مزدور مسائل کے حل کے لیے سندھ حکومت سے مطالبات
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائٹ لیبرفورم کے جنرل سیکرٹری بخت زمین خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ محکمہ محنت سندھ کے نمائشی وزیر کے وجہ سے محکمہ محنت کے تمام ادارے مکمل طور پر کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے مزدوروں کا فنڈ مزدوروں کے بجائے اداروں کے افسران اور سرکاری ملازمین کی ویلفیئر پر خرچ ہورہا ہیں اور موجودہ سیکرٹری لیبر رفیق قریشی کے آنے کے بعد تو صورتحال مزید خراب ہوگئی ہیں۔ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ، سوشل سیکورٹی سندھ میں تو اب صورتحال مزید خراب ہوگئی ہیں اور گورننگ باڈیاں بھی نام کی رہ گئی ہیں۔ ان دونوں اداروں میں کرپٹ افسران کا راج ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو اگر واقعی ورکرز سے ہمدردی ہیں تو صوبائی وزیر محنت سندھ اور سیکرٹری لیبر سندھ کو چینج کرکے مزدوروں سے ہمدردی رکھنے والا صوبائی وزیر محنت اور سیکرٹری لیبر لایا جائے جو ورکرز کے ساتھ انصاف کریں۔ ابھی تک شوشل سیکورٹی میں 60 فیصد ورکرز رجسٹریشن سے محروم ہیں جو 40 فیصد ورکرز رجسٹرڈ ہیں ان میں سے صرف 10 فیصد ورکرز کے پاس مزدور کارڈ موجود ہے باقی 30 فیصد ورکرز کا مزدور کارڈ نہ بنے کی وجہ سے علاج سے محروم ہیں اور جن 10 فیصد کا کارڈ بنا ہوا ہے وہ ورکرز سوشل سیکورٹی کے اسپتالوں ڈسپنسریوں میں ادویات اور علاج کے لیے شوشل سیکورٹی میں کرپٹ مافیا کے اذیت کا شکار ہے اور سیکرٹری لیبر اور سوشل سیکورٹی کے کرپٹ افسران آئے روز نئے رولز بناکر ورکرز کو پریشان کرتے ہیں تاکہ یہ 10 فیصد ورکرز بھی علاج کے لیے نہ آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سوشل سیکورٹی سرکاری ملازمین کے لیے بنا ہیں کیونکہ کیسی بھی سرکاری ادارے میں وہ مراعات نہیں مل رہا ہے جو اس ادارے میں سرکاری ملازمین اور افسران کو حاصل ہے جبکہ یہ ادارہ ٹوٹل صنعتی ورکرز کے کنٹوبیش پر قائم ادارہ ہیں جو علاج سے محروم ہیں۔ اس طرح سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کا بھی یہی حال ہے سرکاری افسران اور ملازمین کو تمام وہ سہولیات میسر ہیں جو سندھ کے کیسی اور ادارے کے سرکاری افسران اور ملازمین کو حاصل نہیں ہے اور سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں بھی آئے روز ویلفیئر اسکیموں کو ختم کرنے کے لیے نئے نئے رولز بنائے جاتے ہیں تاکہ ورکرز کو ان ویلفیئر اسکیموں سے محروم کرسکے۔ جس کی ایک مثال سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ویلفیئر کارڈ ہیں۔ اب اگر سندھ کی صوبائی حکومت جوکہ پیپلز پارٹی کی ہے کے صوبائی وزیر محنت، سیکرٹری لیبر جو سیکرٹری سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ بھی ہے۔ کمشنر سوشل سیکورٹی سندھ، ڈائریکٹر جنرل لیبر سندھ اور دیگر ذمہ داران یہ بتائیں کہ سندھ میں کتنے صنعتی ورکرز کے پاس تقرری لیٹر ہیں۔ سندھ میں سوشل سیکورٹی اور EOBI میں کتنے فیصد ورکرز رجسٹرڈ ہیں اور کتنے فیصد ورکرز کے پاس سوشل سیکورٹی کارڈ ہیں۔ 70 فیصد ورکرز کے پاس تقرری لیٹر، سوشل سیکورٹی اور EOBI کارڈ نہیں ہے۔ صنعتی زونز میں لیبر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے اور یہ ذمہ داری محکمہ محنت کے سیکرٹری لیبر کے ماتحت لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ہیں جو سیکرٹری لیبر اپنی ذمہ داری فوری نہیں کرتا لیکن ورکرز سے کہتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری ورکرز پوری کریں یہ ظلم ہیں سندھ کے صنعتی ورکرز پر لہٰذا حکومت سندھ سے درخواست ہے کہ اگر واقعی پیپلز پارٹی مزدوروں سے ہمدردی رکھتی ہے اور یہ وہی قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی ہیں اور پارٹی پالیسی میں تبدیلی نہیں ہوئی تو صوبائی وزیر محنت کو تبدیل کرکے کراچی سے پیپلز پارٹی کے منتخب کسی بھی ایم پی اے کو جو کراچی کے محنت کش بستیوں سے منتخب ہوئے اور مزدوروں کے مسائل سے واقف ہیں۔ ان میں سے صوبائی وزیر محنت بنایا جائے۔ سوشل سیکورٹی سندھ اور سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے گورننگ باڈیوں میں حقیقی صنعتی ورکرز کے نمائندوں کو شامل کریں تاکہ ورکرز کے مسائل سے واقف ہونے کی وجہ سے ایسے رولز نہ بن سکے جس پر عملدرآمد کرنا مشکل ہو اور لیبر کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی حقیقی لیبر لیڈر کو شامل کیا جائے تاکہ ورکرزکو تمام قانونی حقوق مل سکے ورکرزکو تقرری لیٹر، سوشل سیکورٹی اور EOBI کارڈ مل سکے لیبر قوانین پر عملدرآمد ہوسکے۔ ٹریڈ یونین پر جو سندھ میں غیر اعلانیہ پابندی عائد ہیں وہ ختم ہوسکے۔ اور آئی ایل او سے مل کر جو مزدوروں اور ٹریڈ یونین پر جو شب خون مارنے کی کوشش ہورہی ہیں وہ ختم ہوسکے اگر یہی صورتحال رہی تو پیپلز پارٹی کی حکومت قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مزدور دوست پالیسی اور محکمہ محنت کے تمام اداروں کو تباہ کرنے میں برابر کے شریک ہوگی۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ سوشل سیکورٹی سیکرٹری لیبر ورکرز کے پاس پیپلز پارٹی صنعتی ورکرز فیصد ورکرز افسران ا ہیں اور ہیں جو ہے اور کے لیے
پڑھیں:
سندھ حکومت اور وفاق ایک پیج پر، گندم کی درآمد روکنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان اہم ملاقات میں گندم کی پیداوار بڑھانے اور کسی بھی صورت گندم درآمد نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
یہ ملاقات وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی رانا تنویر کے درمیان ہوئی جس میں چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ اور معاون خصوصی برائے خوراک جبار خان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ درآمد پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی کاشتکاروں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور معاونت کی جائے گی تاکہ ملک میں گندم کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ گندم کے حوالے سے ایک نیشنل پالیسی صوبوں کی مشاورت سے تشکیل دی جائے گی۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 3300 سے 4000 روپے کے درمیان ہے، اس لیے ایسی پالیسی بنانی ہوگی جس سے براہ راست کاشتکار کو فائدہ ہو، نہ کہ بیچ میں موجود مڈل مین کو۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو پہلے ہی فوڈ سکیورٹی کے خطرات کی نشاندہی کر چکے ہیں، اس لیے کاشتکاروں کو بہتر سپورٹ پرائس دینا ناگزیر ہے۔ گزشتہ سال گندم کی بوائی میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی تھی، اگر کسانوں کو اچھی قیمت دی جائے تو وہ گندم اگانے پر راغب ہوں گے۔
مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ سندھ میں سالانہ تقریباً 34 لاکھ 52 ہزار میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ اس وقت صوبے کے پاس 13 لاکھ 85 ہزار میٹرک ٹن ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف اجلاسوں میں سندھ اور بلوچستان کی ضروریات اور ذخائر کا جائزہ لیا گیا ہے، اور اندازوں کے مطابق نئی فصل آنے تک گندم کے ذخائر موجود رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال سب سے بڑی غلطی سپورٹ پرائس مقرر نہ کرنا تھی جس سے کاشتکاروں کو بھاری نقصان ہوا اور کئی کسان اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہوگئے۔
وفاقی وزیر رانا تنویر نے ملاقات میں کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر وہ گندم کے معاملے پر صوبوں سے بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ اسٹریٹیجک گندم کے ذخائر ہر حال میں موجود ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی اس حوالے سے بات ہوچکی ہے اور جلد ہی ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا تاکہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔