعلان کردیا۔
ٹک ٹاکر سامعہ حجاب نے حسن زاہد کو مشروط طور پر معاف کردیا.
حسن زاہد نے مجھے اغواء کرنے کی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی ۔حسن نے آئندہ ایسی غلطی نہ دہرانے کی یقین دہانی کرائی۔ حسن کی یقین دہانیوں پر میں اسے معاف کرتی ہوں : سامعیہ کا تحریری بیان#SamiyaHijab pic.
— Malik Ali Raza (@MalikAliiRaza) September 12, 2025
یکم ستمبر کو سامعہ حجاب نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حسن زاہد نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی، بارہا تشدد کا نشانہ بنایا اور مسلسل بلیک میل بھی کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: سامعہ حجاب کیس: ملزم حسن زاہد کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی گئی
اس الزام کے بعد اسلام آباد پولیس حرکت میں آئی اور حسن زاہد کو گرفتار کرتے ہوئے سامعہ حجاب کی شکایت پر مختلف مقدمات درج کر کے قانونی کارروائی شروع کر دی تھی۔
ابتدائی سماعتوں کے دوران عدالت نے ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا، تاہم 12 ستمبر کو عدالت کی جانب سے 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر انہیں جیل بھیجنے کا حکم دیا گیا۔
جیل منتقلی کے بعد سامعہ حجاب نے یہ تصدیق کی کہ ان کی سابق منگیتر سے صلح ہوگئی ہے اور وہ انہیں خدا کے نام پر معاف کررہی ہیں۔
انہوں نے متعدد میڈیا اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ وہ اپنے سابق منگیتر کو معاف کر چکی ہیں۔
ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو دیے گئے انٹرویو میں ٹک ٹاکر نے بتایا کہ حسن زاہد کے اہل خانہ ان سے معافی مانگنے کے لیے آئے تھے جس پر انہوں نے صلح کر لی۔
ان کے بقول حسن زاہد نے تحریری طور پر یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ آئندہ کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے، جس کے بعد معافی کا فیصلہ کیا گیا۔ سامعہ حجاب نے اس تاثر کو رد کیا کہ یہ معافی کسی مالی فائدے کے تحت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے معاف کیا ہے، اب ان کی منگنی بھی ختم ہو چکی ہے اور انہیں سابق منگیتر سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا، وہ خود کو بالکل محفوظ سمجھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سامعہ حجاب کا حسن زاہد سے کیا تعلق تھا؟ ٹک ٹاکر نے نئے انکشافات کردیے
اس سے قبل اپنی متعدد ویڈیوز اور بیانات میں ٹک ٹاکر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر حسن زاہد کو سزا نہ دی گئی تو رہائی کے بعد وہ ضرور بدلہ لیں گے۔
‘میں ثناء یوسف نہیں بننا چاہتی’
ٹاک ٹاکر سامعہ حجاب کی اغواء کرنے کی کوشش اور قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد اسلام آباد پولیس اور عوام سے ساتھ دینے کی اپیل۔ pic.twitter.com/51n5wNudTb
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 1, 2025
واضح رہے کہ سامعہ حجاب نے اپنے سابق منگیتر پر شدید نوعیت کے الزامات لگاتے ہوئے جسمانی تشدد کے دعوے بھی کیے تھے، تاہم اب انہوں نے انہیں مکمل طور پر معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اغوا کیس ٹک ٹاکر حسن زاہد ڈراپ سین سامعہ حجاب مقدمات واپس وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اغوا کیس ٹک ٹاکر حسن زاہد ڈراپ سین مقدمات واپس وی نیوز ٹاکر سامعہ حجاب سابق منگیتر حسن زاہد کو انہوں نے ٹک ٹاکر معاف کر کے لیے کے بعد
پڑھیں:
اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
اسلام آباد: حکومت نے اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری کر لی ۔ اس حوالے سے سینیٹر انوشہ رحمان نے “پاکستان اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956” میں ترمیم کا بل سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ۔
نجی بل میں ایکٹ کی دفعہ 14 اور دفعہ 9 میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ دوبارہ صدر مملکت مقرر کریں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ 2022 میں یہ اختیار صدر سے لے کر اسٹیٹ بینک بورڈ کو دے دیا گیا تھا۔
بورڈ کی خودمختاری پر سوالات؟
سینیٹر انوشہ رحمان نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی تنخواہ بورڈ آف ڈائریکٹرز طے کرتا ہے، لیکن بورڈ کے چیئرمین خود گورنر ہی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے شفافیت پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔”
انوشہ رحمان کا کہنا تھا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تنخواہ طے کرنے کا اختیار صدر مملکت کو واپس دیا جائے۔
بورڈ میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کی تجویز
بل میں ایک اور اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک سینیٹر اور ایک رکن قومی اسمبلی کو شامل کیا جائے تاکہ ادارے پر پارلیمانی نگرانی کو مؤثر بنایا جا سکے۔