انقلاب اور جمہوریت سے دور ہوتا ہوا نیپال
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
جب مجھے انجمن ترقی پسند مصنفین نے 1999 میں وفد کے سربراہ کے طور انجمن ترقی پسند مصنفین ہند کی کانگریس میں چندی گڑھ بھیجا تو وہاں کمیونسٹ رہنما گولڑہ صاحب سے لے کر دلبیر سنگھ، شمیم فیضی، علی جاوید،کشمیری لال ذاکر،قمر رئیس، نور ظہیر اور لا تعداد دوستوں سے ملاقات رہی، چندی گڑھ اور شملہ میں ایک ہفتے قیام کے بعد ہماری اگلی منزل کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا مرکزی دفتر ’’ اجے بھون‘‘ دہلی تھا،جہاں پر سیتارام یچوری اور شبنم ہاشمی ہمارے مہمان نواز بنے۔
دہلی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے صدر مقام اجے بھون میں قیام کے دوران سی پی آئی کے سیکریٹری ابے بی بردھان سے روز دوپہر کے کھانے پر ملاقات رہتی اور خطے کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی رہتا، اس زمانے میں سی پی آئی کے موجودہ سیکریٹری جنرل اے ڈی راجا پارٹی کے سیاسی ترجمان کے فرائض ادا کیا کرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ اجے بھون میں ایک نشست خطے کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اے بی بردھان کے ساتھ ہوئی جس میں توقیر چغتائی بھی شریک تھے۔
اس ملاقات میں ہمارا موضوع خطے اور خاص طور پر نیپال کی سیاسی صورتحال تھا جس میں کہ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کے بہت قلیل مدت کے لیے پہلے کمیونسٹ وزیراعظم من موہن ادھیکاری منتخب ہوئے تھے، من موہن ادھیکاری نیپال کے وہ کمیونسٹ وزیر اعظم رہے، جنھوں نے صدیوں کی بادشاہت کے خاتمہ کر کے ملک کو پہلا دستور دیا تھا، یاد رہے کہ یہ ملاقات مارچ 1999 کے پہلے ہفتے میں ہوئی تھی جب من موہن ادھیکاری زندہ تھے اور بیماری کے باوجود نیپال کی سیاست کا اہم کردار تھے، ادھیکاری کی ابتدائی تربیت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں ہوئی تھی، یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر من موہن ادھیکاری کی سیاست کے گرد و پیش سے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور انڈیا کی پارٹی گہری نظر رکھے ہوئے تھی، مجھے جو پیغام پہنچانا تھا وہ پہنچا کر میں بردھان صاحب سے نیپال کی پیچیدہ صورتحال پر رہنمائی چاہتا تھا۔
اے بی بردھان نہایت کم گو اورگہری نظر کے فرد تھے،انھوں نے ہم دونوں کو غور سے دیکھا اور گویا ہوئے کہ’’ دیکھیں کامریڈ ہمیں نیپال کی دہائیوں سے قائم بادشاہت کا بہت غور سے جائزہ لینا ہوگا کیونکہ نیپال کی بادشاہت عالمی سامراج کا وہ مضبوط حصہ ہے جس کی سیاست کے اثرات ہندوستان اور پاکستان پر اثر انداز ہوتے ہیں لٰہذا ہمیں نیپال میں جمہوریت لانے کے لیے مسلسل نظریاتی جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ بادشاہت کے خاتمے سے محلاتی و سامراجی سازشیں یا جمہوریت کو کمزورکرنے کی کوششیں بہت جلد قابو میں آنے والی نہیں۔
اے بی بردھان نے کہا کہ نیپال کے ادھیکاری نے یہ بات بہت جلد سمجھ لی جو ایک اچھے کمیونسٹ کی نشانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ نیپال میں بڑا ترقی پسند اتحاد جوڑنے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں کیونکہ نیپال کی سیاست میں فرمانبرداری اور بادشاہی لالچ و انعام و اکرام کا اثر دہائیوں کے بعد ہی کم کیا جاسکے گا، یہی ادھیکاری کی سیاست کا وہ محور ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے، ادھیکاری کی یہ درست سوچ ہے، نیپال میں کسی نہ کسی طرح جمہوری عمل چلتا رہے تاکہ بادشاہت کے اثرات سے عام عوام باہر نکل سکیں، بردھان گویا تھے کہ ادھیکاری اور وہاں کے جمہوری پسند مل کر پہلے نظام کو مضبوط کر لیں جو کہ نہایت مشکل کام ہے کہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ نیپال کے دھرم کا حصہ بادشاہت بھی ہے جس کو عالمی سامراج کسی نہ کسی طور سپورٹ کرتا رہے گا۔
لہٰذا ادھیکاری کا ماننا ہے کہ مختلف جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کے ساتھ کمیونسٹ اتحاد بنتا رہے تاکہ بادشاہت کے اثرات کو ہم چوٹ لگاتے رہیں اور دوسری جانب کمیونسٹوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ نیپال کے اقتدار میں اہم عہدوں سے دور رہیں کہ جن عہدوں کا تعلق براہ راست عوام کے حقوق دینے سے ہو،کیونکہ نیپال کے سیاسی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کمیونسٹ یا ان کا اتحاد براہ راست حکومت کرے، اس سلسلے میں ادھیکاری کا عہدہ چھوڑنا ایک مستحسن قدم تھا جس کے بعد تمام کمیونسٹ پارٹیوں کو نچلی سطح پر پہلے منظم کرنا ہوگا، اس کے بعد عوام کی مکمل تائید سے ہی اقتدار لیا جائے تو درست عمل ہوگا،جس میں نیپال کے آئین میں بہت ضروری اصلاحات کی ضرورت باقی ہے جو بادشاہت کی باقیات اور سامراجی عزائم اتنی آسانی سے ہونی نہیں دیں گے، کم و بیش یہی باتیں ہمارے دوستوں کے ساتھ اے بی بردھان اورکامریڈ سرجیت سنگھ سے 2005 میں ان کے کراچی کے دورے کے دوران ہوئیں جب کہ ادھیکاری اس وقت حیات نہیں تھے۔
نیپال کی موجودہ سیاسی صورت حال کو خاص طور پر ہمارے ہاں دیکھنے کے جذباتی زاویے سامنے آرہے ہیں،کچھ کے نزدیک یہ نوجوانوں کی انقلابی تحریک ہے،کچھ کے نزدیک یہ خطے میں ترقی پسند سیاست کے خاتمے کا نام ہے تو کچھ کے خیال میں یہ نیپال کے سیاسی اتحادی حکومت کی بیڈ گورننس کا معاملہ ہے۔
ان سارے خیالات کے درمیان ایسے مواقع پر یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ کچھ این جی اوز زدہ افراد کو جمہوریت اور عوام کے حقوق کی حاصلات نہ ملنے کا شدید غم ہے، جو بظاہر مثبت بات ہے مگر اس سارے عمل سے اس بات کی عکاسی بھی ملتی ہے کہ پاکستان میں آمریتوں کے اقتدار اور ملک میں بار بار جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کی پالیسی دراصل سیاسی قوتوں کے سامنے عالمی سامراج اور آمریتوں کی چھتر چھایہ میں پرورش پانے والی بیرونی ذرایع کی فنڈڈ این جی اوز کے کرتا دھرتاؤں کے لیے پاکستان میں سیاسی عمل کے مقابل ایک منصوبہ بند اسپیس یا گنجائش پیدا کرنے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ پاکستان کی لولی لنگڑی سیاست کو بھی دفن کرکے نیپال کی مانند ’’جنریشن زی‘‘ نما ایک عوامی تحریک کھڑی کی جائے، سو سامراجی فنڈز کی این جی اوز کے تحت عوامی حقوق اور انسانی حقوق کے خوشنما نعروں میں ایک ایسا سیاسی ابھار لایا جائے جو پاکستان کی لنگڑاتی ہوئی سیاست کو مکمل اپاہج کردے اور سامراجی فنڈڈ این جی اوز کو عوام کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جائے جیسا بنگلہ دیش میں گرام بینک کے سامراجی کردار میں فوج کو اقتدار سونپا گیا ہے، اسی طرح ’’ جنریشن زی‘‘ تحریک کی آڑ میں نیپال کا اقتدار بادشاہ اور سامراج کی وفادار فوج کو سونپ دیا گیا ہے۔
نیپال کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ماؤسٹ پارٹی کے رہنما چنڈا کے بیان کو ایک تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے کر دراصل نیپال کی ’’ حامی نیپال‘‘ یعنی we are Nepal این جی او اور جنریشن زی کی پشت پر ماؤسٹ کی موجودگی کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے ممکنہ نتائج ماؤسٹوں کی نیپال کی سیاست پر گرفت قائم کرنے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے۔ نیپال کی اپوزیشن جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ( ماؤسٹ سینٹر) کے سیکریٹری چنڈا کے ان حالات میں پورے بیان کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے جو اپنی خدمات فوج کو دینے کے لیے تیار نظر آتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح کچھ مذہبی و سیاسی جاعتوں نے جمہوریت کے مقابل جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے سہولت کارکا کردار ادا کیا اور پاکستان میں جمہوریت کو آج تک پنپنے نہیں دیا۔
نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں نہ کوئی انقلابی ابھار آیا ہے اور نہ ہی یہ عوام کی وہ تحریک ہیں جو عوام کو حقیقی جمہوریت کی آزادی دلوا سکے، یہ صرف اور صرف خطے میں امریکی مفادات کے زور کو قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جس میں ماؤسٹ اور ٹرائسکائٹ کو انقلابی ابھار نظر آرہے ہیں جیسا کہ پاکستان میں لا تعداد افراد کو پیپلز پارٹی میں سوشل ازم نظر آرہا تھا یا کچھ کو جنرل ضیا کی حامی سیاسی جماعت میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نظر آرہی تھی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
صبح سویرے فائبر والی غذا کھانے کے فوائد
صبح سویرے فائبر سے بھرپور غذا لینا صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ ڈاکٹرز اور ماہرینِ غذائیت اکثر دن کا آغاز ہائی فائبر ناشتہ سے کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔
ہاضمے میں بہتری
فائبر آنتوں کو حرکت میں مدد دیتا ہے۔ صبح فائبر کھانے سے دن بھر قبض سے بچاؤ اور ہاضمہ بہتر رہتا ہے.
بھوک پر قابو
فائبر دیر سے ہضم ہوتا ہے، اس لیے زیادہ دیر تک پیٹ بھرا ہوا لگتا ہے۔ اس سے غیر ضروری کھانے کی عادت کم ہوتی ہے۔
توانائی میں توازن
فائبر کاربوہائیڈریٹس کو آہستہ آہستہ خون میں جذب ہونے دیتا ہے۔ اس سے شوگر لیول اچانک اوپر نیچے نہیں ہوتا اور دن بھر مستحکم توانائی ملتی ہے۔
وزن پر قابو
چونکہ فائبر پیٹ کو دیر تک بھرا رکھتا ہے، اس لیے وزن کنٹرول کرنے میں مددگار ہے۔
دل کی صحت
فائبر خاص طور پر soluble fiber کولیسٹرول کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ دل اور بلڈ پریشر کے لیے فائدہ مند ہے۔
شوگر کے مریضوں کے لیے مفید
فائبر خون میں گلوکوز کا لیول آہستہ بڑھنے دیتا ہے جس سے شوگر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔