روس کا یوکرین کے مشرق میں واقع گاﺅں بریزووے پر قبضہ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
ماسکو:۔ روسی افواج نے یوکرین کے مشرقی علاقے میں واقع گاﺅں بریزووے کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ روسی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قبضہ ایک منظم فوجی کارروائی کے دوران کیا گیا، جس میں یوکرینی افواج کو پسپا ہونا پڑا۔
روسی وزارتِ دفاع کے مطابق اس کی افواج نے اس کارروائی کے ساتھ ساتھ یوکرین کی عسکری اورصنعتی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا جن میں اسلحہ کے ذخائر اورفوجی تنصیبات شامل ہیں۔
ادھر یوکرین نے روسی دعوﺅں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فوجی اب بھی محاذ پرڈٹے ہوئے ہیں اور حملوں کا موثر جواب دے رہے ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا اور عام شہری بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں بھاری جانی و مالی نقصان کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ روسی فوج کی جانب سے جاری حملوں سے یوکرین کے متعدد علاقوں میں بجلی اور مواصلاتی نظام بھی متاثر ہوا ہے جبکہ عالمی برادری نے فوری طور پر فریقین سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
مشرقِ وسطیٰ کا نیا دفاعی منظرنامہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250921-03-2
حالیہ دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک بڑے مباحثے کا موضوع بن چکا ہے۔ اس معاہدے نے جہاں پاکستان کی جوہری صلاحیت کو ایک وسیع تر دائرہ کار میں لا کھڑا کیا ہے، وہیں مشرقِ وسطیٰ کے عدم استحکام کے پس منظر میں اس کے اثرات مزید پیچیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں، قطر پر حالیہ حملے اور خلیج تعاون کونسل کے غیرمعمولی اقدامات نے اس معاہدے کو ایک ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے امریکا پر لٹائی جانے والی دولت عرب ممالک کی دفاع میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی ہے اور اسرائیل اپنی دہشت گردی کا دائرہ پھیلائے گا اور یہی وجہ ہے اب مشرق وسطیٰ میں بے چینی پائی جاتی ہے یہ کب تک رہتی ہے ابھی یہ سوال ہے لیکن مستقبل میں اصل معرکہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ہی ہونا ہے۔ اسرائیل نے حالیہ برسوں میں جس انداز سے جارحانہ حکمت ِ عملی اختیار کی ہے، وہ صرف فلسطین یا لبنان تک محدود نہیں رہی بلکہ قطر پر براہِ راست حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اب خطے کے ہر ملک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے۔ عالم ِ اسلام کو یہ ادراک تو ہو گیا ہے کہ باری آنے والی ہے اور سب کی نظریں اب پاکستان پر مرکوز ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور عسکری قوت ہی وہ واحد رکاوٹ ہے جو اسرائیلی عزائم کے سامنے ڈٹ سکتی ہے اور بھارت سے معرکے نے پاکستان کی طرف دوست دشمن سب کو پھر متوجہ کرلیا ہے۔ گوکہ پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کے بعد ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس کی جوہری صلاحیت صرف بھارت کے خلاف دفاعی توازن قائم رکھنے کے لیے ہے۔ یہ مؤقف عالمی سطح پر پاکستان کو ایک ذمے دار ایٹمی قوت کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ تاہم، حالیہ دفاعی معاہدے نے اس مؤقف کو نئے زاویے سے اُجاگر کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنی جوہری چھتری کو سعودی عرب اور وسیع تر خلیجی خطے تک وسعت دے رہا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاہدے نے سعودی سرمایہ اور پاکستانی عسکری صلاحیت کو یکجا کردیا ہے۔ اگرچہ تفصیلات خفیہ ہیں، لیکن سعودی اشارے بتاتے ہیں کہ یہ تعاون صرف روایتی ہتھیاروں یا فوجی مشقوں تک محدود نہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو اسرائیل اور بھارت کی تشویش کا باعث ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اب ایک بڑے مسلم اتحاد کے تحفظ کے طور پر بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ دوحا پر اسرائیل کا حملہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک انتباہ تھا۔ حماس کے وفد پر حملے نے یہ واضح کردیا کہ اسرائیل اب کسی بھی خلیجی ریاست کو براہِ راست نشانہ بنانے سے نہیں ہچکچائے گا۔ اسی لیے خلیج تعاون کونسل نے اجتماعی دفاع کو مضبوط کرنے کے فیصلے کیے ہیں۔ انٹیلی جنس کے تبادلے، بیلسٹک میزائلوں کے خلاف ابتدائی انتباہی نظام اور مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان اس نئی تبدیلی کی علامت ہیں۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ خطے کے ممالک اپنی بقا کے لیے اب مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ورنہ آنے والے وقت میں ان کے لیے کچھ بہت اچھا نہیں ہونا والا۔ اسی پس منظر میں پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ بظاہر ایک موقع ہے۔ سعودی عرب کو تحفظ، پاکستان کو سرمایہ کاری اور مسلم دنیا کو اتحاد کا پیغام ہے، یہ تین بڑے فوائد تو ہیں، بس یہ خواب نہ بن جائے۔ لیکن اس کے ساتھ خطرات بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کی جوہری پالیسی پر سوالات اٹھیں گے اور عالمی برادری اسے عدم پھیلاؤ کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دے سکتی ہے۔ بھارت اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرے گا اور پاکستان کو عالمی دباؤ میں لانے کی کوشش کرے گا۔ ایران اور دیگر علاقائی قوتیں بھی اس معاہدے کو شک کی نظر سے دیکھیں گی اسی لیے یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سعودی عرب اور ایران عالم اسلام کے لیے حقیقی معنوں میں قریب آئے یہ دنوں کے لیے ضروری ہے ورنہ دشمن و متحد ہے اور سامنے ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے حالیہ خطاب میں سعودی عرب کو ایک نئے باب کے آغاز کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب اختلافات کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کو دشمن تسلیم کیا جائے اور متحد ہو کر اس کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ بیان خطے کی سیاست میں ایک نئی صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ اگر سعودی عرب اور حزب اللہ کسی نئے مکالمے کی طرف بڑھتے ہیں تو مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن مزید بدل سکتا ہے۔ اسرائیل کے اہداف صرف فلسطین یا لبنان تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب، ایران اور یمن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں حزب اللہ کا یہ بیانیہ خلیجی ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ دشمن پر توجہ مرکوز کریں۔ جی سی سی کے حالیہ فیصلے امید افزا ضرور ہیں، لیکن ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ سیاسی رقابتیں اور داخلی اختلافات اکثر ان کوششوں کو ناکام بناتے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کے تعلقات میں کشیدگی یا امارات اور عمان کے مختلف مؤقف، اس اتحاد کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا یہ حالیہ اقدامات وقتی ردِعمل ہیں یا ایک مستقل دفاعی ڈھانچے کی بنیاد ہیں؟ دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ اس دفاعی معاہدے کے معاشی پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری، ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نئے نظام اور اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات کو سہولت دینے کے امکانات پاکستان کی معیشت کے لیے بڑی خبر ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ، ڈیموں کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اگر سعودی اور چینی سرمایہ کاری کے ساتھ جڑ جائیں تو پاکستان کی ترقی کو نئی رفتار مل سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے اندرونی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل سے مشروط ہے۔ یہ معاہدہ صرف مشرقِ وسطیٰ یا جنوبی ایشیا تک محدود نہیں۔ امریکا، یورپ، روس اور چین سب اسے اپنے اپنے زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکا چاہے گا کہ سعودی عرب اس کے قریب رہے اور پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے۔ چین اسے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تناظر میں دیکھے گا۔ روس خلیجی خطے میں نئے مواقع تلاش کرے گا۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ایک توازن قائم رکھنا ناگزیر ضرور ہے لیکن اس میں اصل چیز تمام مسلمان ممالک کے لیے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو تحفظ ملے، فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد کو کامیابی ملے اور آج یہ جو کچھ سامنے آیا ہے، اس میں صرف فلسطین کے شہدا کی قربانی ہے لیکن اس میں صورت حال میں سعودی عرب کا تاریخی تعلق، چین کا تزویراتی اشتراک اور امریکا و یورپ کا دباؤ، یہ سب مل کر پاکستان کے لیے ایک کڑا امتحان ہیں۔ لیکن درحقیقت پاکستان، سعودی دفاعی معاہدہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ اس کے مثبت پہلو نمایاں ہیں: سعودی عرب کا تحفظ، ہر مسلمان کی ذمے داری ہے اس کی عالمی ساکھ میں اضافہ اور مسلم دنیا کے اتحاد کا پیغام بنا ہے لیکن اس کے خطرات بھی ہیں جس سے نمٹنا ہوگا، عالمی دباؤ، جوہری پالیسی پر سوالات اٹھیں گے، بھارت کو دشمن ضرورت استعمال کرے گا لیکن ان سب سے مثبت سوچ اور خوف کے بغیر لڑنا ہوگا، یہ چومْکھی لڑائی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاہدے کو شفافیت کے ساتھ آگے بڑھائے، پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لے اور عالمی برادری کے ساتھ مسلسل مکالمہ جاری رکھے اور ہر قدم حکمت و تدبر کے ساتھ اٹھایا جائے۔