یورپی ہوائی اڈے ہیکروں کے نشانے پر پروازوں کا نظام درہم برہم
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برسلز؍لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی ہوائی اڈوں پر سائبر حملے کے بعد ہیتھرو اور برسلز کے ائرپورٹ شدید متاثر ہو گئے ہیں جس سے مسافروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق چیک ان اور بورڈنگ سسٹمز فراہم کرنے والے ایک ادارے پر سائبر حملے کے باعث یورپ کے کئی بڑے ہوائی اڈوں اور لندن کا ہیتھرو ائرپورٹ بھی متاثر ہوا ۔اس دوران کئی پروازوں میں تاخیر اور جبکہ کچھ منسوخ بھی ہوئیں۔ ہیتھرو ایئرپورٹ نے اس حوالے سے بتایا کہ کولنز ائرو اسپیس ایک تکنیکی مسئلے سے دوچار ہے جس سے سفر کرنے کے خواہشمند افراد کو تاخیر برادشت کرنی پڑی ۔ یہ نیٹ ورک دنیا بھر کے کئی ہوائی اڈوں پر مختلف ائرلائنز کو خدمات فراہم کرتا ہے۔ برسلز ائرپورٹ اور برلن ائرپورٹ نے بھی الگ الگ بیانات میں تصدیق کی کہ وہ سائبر حملے سے متاثر ہوئے ہیں۔ کولنز ائرو اسپیس کی پیرنٹ کمپنی آر ٹی ایکس (آر ٹی ایکس) نے کہا کہ اسے مخصوص ہوائی اڈوں پر اپنے سافٹ ویئر میں سائبر حملے کے بعد مسائل کا سامنا ہے تاہم ادارے نے اْن ہوائی اڈوں کے نام ظاہر نہیں کیے۔ آر ٹی ایکس نے ای میل کے ذریعے جاری بیان میں الیکٹرانک کسٹمر چیک اِن اور بیگیج ڈراپ سائبر حملے سے متاثر ہیں۔ جب کہ مینول چیک اِن کے ذریعے رکاوٹ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔برسلز ائرپورٹ نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ واقعہ جمعہ کی شب پیش آیا، جس سے خودکار نظام غیر فعال ہوا۔ سائبر حملے کے باعث متاثرہ ہوائی اڈوں کو ہنگامی طور پر دستی طریقہ کار اپنانا پڑا جس سے لمبی قطاریں، پروازوں میں تاخیر اور بعض فلائٹس کی منسوخی ہوئی۔ برانڈنبرگ ائرپورٹ نے تصدیق کی کہ سائبر حملہ ایک بیرونی ٹیکنالوجی فراہم کنندہ پر کیا گیا تھا،جب کہ ائرپورٹ براہِ راست نشانہ نہیں تھا تاہم احتیاط کے طور پر متعلقہ نظام منقطع کر دیے گئے، جس سے چیک اِن اور بورڈنگ کا عمل سست روی کا شکار ہوگیا۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ سائبر حملہ کس نے کیا اور اس کے مقاصد کیا تھے،متاثرہ ٹیکنالوجی فراہم کنندہ کی ایمرجنسی سائبر سیکورٹی ٹیمیں ہوائی اڈوں کے ساتھ مل کر نظام کو بحال کرنے اور نقصان کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سائبر حملے کے ہوائی اڈوں
پڑھیں:
روس سے اتحاد کے باعث سے بھارت کیساتھ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں، یورپی یونین
برسلز(انٹرنیشنل ڈیسک) یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ فوجی مشقوں میں شمولیت، نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی بلاک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے اور دفاع جیسے شعبوں میں تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
We just adopted a new EU-India strategy.
It offers stronger cooperation on trade, technology, climate, security and defence.
But there are areas where we disagree. Ultimately our partnership is about defending the rules-based international order.
My press remarks ↓ pic.twitter.com/sJT1iAFdt3
— Kaja Kallas (@kajakallas) September 17, 2025
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے ایک نئی حکمتِ عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت کے بارے میں نہیں بلکہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع کے بارے میں بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوجی مشقوں میں حصہ لینا، تیل کی خریداری، یہ سب ہمارے تعاون کو گہرا کرنے میں رکاوٹیں ہیں، لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو یہ توقع نہیں ہے کہ بھارت، روس سے مکمل طور پر الگ ہو جائے گا اور دونوں فریق اپنے مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
ایران اور ماسکو کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ، بھارت نے اس ماہ روس کی مشترکہ فوجی مشقوں ’زاپاد‘ (مغرب) میں شرکت کی، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب ہوا۔
بھارت، روسی تیل کا بڑا خریدار بن گیا ہے جس سے اس نے اربوں ڈالر بچائے اور ماسکو کو ایک اہم برآمدی منڈی فراہم کی، کیونکہ یوکرین جنگ کے بعد یورپ کے روایتی خریداروں نے روس سے خریداری بند کر دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت اور چین پر بھاری محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک برسلز نئی دہلی کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پیچھے ہے، یہ امکان کم ہے، اگرچہ یورپی یونین بھارت میں روسی اداروں کے خلاف اقدامات کر سکتی ہے جیسا اس سے قبل ماسکو پر عائد پابندیوں کے پیکج میں کیا گیا ہے۔
روس پر مؤقف میں ہم آہنگی کی کمی کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت بھی 2025 کے آخر تک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے کے خواہاں ہیں، ایسے وقت میں جب نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔
امریکا-بھارت تعلقات اس وقت سے کشیدہ ہیں، جب ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر محصولات 50 فیصد تک بڑھا دیے تھے، جس کے باوجود بھارت نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔
کاجا کلاس کے ساتھ برسلز میں سیفکووچ نے کہا کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور دونوں معاشی طاقتوں کے درمیان تجارت گزشتہ دہائی میں 90 فیصد بڑھ چکی ہے۔
بھارت اور یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیدار امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کے اوائل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو گا۔
پیوٹن اور مودی کی دوستی
اسی دوران، بدھ کو پیوٹن اور مودی نے اپنی دوستی اور گرمجوش تعلقات کو سراہا اور ایک فون کال کی، حالانکہ واشنگٹن کی جانب سے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر دباؤ موجود ہے۔
روسی اور بھارتی رہنماؤں نے فون پر بات چیت کی، اس سے ایک روز قبل مودی نے یوکرین تنازع اور محصولات پر ٹرمپ سے بھی بات کی تھی۔
روسی صدر نے فون کال کے بعد ایک سرکاری اجلاس میں کہا کہ بھارت اور روس کے تعلقات انتہائی پُراعتماد اور دوستانہ رہے ہیں۔
نریندر مودی نے ’ایکس‘ پر کہا کہ وہ اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور بھارت یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
ٹرمپ اور یوکرین کوشش کر رہے ہیں کہ روس کے اہم توانائی کے ذرائع آمدنی کو ختم کیا جائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ماسکو کی فوج کو فنڈز فراہم کرتے ہیں اور اسے اپنے حملے جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
Post Views: 3