کچھ مؤرخ یہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان کا کچھ حصہ سکندر اعظم کے قبضے میں رہا، جہاں اب کیلاش کے لوگ آباد ہیں۔ سکندرِ اعظم کے ساتھ آئے مؤرخین نے دریائے سندھ کا نام ’’ انڈس‘‘ رکھا جسے سنسکرت میں ’’ سندھو ‘‘ کہا جاتا ہے۔
بعض یونانی مؤرخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دریا نہیں بلکہ سمندر ہے جس کو سکندرِ اعظم پار نہ کر سکا۔ سندھ دریا کے مشرق میں راوی، جہلم، ستلج، بیاس و چناب اور آگے تھے گنگا اور جمنا۔
سکندرِ اعظم کے تیرہ سو سال بعد بھی سندھو اپنے جوش کے ساتھ بہتا تھا۔ یہ دریا لگ بھگ دوکروڑ سال قدیم ہیں اور اس کا بہاؤ تھوڑے سے فرق ساتھ ایک ہی جگہ سے ہے۔ اب کالا باغ کے مقام پر سندھوکی چوڑائی تقریباً سوا کلومیٹر ہے۔
سکھرکے پاس 1.
یہ دریاؤں کے بہاؤ کے فطری راستے تھے جو پنجند پر آکر میل کھاتے تھے، مغربی پنجاب میں بہنے والے دریا اور وہ دریا جو مشرقی پنجاب اور جموں کشمیر سے بہتے تھے۔ ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں، برِصغیرکے بٹوارے سے۔
ہماری تیزی سے بڑھتی آبادی سے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ دریائے راوی اب خشک ہو چکا ہے مگر راوی پھر سے بہہ نکلا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ دریا اپنی گزرگاہیں نہیں بھولتے چاہے ، ان کے دامن میں تہذیبیں پلتی ہیں۔
یہ وہ سندھو ہے جس کے کنارے بیٹھ کر’’رگ وید‘‘ لکھی گئی۔ یہ رگ وید سکندرِ اعظم سے بھی ہزار سال قدیم ہے۔ رگ وید میں سندھو کا پچاس بار ذکرکیا گیا ہے اور تہتر مرتبہ سرسوتی دریا کا ذکرکیا گیا ہے جن کو راوی، چناب، ستلج اور بیاس کہا جاتا ہے۔
یہ وہ تحریر ہے، جو ہندو مذہب کے اندر ذات پات کے نظام پر تنقید کرتی ہے۔ رگ وید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی ہندوستان کی بہ نسبت مغربی ہندوستان تہذیب رکھتا تھا۔ مغربی ہندوستان وسطی ایشیاء اور افریقہ کے زیرِ اثر رہا جو موئن جو داڑو کے رھواسی تھے وہ رگ وید اس سے بھی ڈیڑھ ہزار سال قدیم ہے۔
اس بات کا ذکر رگ وید میں نہیں ہے کہ یہ لوگ افریقہ سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ بنی نوع جس کو ہومو سیپین کی نقل کہا جاتا ہے یہ دنیا میں افریقہ سے پھیلے اور پھر یہ انڈس کی وادی مہران کے باشندوں نے یہاں سے ہجرت کی یہ دراوڑ تھے اور ان کی نسلیں آج تامل، بنگال اور ساؤتھ انڈیا میں بسی ہوئی ہیں۔
ان تہذیبوں کی باقیات موئن جو داڑو، ہڑپا، ڈولا ویرا اور مہرگڑھ میں موجود ہیں۔ یہ اپنے زمانوں میں دنیا کی عظیم تہذیبیں مانی جاتی ہیں۔ ان کی ٹاؤن پلاننگ حیران کن ہے۔ یہی لوگ تھے جنھوں نے دنیا میں پہلی بار ناپ تول کا سسٹم بنایا، یہ لوگ انتہائی امن پسند تھے۔
سکندرِ اعظم کے جانے کے ستر سال بعد اشوکا ایمپائرکا دور رہا، جس کا مرکز ٹیکسلا رہا اور اس ایمپائر کا پھیلاؤ بنگال تک تھا۔ اشوکا، سکندرِ اعظم کی فتوحات سے متاثر تھا، لہٰذا انھوں نے بھی فتوحات اور جنگوں کا سلسلہ جاری رکھا جس طرح سکندرِ اعظم نے 326 BCE میں پورس کے بادشاہ کو شکست دی تھی، مگر اشوکا نے آگے جا کر بدھ مذہب کو اپنا لیا، پیروکار بن گیا اور جنگوں کے سلسلے کو ختم کیا، وہ بھکشو بن گیا۔
قدیم ہندوستان میں اشوکا کے بعد لگ بھگ پچاس سال تک مختلف سلطنتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ بارہویں صدی میں ہندوستان میں دلی مسلم سلطنت کا محور بن گیا۔ مسلمان 1857 تک ہندوستان پر راج کرتے رہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھے۔ پانچ سو سال بعد یہ تسلسل ٹوٹا جب انگریز نے دلی راج پر قبضہ جمایا اور 1947 میں مسلمانوں نے ایک دفعہ پھر علیحدہ ریاست قائم کی جو 1971 دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔
پنج سندھی زبان میں پانچ کوکہا جاتا ہے۔ ’آب‘ لفظ کو شاہ لطیف کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ اس طرح سے ’’ پنجاب ‘‘ لفظ سندھی زبان سے وجود میں آیا ہے، جس کا سلیس مطلب ہے پانچ آبوں والی دھرتی کا دیس اور پنج نند کے معنی ہیں جہاں پانچ ندیوں کا ملاپ ہو۔
وادیٔ سندھ کے وارث صرف سندھی نہیں ہیں بلکہ پنجابی بھی ہیں، جہاں جہاں سے دریا بہتا ہے۔ مہرگڑھ بھی وادیٔ سندھ کی تہذیب ہے جو موئن جو دڑو سے بھی دو ہزار سال قبل کی تہذیب ہے۔ اس تہذیب کے آثار آج بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔
اپنے قدیم زمانوں میں یہ دریا بہت وسیع تھا۔ اس وقت کی کھیتی باڑی، جس کی تاریخ دس ہزار سال پرانی ہے ، کنوؤں سے کی جاتی تھی، اس وقت زمین کے اندر بھی بے تحاشہ پانی تھا۔ ان زمانوں میں ایک فرد کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال تک تھی اور کل آبادی آج سے دو ہزار سال پہلے تین سے پانچ کروڑ ہوگی، جب کہ آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش ملا کرکل آبادی پونے دو ارب ہے۔
پنجاب انڈس سول لائیزیشن کا تسلسل ہے جو تہذیب لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ پہلے یہاں ویدوں کا دور تھا۔ مو ریا یا پھر اشوکا کا دور ہے، جو سوا دو ہزار سال قدیم ہے۔ یونانی و بدھوں کا دور آیا اور یہ دور دو ہزار سال پہلے تھا۔
پھر خبیر پختونخوا،پنجاب اور افغانستان کے علاقوں میں ہندو شاہی رہی، جس نے محمود غزنوی کا مقابلہ کیا اور پھر ہندوستان میں مسلم سلطنت قائم ہوگئی ۔ مغلیہ سلطنت کمزور ہوئی جس کا فائدہ سب سے پہلے نادر شاہ نے اٹھایا اور بعد میں انگریزوں نے۔ دہلی پنجاب کا حصہ تھا، دہلی کو انگریزوں نے 1911میں پنجاب سے الگ کیا۔
آج کا پاکستان ان پانچ ہزار برس کی تاریخ کا حصہ ہے۔ بے شک پاکستان کو بنے صرف اٹھہتر سال گزرے ہیں لیکن پاکستان اس پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کا وارث ہے، مگر ستم یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو مسخ کیا اور مصنوعی پہچان کے پیچھے دوڑتے رہے۔ آج جب سندھو، سمندرکی طرح ٹھاٹھیں مار ہا ہے تو مجھے اپنی مسخ کی ہوئی تاریخ یاد آئی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دو ہزار سال سال قدیم یہ دریا اعظم کے کا دور رگ وید
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔