یہ کون بول رہا ہے خدا کے لہجے میں!!
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-03-2
طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، اس نفسیات کے حامل افراد اور قومیں جب ’’ہم چوں ما دیگرے نیست‘‘ کے زعم میں مبتلا ہوں تو ان کی نظر میں کسی کا احترام باقی نہیں رہتا، وہ طاقت کی زبان میں بولتے، اسی زبان میں سمجھتے اور اسی زبان میں بات کرتے ہیں، طاقت ہی ان کے نزدیک ابلاغ کی سب سے بڑی قوت ہوتی ہے، ان کے نزدیک سفارتی آداب کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ بین الاقوامی قوانین کی اور نہ ہی اصول اور ضابطہ کچھ معنی رکھتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زعم ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لاحق ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر افغانستان نے بگرام ائر بیس واپس نہ دیا تو سنگین نتائج ہوں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر افغانستان بگرام ائربیس واپس نہیں دیتا تو بہت بر اہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بگرام فوجی ائر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ائر بیس اس لیے بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ اْس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے‘‘۔ قبل امریکی صدر انتہائی تاسف کے ساتھ اس امر کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ بگرام ائربیس امریکا کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ اطلاعات ہیں کہ امریکا اور طالبان کے درمیان انسداد ِ دہشت گردی کارروائیوں پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور بگرام ائربیس پر محدود تعداد میں امریکی فوج کی تعیناتی پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکا نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے بگرام ائربیس کو اپنا مرکز بنایا تھا اور افغان جنگ کے عروج کے دور میں بگرام ائر بیس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی فوجی تعینات تھے۔ 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران امریکا نے 20 سال بعد بگرام ائربیس افغان حکام کے حوالے کر دیا تھا۔ بگرام ائر بیس افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں ایک بڑا فوجی ہوائی اڈہ ہے۔ جسے سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے بانی امیر ملا عمر مجاہد کے فرزند اور افغان وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد نے بگرام ائر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکا کو ہمارے اڈے واپس چاہئیں تو ہم اس سے اگلے 20 سال مزید لڑنے کے لیے تیار ہیں، بیرونی فوج کی موجودگی بحال کرنے کی کسی بھی کوشش کی صورت میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں طالبان کے نامزد سفیر سہیل شاہین نے ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اچھے تعلقات چاہتا ہے تو اْس کا خیرمقدم ہے لیکن اگر عزائم کچھ اور ہیں تو پھر اْسے افغانستان کی تاریخ دوبارہ پڑھنی چاہیے۔ اِدھر روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان، زمیر کابولوف نے ٹرمپ کے بیان کو ’’میڈیا کا شور‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اگر امریکا نے افغانستان پر حملے کا خطرہ مول لیا تو اس کے نتائج امریکا کے لیے تباہ کن ہوں گے، جبکہ افغان جنگ سے ناواقف نہیں ہیں۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لِن جیان نے بھی واضح کیا کہ چین افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، خطے میں تناؤ اور ٹکراؤ کو ہوا دینا قابل ِ قبول نہیں ہوگا۔ امریکی صدر نے بگرام کی واپسی کا جواز چین کے جوہری پروگرام کو قرار دیا ہے۔ بگرام ائربیس خطے میں تین بڑے حریف چین، روس اور ایران کے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کے لیے اہم اسٹراٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ اڈے کو امریکی کنٹرول میں دینے سے اس کی چینی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے، محدود حملے کرنے، خفیہ کارروائیاں کرنے اور اہم انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا، علاوہ ازیں امریکا چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی وفوجی قوت اور بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کی صلاحیت سے سخت خائف ہے، وہ چین کے جوہری توسیع سے متعلق خدشات کا بھی شکار ہے، پینٹاگون کی رپورٹس کے مطابق، چین نے 2024 کے وسط تک اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو 600 وار ہیڈز تک بڑھا لیا، جو سالانہ 20 فی صد اضافے کی شرح ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا حالیہ بیان دراصل جیو اسٹرٹیجک پالیسی کا حصہ ہے ساتھ ہی امریکا چین کے خلاف دباؤ کی سیاست کو بھی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان کا جغرافیائی محل ِ وقوع صرف امریکا ہی نہیں روس اور چین کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، بگرام ائر بیس افغان حکام کے حوالے کر کے امریکا آج بھی کف ِ افسوس مل رہا ہے، بفرضِ محال امریکا بگرام ائر بیس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس سے وسطی اور جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر رسوخ میں اضافہ ہوگا، یہ قبضہ ان خطوں میں انٹیلی جنس آپریشنز اور فوجی نگرانی کے لیے ایک اہم قدم فراہم کرے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین، روس اور ایران جیسے بڑے جغرافیائی سیاسی حریفوں سے قربت کے پیش نظر بگرام ائر بیس پر اپنی موجودگی کو برقرار رکھنا امریکا کے لیے اپنی عالمی حیثیت اور علاقائی تسلط کو تقویت دینے کے لیے ضروری ہے تاہم امریکا نے زبردستی بگرام ائر بیس ہتھیانے کی کوشش کی تو یہ کسی بھی ریاست کی آزادی اور خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہوگی، اسرائیل کی بے جا حمایت سے امریکا کے خلاف پوری دنیا میں جو ردعمل پیدا ہوا ہے اس تناظر میں بین الاقوامی برادری بھی اس مداخلت کی کسی طور حمایت نہیں کرے گی، سب سے بڑھ کر افغان عوام کی جانب سے امریکا کے خلاف سخت ردعمل سامنے آئے گا جس سے خطے کی پر امن فضا بھی مکدر ہو جائے گی اور افغان سرزمین ایک بار پھر بڑی طاقتوں کا اکھاڑا بن جائے گی، روس اور چین بھی خاموش نہیں رہ سکیں گے، ٹرمپ کے اس مطالبے کو افغان حکومت کسی طور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، اس نے واضح کر دیا ہے کہ افغانستان سے امریکا اور ناٹو افواج کے انخلا کے لیے دوحا میں ہونے والے مذاکرات اور معاہدے کے وقت ہی اس امکان کو مسترد کردیا گیا تھا، خدشہ ہے کہ اس مطالبے کے مسترد ہونے پر افغانستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی، امریکا افغانستان پر مزید پابندیاں عاید کرسکتا ہے جبکہ عالمی سطح پر موجودہ حکومت کوتسلیم کرنے کے امکانات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں وہ کبھی کینیڈا کے امریکا سے انضمام کی بات کرتے ہیں، کبھی وہ گرین لینڈ اور پاناما کینال پر قبضے کا عندیہ دیتے ہیں، کبھی غزہ کو تفریحی مقامات میں تبدیل کرنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے اور اب وہ بگرام ائر بیس کو ہتھیانے کی بات کررہے ہیں، ان کے یہ عزائم دنیا میں ان کے قیامِ امن کی خواہش سے متصادم ہیں، ان کوششوں کو کسی بھی طور دنیا میں پْر امن بقائے باہمی کے اصولوں سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جاسکتا، یک قطبی سے کثیر القطبی میں تبدیل ہوتی اس دنیا میں ٹرمپ کا آتش افروز لب ولہجہ سراسر اشتعال انگیزی اور جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی امریکا نے اور افغان امریکا کے امریکا ا دنیا میں کرنے کی روس اور کے خلاف کہ اگر چین کے کے لیے
پڑھیں:
غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ
نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا کی تیار کردہ غزہ امن قرارداد پر بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ قرارداد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری کے لیے پیش کی جا رہی ہے، تاہم ماہرین کے مطابق بین الاقوامی فوج (ISF) کے دائرہ کار پر اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
امریکا نے اہم عرب اور مسلم ممالک کے نمائندوں کے ساتھ قرارداد پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ ایک روز قبل امریکا نے یہ مسودہ قرارداد سلامتی کونسل کے 15 ارکان کو ارسال کی تھی۔ ذرائع کے مطابق مصر، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات اس کے متن کے حق میں ہیں۔
امریکی نمائندہ مائیکل والٹز نے اقوام متحدہ میں 10 منتخب ارکان — الجزائر، ڈنمارک، یونان، گویانا، پاکستان، پانامہ، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلووینیا اور سومالیا — کے اجلاس میں منصوبے کے لیے علاقائی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مقصد صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو تقویت دینا اور بین الاقوامی فورس (ISF) کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ غزہ میں سیکیورٹی اور انسانی امداد کی نگرانی کر سکے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی مسودہ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غزہ کی صورتحال علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے، جب کہ عام طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب 7 کے تحت ایسے اقدامات صرف عالمی امن کے خطرے کی صورت میں کیے جاتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے مستقبل میں کچھ ممالک قرارداد کے قانونی دائرہ کار پر اعتراض کر سکتے ہیں۔
امریکی مسودے کے مطابق آئی ایس ایف کو شہریوں کے تحفظ، سرحدی سیکیورٹی، اور غزہ کی غیر مسلح کاری کو یقینی بنانے کا اختیار حاصل ہوگا، تاہم مسلم ممالک کے کچھ نمائندوں نے اس نکتے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق فورس میں تقریباً 20 ہزار فوجی شامل ہوں گے۔ امریکا نے اپنے فوجی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن وہ انڈونیشیا، یو اے ای، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ تعاون پر بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان کا نام بھی ممکنہ فوجی شراکت داروں میں شامل ہے، تاہم اسلام آباد نے اس پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قرارداد کو جلد از جلد ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا، اور امکان ہے کہ روس اور چین اپنی رائے دیں گے، لیکن وہ اس منصوبے کو روکنے کی توقع نہیں رکھتے۔