نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
جنوبی ایشیا کے پہاڑوں کے درمیان چھپا ہوا چھوٹا سا ملک نیپال آج ایک بار پھر سیاسی بحران کی زد میں ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہ بادشاہت کے سائے میں سانس لینے والا سماج تھا، پھر عوامی تحریکوں نے اس بادشاہت کے پرخچے اڑائے اور جمہوریت کے خواب نے وہاں کے عوام کی آنکھوں میں چمک پیدا کی لیکن اب چند ہی برسوں میں وہی خواب بکھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ فوجی مداخلت اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابی کھیل یا ناموں کی شعبدہ بازی نہیں۔
نیپال کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کو اشرافیہ کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو جمہوریت اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ یہ کُو یا بغاوت دراصل اسی مایوسی اور محرومی کی پیداوار ہے جو عوام برسوں سے جھیلتے آ رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو سب سے زیادہ غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر حکمران سمجھتے ہیں چونکہ عوام نے انھیں ووٹ دے دیا ہے، اس لیے اب وہ عوام پر حکومت کرنے کے مجاز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا مفہوم کبھی بھی صرف اقتدار حاصل کرنے تک محدود نہیں رہا۔ جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثریت کے خواب، اکثریت کی ضرورتیں اور اکثریت کی محرومیاں حکومتی پالیسی کا مرکز ہوں، اگر کسان اب بھی زمین سے محروم ہے، مزدور اب بھی بھوک اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہے۔ عورت اب بھی سماجی ناانصافی اور ریاستی بے حسی کا شکار ہے تو ایسی جمہوریت کاغذ پر موجود ہو سکتی ہے لیکن عوام کے دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔
نیپال کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں جدوجہد اور خوابوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے۔ وہاں کے عوام نے بادشاہت کے خلاف قربانیاں دیں شاہی فوج کے تشدد کو برداشت کیا پہاڑوں اور میدانوں میں احتجاجی جلوس نکالے۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام کی اکثریت کو منتقل ہو لیکن جب وہاں کی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے جمہوریت کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے ذاتی مفاد اور بدعنوانی کی نذر کر دیا۔
وہی سیاست دان جو عوامی نعروں کے سائے میں تختِ اقتدار پر بیٹھے تھے وہ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے کے خدمت گار بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ، غربت بڑھی نوجوان بیروزگار ہوئے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام نے لوگوں کے اعتماد کو چکنا چورکر دیا۔ یہ مسئلہ صرف نیپال تک محدود نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا جنوبی ایشیا کا ہر ملک اس سوال سے دوچار ہے۔ جمہوریت کس کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے ہے یا پھر یہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا ایک راستہ ہے؟
مغربی دنیا ہمیں بار بار یہ باور کراتی ہے کہ جمہوریت ان کا تحفہ ہے لیکن خود وہاں بھی جمہوریت امیروں کے کھیل میں بدل چکی ہے۔ فرانس میں مزدور بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومتیں بھی ان کی پنشن ان کے اوقاتِ کار اور ان کے مستقبل پر ڈاکا ڈالتی ہیں۔ امریکا میں انتخابات کی اصل طاقت کارپوریشنوں اور ارب پتیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر استحصال کی ایک نئی شکل رائج کی جا رہی ہے۔
سچی جمہوریت وہ ہے جہاں حکومت عوام کی بھلائی کو سب سے مقدم سمجھے جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ جہاں کسان اور مزدورکو وہی عزت ملے جو کسی بڑے سرمایہ دار یا جاگیردار کو دی جاتی ہے۔ جہاں ریاست کے فیصلے اقلیت کے مفاد میں نہیں بلکہ اکثریت کے فائدے میں ہوں، اگر عوام کی اکثریت بھوک، بیماری اور ناانصافی کی شکار ہے تو پھر ایسی جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ یہ وہی صورتِ حال ہے جو نیپال میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کے عوام نے جب دیکھا کہ ان کے ووٹوں سے آنے والی حکومتیں ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر رہیں تو ان کا اعتماد ٹوٹ گیا اور اسی ٹوٹے ہوئے اعتماد نے ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔
نیپال کی بغاوت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم جمہوریت میں واقعی عوام کو مرکز بنا رہے ہیں؟ یا پھر ہماری پارلیمان اور حکومتیں چند خاندانوں، چند سرمایہ داروں اور چند طاقتور اداروں کی گرفت میں ہیں؟ اگر جمہوریت صرف اقتدار کا کھیل ہے تو اس کا انجام ہمیشہ مایوسی اور بغاوت ہی ہوگا۔ عوام بار بار یہ سوال اٹھائیں گے کہ ان کی قربانیوں کا صلہ انھیں کیوں نہیں ملا ؟ وہ کیوں اب بھی اندھیروں میں ہیں جب کہ اقتدار کے ایوان روشنیوں سے جگمگا رہے ہیں؟
میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب کسی غریب کا بچہ اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہو، جب کسی کسان کی فصل کا سارا نفع بیچولیے اور آڑتی لے جائیں، جب ایک ماں اپنے بچوں کا علاج نہ کرواسکے تو ایسی جمہوریت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے یا ظلم کے ایک نئے چہرے کا نام؟ یہ سوال صرف نیپال کا نہیں یہ سوال پاکستان کا بھی ہے، بھارت کا بھی، اور دنیا کے ہر اس خطے کا جہاں عوام جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔
نیپال کے حالیہ بحران نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے اور حکومت بنانے کا عمل نہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جب تک جمہوریت عوام کی اکثریت کو تعلیم، صحت، روزگار اور وقار نہیں دیتی تب تک یہ جمہوریت نہیں بلکہ اس کا مذاق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اصل روح صرف اس وقت زندہ رہتی ہے جب حکومت اکثریت کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام خواہ وہ نیپال کے ہوں یا پاکستان کے ایک بار پھر اپنی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئیں گے اور ان سے ان کی اصل طاقت چھیننے والوں کو بے نقاب کر دیں گے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے کہ جمہوریت جمہوریت کا عوام کی ا رہے ہیں کے لیے اب بھی
پڑھیں:
مودی سرکار کی جمہوریت کے نام پر الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے دھوکا دہی بے نقاب
بی جے پی کی کٹھ پتلی بھارتی مودی سرکار کی جمہوریت کے نام پر الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے دھوکا دہی بے نقاب ہو گئی۔
بھارتی الیکشن کمیشن فرائض کے برعکس ہندوتوا نظریے کا آلہ کار ہے۔ مودی کی شرمناک حکومت اور جانبدار الیکشن کمیشن عوامی مینڈیٹ کےقاتل بن چکے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق راہول گاندھی نے بھارتی الیکشن کمشنر پر جمہوریت کو قتل کرنےوالوں کی حفاظت کا الزام لگا دیا۔ اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ووٹ چوروں کو بچا رہا ہے جو جمہوریت کا قتل کر رہے ہیں۔
راہول گاندھی کے مطابق ووٹرز کے نام جان بوجھ کر حذف یا شامل کیے گئے ہیں تاکہ بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں جتوایا جا سکے۔ ہمارے الزامات سو فیصد ثبوت کے ساتھ ہیں، مگر الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ کرناٹک کے الانڈ حلقے میں6ہزار سے زائد ووٹرز کے نام حذف کیے گئے جو کانگریس کے مضبوط علاقے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نام زیادہ تر اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے لوگوں کے تھے جو کانگریس کے حامی تھے۔ کرائم ڈیپارٹمنٹ نے 18 ماہ میں18خطوط الیکشن کمیشن کو لکھے مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک ہفتے کے اندر تفصیلات جاری کریں۔
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ مہاراشٹر کے راجورہ حلقے میں 6,850 جعلی نام ووٹر لسٹ میں شامل کیے گئے۔
بی بی سی کے مطابق کمیشن نے مہاراشٹرا کے راجورہ حلقے کے الزامات پر کوئی جواب نہیں دیا۔ سابق چیف الیکشن کمشنرز نے کہا انتخابی عمل کی ساکھ پر شکوک و شبہات دور کرنا کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔
بی جے پی حکومت اور الیکشن کمیشن کی گٹھ جوڑ نے بھارتی جمہوریت کو دفن کر دیا ہے۔ مودی کے سفاک راج میں انتخابی دھاندلی عوامی رائے کو دبانے اور آمریت مسلط کرنے کا کھلا ثبوت ہے۔