فلسطین کا دوریاستی حل درحقیقت اسرائیلی جارحیت کے آگے سرنڈر اور اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے‘ جاوید قصوری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں کشمیر ا ور غزہ میں ہونے والے مظالم کو پوری قوت کے ساتھ اٹھا ئیں،فلسطین کا دوریاستی حل درحقیقت اسرائیلی جارحیت کے آگے سرنڈر اور اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے، یہ قبول نہیں،غزہ میں امن قائم کرنے کے لئے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کا جنگی بندی کی قرار داد کو مسلسل ویٹو کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر معصوم مسلمانوں کو قتل عام کر رہا ہے ،اس کا اپنا دوہرا معیار ختم کرنا ہو گا ۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار مختلف عوامی وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیر اور غزہ میں امن قائم نہیں ہو گا اس وقت تک دنیا میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک طرف بھارت مسلسل جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے ، پاکستان کے اندر دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہے، کشمیر میں 90ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیا ہے تو دوسری جانب اسرائیل نے مظالم کی انتہا کر دی ہے ۔
غزہ جنگ میں 65ہزار نہتے مسلمان جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے لقمہ اجل بنادیا ہے ۔نائن الیون سے ابتک تقریباً 40لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی قوتوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ گلوبل صمود فلوٹیلا ‘‘ کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے ، اس قافلے کا مقصد اسرائیلی محاصرے کو ختم کروانا اور امدادکو مظلوموں تک پہنچانا ہے ۔محمد جاوید قصوری نے ملکی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت گھمبیر مسائل کی زد میں ہے ، مسلسل بحرانوں نے حکمرانوں کی صلاحیت اور قابلیت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ، کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہو ۔ مافیا ز نے کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے ساتھ
پڑھیں:
دوحا پر اسرائیلی جارحیت خطے کے ممالک کیلئے مقام عبرت
اسلام ٹائمز: اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ تحریر: نسیب حطیط (لبنانی تجزیہ کار)
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے قطر پر فضائی حملے کے ذریعے حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی ناکام کوشش کے چند ہی گھنٹے بعد قطر کے چینل الجزیرہ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی لائیو تقریر نشر کی جس میں اس نے حماس رہنماوں پر قاتلانہ حملے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کی اور مزید دھمکی دی کہ اگلے مرحلے میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اتحادی اور حماس کے اتحادی ترکی کو ٹھیک قطر کی طرح نشانہ بنائے گا۔ اسرائیل نے بارہا ثابت کیا ہے کہ مشرق وسطی میں کسی ملک کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کا احترام نہیں کرتا اور اسے حتی اپنے اتحادیوں، دوستوں، نوکروں اور ایجنٹوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں کی نظر میں تمام عرب "غیر یہودی" ہونے کے ناطے ان کے غلام ہیں، چاہے فرمانروا ہوں، امیر ہوں یا صدر ہوں اور چاہے مجاہد، سپاہی یا عام شہری ہوں۔
اسرائیل نے خلیجی ریاستوں پر حکمفرما اس "خیالی فضا" کو ختم کر دیا جس کی بنیاد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈوں کی تشکیل، امریکہ کو بھتہ دینے اور تحائف دینے کے ذریعے اپنی سیکورٹی یقینی بنانے جیسے اوہام پر استوار تھی۔ خلیجی ریاستوں کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کو دیے گئے اہم ترین تحائف میں فلسطین کاز سے دستبرداری اور لبنان، یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف اقدامات شامل ہیں۔ عرب حکمرانوں نے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر اسے تکفیری گروہوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا تکفیری گروہ جس نے اعلان کیا کہ اسرائیل اس کا دشمن نہیں ہے اور اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کے جنوبی حصوں پر اسرائیلی فوجی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ یہ امریکہ اور اسرائیل کو عرب ممالک کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
کوئی عرب ملک قطر کی مانند میڈیا اور سیاست کے شعبے میں اسرائیل اور امریکہ کی خدمت نہیں کر سکتا۔ قطر کے چینل الجزیرہ نے "عرب اسپرنگ" کی قیادت کی اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا۔ یوں یہ چینل تمام عرب محاذوں پر مجاہد کی حیثیت سے سرگرم رہا اور فلسطین خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کی آنکھوں کا کردار ادا کیا۔ اس بارے میں جو حقائق چھپے ہوئے ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں جو منظرعام پر آ چکے ہیں۔ دوحا پر اسرائیل کے فضائی حملے نے قطری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان تمام سازباز کرنے والوں کو بھی مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے جو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے اور اقتدار میں باقی رہنے کی خاطر اسرائیلی دشمن کا ہاتھ چومنے کے لیے جلدبازی کا شکار تھے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کے بارے میں دو امکان پائے جاتے ہیں جو دونوں ان کے لیے بہت تلخ ہیں:
پہلا امکان یہ کہ اسرائیل نے پیشگی اطلاع کے بغیر قطر پر فضائی حملہ انجام دیا ہے۔ ایسی صورت میں قطری حکمرانوں کو شرمندگی کا احساس ہونا چاہیے کیونکہ 1990ء کے عشرے سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات برقرار ہونے کے باوجود وہ قطر کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اسرائیل نے قطر کی خودمختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھا اور امریکہ کے ذریعے قطر کے حکمرانوں کو مطلع کر کے یہ حملہ انجام دیا ہے۔ یہ پہلے سے زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور قطر کے حکمران زیادہ مشکل صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ "العدید" قطر میں ہے اور سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں موجود امریکہ کے تمام فضائی دفاعی نظام اسرائیلی جنگی طیاروں کو روکنے میں ناکام ہوئے ہیں تو اس کا مطلب کیا بنتا ہے؟
اسی طرح اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں حکمرانوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے والے لبنانی حکمرانوں سے بھی چند سوالات ہیں: کیا قطر میں حماس کے پاس اسلحہ اور فوجی سازوسامان تھا جس سے اسرائیل کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا؟ کیا قطر کی فوجی طاقت اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ کیا جولانی کی سربراہی میں شام حکومت اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے؟ کیا فلسطین اتھارٹی کا اسلحہ اسرائیل کے لیے خطرہ ہے؟ ان سب نے اسرائیل کی خدمت کی ہے اور اسے تعلقات استوار کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل شام پر بمباری، قطر پر حملے اور فلسطین اتھارٹی کا محاصرہ کرنے سے باز نہیں آیا اور حتی ترکی کو بھی خفیہ بمباری کے ذریعے وہاں موجود حماس رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
اے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے میں جلدبازی کرنے والے لبنانی حکمرانو، آپ لوگوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ اسرائیل کو تحفے میں دینے کے لیے کیا ہے؟ نہ آپ کے پاس دولت ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ سیاسی کردار ہے جو قطر کے پاس ہے، نہ میڈیا طاقت ہے جو قطر کے پاس ہے، لہذا اسرائیل کبھی بھی آپ لوگوں کو احترام نہیں دے گا۔ اسرائیل اور امریکہ سے صرف طاقت کی زبان میں بات کی جا سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل صرف طاقتور کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی نظر میں معاہدوں، مفاہمتی یادداشتوں اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف مزاحمت کی زبان سمجھتے ہیں اور اس کے بل بوتے پر احترام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لہذا حزب اللہ کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ لبنان کی طاقت کا باعث ہیں۔ کیا آپ اس طاقت کو گنوا دینا چاہتے ہیں؟