Express News:
2025-11-05@10:00:33 GMT

نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

جنوبی ایشیا کے پہاڑوں کے درمیان چھپا ہوا چھوٹا سا ملک نیپال آج ایک بار پھر سیاسی بحران کی زد میں ہے۔ چند دہائیاں پہلے تک یہ بادشاہت کے سائے میں سانس لینے والا سماج تھا، پھر عوامی تحریکوں نے اس بادشاہت کے پرخچے اڑائے اور جمہوریت کے خواب نے وہاں کے عوام کی آنکھوں میں چمک پیدا کی لیکن اب چند ہی برسوں میں وہی خواب بکھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ فوجی مداخلت اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی نے اس بات کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ جمہوریت صرف انتخابی کھیل یا ناموں کی شعبدہ بازی نہیں۔

نیپال کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کو اشرافیہ کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو جمہوریت اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ یہ کُو یا بغاوت دراصل اسی مایوسی اور محرومی کی پیداوار ہے جو عوام برسوں سے جھیلتے آ رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کو سب سے زیادہ غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر حکمران سمجھتے ہیں چونکہ عوام نے انھیں ووٹ دے دیا ہے، اس لیے اب وہ عوام پر حکومت کرنے کے مجاز ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا مفہوم کبھی بھی صرف اقتدار حاصل کرنے تک محدود نہیں رہا۔ جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثریت کے خواب، اکثریت کی ضرورتیں اور اکثریت کی محرومیاں حکومتی پالیسی کا مرکز ہوں، اگر کسان اب بھی زمین سے محروم ہے، مزدور اب بھی بھوک اور بیروزگاری کے عذاب میں مبتلا ہے۔ عورت اب بھی سماجی ناانصافی اور ریاستی بے حسی کا شکار ہے تو ایسی جمہوریت کاغذ پر موجود ہو سکتی ہے لیکن عوام کے دل میں اس کی کوئی جگہ نہیں رہتی۔

 نیپال کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں جدوجہد اور خوابوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے۔ وہاں کے عوام نے بادشاہت کے خلاف قربانیاں دیں شاہی فوج کے تشدد کو برداشت کیا پہاڑوں اور میدانوں میں احتجاجی جلوس نکالے۔ ان سب کا مقصد یہ تھا کہ اقتدار چند ہاتھوں سے نکل کر عوام کی اکثریت کو منتقل ہو لیکن جب وہاں کی جماعتیں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے جمہوریت کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے ذاتی مفاد اور بدعنوانی کی نذر کر دیا۔

وہی سیاست دان جو عوامی نعروں کے سائے میں تختِ اقتدار پر بیٹھے تھے وہ سرمایہ داروں اور سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے کے خدمت گار بن گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ ان میں اضافہ ہوا ، غربت بڑھی نوجوان بیروزگار ہوئے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام نے لوگوں کے اعتماد کو چکنا چورکر دیا۔ یہ مسئلہ صرف نیپال تک محدود نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا جنوبی ایشیا کا ہر ملک اس سوال سے دوچار ہے۔ جمہوریت کس کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف اقتدار کی بندر بانٹ کے لیے ہے یا پھر یہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا ایک راستہ ہے؟

مغربی دنیا ہمیں بار بار یہ باور کراتی ہے کہ جمہوریت ان کا تحفہ ہے لیکن خود وہاں بھی جمہوریت امیروں کے کھیل میں بدل چکی ہے۔ فرانس میں مزدور بار بار سڑکوں پر نکلتے ہیں کیونکہ جمہوری حکومتیں بھی ان کی پنشن ان کے اوقاتِ کار اور ان کے مستقبل پر ڈاکا ڈالتی ہیں۔ امریکا میں انتخابات کی اصل طاقت کارپوریشنوں اور ارب پتیوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر استحصال کی ایک نئی شکل رائج کی جا رہی ہے۔

سچی جمہوریت وہ ہے جہاں حکومت عوام کی بھلائی کو سب سے مقدم سمجھے جہاں تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف سب کے لیے برابر ہو۔ جہاں کسان اور مزدورکو وہی عزت ملے جو کسی بڑے سرمایہ دار یا جاگیردار کو دی جاتی ہے۔ جہاں ریاست کے فیصلے اقلیت کے مفاد میں نہیں بلکہ اکثریت کے فائدے میں ہوں، اگر عوام کی اکثریت بھوک، بیماری اور ناانصافی کی شکار ہے تو پھر ایسی جمہوریت محض ایک فریب ہے۔ یہ وہی صورتِ حال ہے جو نیپال میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کے عوام نے جب دیکھا کہ ان کے ووٹوں سے آنے والی حکومتیں ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کر رہیں تو ان کا اعتماد ٹوٹ گیا اور اسی ٹوٹے ہوئے اعتماد نے ملک کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا۔

نیپال کی بغاوت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم جمہوریت میں واقعی عوام کو مرکز بنا رہے ہیں؟ یا پھر ہماری پارلیمان اور حکومتیں چند خاندانوں، چند سرمایہ داروں اور چند طاقتور اداروں کی گرفت میں ہیں؟ اگر جمہوریت صرف اقتدار کا کھیل ہے تو اس کا انجام ہمیشہ مایوسی اور بغاوت ہی ہوگا۔ عوام بار بار یہ سوال اٹھائیں گے کہ ان کی قربانیوں کا صلہ انھیں کیوں نہیں ملا ؟ وہ کیوں اب بھی اندھیروں میں ہیں جب کہ اقتدار کے ایوان روشنیوں سے جگمگا رہے ہیں؟

میں اکثر سوچتی ہوں کہ جب کسی غریب کا بچہ اسکول جانے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہو، جب کسی کسان کی فصل کا سارا نفع بیچولیے اور آڑتی لے جائیں، جب ایک ماں اپنے بچوں کا علاج نہ کرواسکے تو ایسی جمہوریت کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے یا ظلم کے ایک نئے چہرے کا نام؟ یہ سوال صرف نیپال کا نہیں یہ سوال پاکستان کا بھی ہے، بھارت کا بھی، اور دنیا کے ہر اس خطے کا جہاں عوام جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔

نیپال کے حالیہ بحران نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ جمہوریت محض ووٹ ڈالنے اور حکومت بنانے کا عمل نہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جب تک جمہوریت عوام کی اکثریت کو تعلیم، صحت، روزگار اور وقار نہیں دیتی تب تک یہ جمہوریت نہیں بلکہ اس کا مذاق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اصل روح صرف اس وقت زندہ رہتی ہے جب حکومت اکثریت کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب عوام خواہ وہ نیپال کے ہوں یا پاکستان کے ایک بار پھر اپنی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئیں گے اور ان سے ان کی اصل طاقت چھیننے والوں کو بے نقاب کر دیں گے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ جمہوریت جمہوریت کا عوام کی ا رہے ہیں کے لیے اب بھی

پڑھیں:

تعریفیں اور معاہدے

دنیا کی سیاست میں کبھی کوئی دوستی مستقل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی دشمنی ہمیشہ کے لیے ٹھہری۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی مفاد پرستی پر ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکا پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی امریکا بھارت کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگا رہا ہے۔

بات صرف فوجی تعاون تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، تجارت، ایٹمی توانائی اور خلائی تحقیق تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں جب امریکی صدر یا وزیر پاکستان کے حق میں کوئی تعریفی بیان دیتا ہے تو ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھل جاتے ہیں جیسے کوئی بڑی فتح حاصل ہو گئی ہو مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعریفوں کے پیچھے جو سیاست چھپی ہے، وہ دراصل مفادات کا جال ہے اور اس جال میں ہم برسوں سے الجھے ہوئے ہیں۔

امریکا نے سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ کبھی روس کے خلاف مورچہ بنوایا، کبھی افغانستان کے جہاد میں دھکیلا اور جب مقاصد پورے ہوگئے تو تنہا چھوڑ دیا۔ بھارت اُس وقت غیر جانبداری کے فلسفے پرکاربند تھا، پنڈت نہرو اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں سامراج کی مخالفت کرتے تھے، مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ اب بھارت، امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ رکھتا ہے۔ کل تک جو ملک غیر جانبدار تھا، آج وہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہی ہے سرمایہ داری کی نئی شکل جہاں طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتے ہیں۔

امریکا کے نزدیک دوستی کا معیار اصول نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے۔ جہاں خرید و فروخت زیادہ ہو جہاں سرمایہ کاروں کے لیے راستے کھلیں وہیں سفارت کاری بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی برابرکی بنیاد پر نہیں رہے۔ کبھی ہمیں امداد کے وعدوں سے بہلایا گیا،کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں مانگی گئیں۔ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی دی جا رہی ہے اور ہمیں دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہی ہے اس دنیا کی طاقت کی حقیقت ہے جہاں دوستی بھی ناپ تول کرکی جاتی ہے۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کسی بڑی طاقت کی تعریف کے محتاج رہے۔ کبھی امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیاں بدلیں،کبھی چین کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپنی خود مختاری کو بیرونی تعلقات کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔ ہر بار جب واشنگٹن سے کوئی تعریفی لفظ سنائی دیتا ہے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید تاریخ بدلنے والی ہے لیکن وہ لفظ صرف سفارتکاری کا ایک جملہ ہوتا ہے جس کے پیچھے سود و زیاں کی طویل فہرست چھپی ہوتی ہے۔

ادھر بھارت میں سامراج کی آغوش میں بیٹھے رہنماؤں کو یہ فخر ہے کہ امریکا نے انھیں چین کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ انھیں معلوم نہیں کہ یہ قربت وقتی ہے۔ جس طرح ایک وقت میں امریکا نے صدام حسین، ضیاء الحق اور دیگر حلیفوں کو استعمال کیا، اسی طرح بھارت بھی ایک دن اس کھیل کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ یہ دوستی نہیں، یہ سرمایہ دارانہ ضرورت ہے اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔

امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاہدے دراصل اس خطے کو مزید عسکری مسابقت میں جھونک رہے ہیں۔ ہر نئے دفاعی معاہدے کے بعد جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہو جاتی ہے۔ عوام بھوک بے روزگاری اور مہنگائی میں پس رہے ہیں مگر حکمران اسلحے کے سودوں پر مسکرا رہے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاع پر صرف ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے بچی کھچی رقم بھی عالمی اداروں کے قرضوں کے سود میں چلی جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ترقی پسند قلم سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہ تعریفیں اور معاہدے عوام کے کس کام کے ہیں؟ امریکا کے کسی صدرکے چند جملے یا بھارت کے ساتھ ہونے والا کوئی بڑا معاہدہ نہ تو اس خطے کے مزدور کے چولہے کو جلا سکتا ہے، نہ ہی کسی کسان کے کھیت کو سیراب کر سکتا ہے۔ جب تک خطے کی قومیں اپنی پالیسیاں عوامی مفاد کے مطابق نہیں بنائیں گی تب تک یہ تمام معاہدے صرف طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں گے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے عوام کی خوشحالی کو اسلحے کے انبار سے زیادہ اہم سمجھیں۔ وہ دن شاید دور نہیں جب سامراجی طاقتوں کی مسکراہٹوں میں چھپی دھوکا دہی پہچانی جائے گی۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعریف پہ توجہ نہ دیں بلکہ یہ دیکھیں کہ معاہدوں کے کاغذوں پرکس کا خون اورکس کی محنت لکھی جا رہی ہے۔ سچی آزادی وہی ہے جو عوام کے شعور اور خود اعتمادی سے پیدا ہو نہ کہ کسی طاقتور ملک کے عارضی کلماتِ تحسین سے۔

 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔ کوئی بیرونی طاقت نہ ہماری آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے نہ ہماری معیشت کی ضامن۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور امن کا راستہ اسلحے سے نہیں بلکہ تعلیم روزگار اور انصاف سے گزرتا ہے۔جب تک عوام کو اپنی قوت پر یقین نہیں آئے گا، تب تک وہ طاقتور ممالک کی تعریف کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ قومی وقار کسی دوسرے ملک کے بیانات سے نہیں بلکہ اپنے عمل اپنی محنت اور اپنی خود داری سے حاصل ہوتا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہمیں واقعی ترقی اور آزادی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں اپنی داخلی سیاست میں شفافیت انصاف اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب ریاست اپنی عوام کو بااختیار بناتی ہے تو بیرونی طاقتیں خود بخود کمزور ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو حقیقی آزادی کا زینہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی خود مختاری یقینی بنائی جائے، جاوید قصوری
  • تعریفیں اور معاہدے
  • 27ویں ترمیم کا فیصلہ ہو چکا، پیپلزپارٹی ٹوپی ڈرامے میں شریک: اسد قیصر
  • 27ویں ترمیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سب کو پتا ہے کون کروارہا ہے، حامد خان
  • کراچی میں کیمرے چالان کر سکتے ہیں، دندناتے مجرموں کو کیوں نہیں پکڑ سکتے؟ شہریوں کے سوالات
  • علی امین گنڈاپور کو کیوں ہٹایا گیا؟ گورنرخیبر پختونخوا کا سوال
  • پیپلز پارٹی آئینی عدالت پرمتفق، میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں،رانا ثناء
  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • خطے کے استحکام کا سوال