data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نیویارک : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کروائی، پاک بھارت جنگ سمیت 7 جنگیں رکوائیں، یہ ساتوں جنگیں ان ممالک کے قائدین سے بات کرکے رکوائیں، ان جنگوں کو رُکوانے میں اقوام متحدہ کا ساتھ شامل نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکا دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا، ابراہیم معاہدے پر بات چیت چل رہی ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ مجھے یہاں بلانے کے لیے بہت شکریہ، میری حکومت کے 8 ماہ کے دوران اچھی تبدیلیاں آنی شروع ہو گئی ہیں، پچھلی انتظامیہ نے ہمارے ملک کو بے انتہا مسائل سے دو چار کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا میں مہنگائی میں کمی ہوئی ہے، سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، امریکا کی معیشت مضبوط اور سرحدیں محفوظ ہیں، اگر کوئی غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوا تو اس کو جیل جانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے امریکا شدید مشکلات کا شکار تھا، ہم نے اقتدار میں آ کر مہنگائی کو کنٹرول کیا، امریکا اپنے سنہری دور سے گزر رہا ہے، ہمیں معاشی تباہی ورثے میں ملی، امریکا کو عالمی منظر نامے پر ایک بار پھر عزت و تکریم مل رہی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سوچتا ہوں اقوامِ متحدہ کو بنانے کا مقصد کیا تھا؟ اقوامِ متحدہ میں اصلاحات کرنا چاہتا ہوں، جنگ بندی کے موقع پر اقوامِ متحدہ کہاں تھی؟ جنگیں ختم کرانے پر اقوامِ متحدہ سے ایک فون کال بھی موصول نہیں ہوئی، اقوامِ متحدہ اپنی استعدادِ کار کے مطابق کام نہیں کر رہی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں اس وقت کئی بڑے مسائل ہیں، غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے، آپریشن کے دوران ایران کے ایٹمی اثاثے تباہ کیے، فلسطین کو تسلیم کرنا حماس کے لیے زبردست انعام ہے، جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش کرنی چاہیے، حماس نے امن کی مناسب پیش کشوں کو مسترد کیا، فلسطینی ریاست کا قیام حماس کے لیے اچھا ثابت ہو گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے، میں نے اپنے 7 ماہ میں 7 جنگی رُکوائیں، کچھ جنگیں 3 دہائیوں سے جاری تھیں، ان جنگوں میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں، ایسا کبھی کوئی ملک نہیں کر سکا جو میں نے کیا۔

انہوں نے دھمکی دی کہ روس نے معاہدہ نہ کیا تو روس پر محصولات عائد کریں گے، یورپ کو روس سے توانائی کی تمام خریداریاں فوری روک دینی چاہئیں، اس معاملے پر آج یورپی ممالک سے بات کروں گا، تمام ممالک سے مطالبہ ہے کہ بائیولوجیکل ہتھیار بنانا روک دیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ تمام ملکوں کا تعاون بائیولوجیکل ہتھیاروں کی روک تھام کی عالمی کوششوں میں معاون ہو گا، تاریکینِ وطن کا معاملہ ہمارے دور کا بڑا مسئلہ ہے، اقوامِ متحدہ اس بے قابو مسئلے کے لیے فنڈنگ کر رہی ہے، امریکا میں منشیات لانے والے غیر قانونی گروہوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔

فاروق اعظم صدیقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت

حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دستخط شدہ جامع دفاعی تعاون معاہدہ جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم تک رسائی دے گا۔

بظاہر یہ ایک دفاعی شراکت داری ہے، مگر درپردہ اس کے کئی سیاسی و جغرافیائی مضمرات ہیں، جن میں سب سے نمایاں پاکستان کے لیے اس کے اثرات ہیں۔

ایک طرف تعریف، دوسری طرف دباؤ:

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستٍانی قیادت، خصوصاً آرمی چیف اور وزیراعظم کی ’امن کے قیام اور خطے میں استحکام‘ کی کوششوں کی بھرپور تعریف بھی کی گئی۔ مختلف امریکی بیانات میں پاکستان کو ایک ’اہم اتحادی‘ اور ’دہشتگردی کے خلاف شراکت دار‘ قرار دیا گیا۔

تاہم بین الاقوامی مبصرین اس صورت حال کو ایک ’دوہری محبت‘ (Double Game)  قرار دے رہے ہیں؛ یعنی ایک طرف تعریف اور دوسری طرف دباؤ۔

امریکی سفارتی حلقوں کے مطابق، ٹرمپ کی حالیہ بیانات دراصل پاکستان کو چین کے قریب ہونے سے روکنے اور امریکا کی علاقائی حکمتِ عملی کے مطابق قابو میں رکھنے کی کوشش ہے۔

بھارت کے ساتھ معاہدے کی نوعیت:

معاہدے کے مطابق، بھارت کو امریکی ساختہ جدید ڈرونز، میزائل ڈیفنس سسٹم، اور خلائی معلومات کی فراہمی کی اجازت مل گئی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ شراکت داری دراصل چین کے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے ہے، مگر اس کے مضر اثرات پاکستان پر براہِ راست پڑ سکتے ہیں، خصوصاً کشمیر اور لداخ کے خطے میں طاقت کا توازن مزید بھارت کے حق میں جا سکتا ہے۔

امریکی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ بھارت ایک ’علاقائی پولیس مین‘ کے طور پر زیادہ قابلِ اعتماد پارٹنر ہے، جب کہ پاکستان کو وہ اب ایک ’کنٹرولڈ پارٹنر‘ کے طور پر دیکھتے ہیں؛ یعنی محدود اعتماد کے ساتھ مشروط تعلق۔

وفاداری یا دانشمندی؟

پاکستان اس وقت ایک نازک دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف امریکا کے ساتھ دہائیوں پرانا عسکری اور مالی تعاون کا پس منظر ہے، دوسری جانب چین کے ساتھ سی پیک (CPEC) جیسے اسٹریٹجک منصوبے کی وابستگی ہے۔

اگر پاکستان امریکا کے دفاعی دباؤ میں آتا ہے تو چین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو سکتی ہے، اور اگر امریکا سے دوری اختیار کرتا ہے تو عالمی مالیاتی و سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری اور توازن پیدا کرنا ہوگا۔

پاکستان کے لیے ’ٹرمپ کی تعریف‘ کو سفارتی فریب سمجھا جا رہا ہے، ایک ایسا فریب جو چین مخالف اتحاد میں پاکستان کو گھسیٹنے کی ممکنہ کوشش ہو سکتی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ دراصل چین و پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔ پاکستان کو امریکا سے ’زبانی محبت‘ ضرور ملی، مگر ’عملی فائدہ‘ بھارت کو پہنچا۔

اگر پاکستان نے اس صورت حال میں غیرجانبدارانہ توازن برقرار نہ رکھا تو اسے معاشی و سیکیورٹی دونوں محاذوں پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

ریٹائرڈ دفاعی ماہرین کے مطابق، امریکا کے نئے اسٹریٹجک بلاک میں پاکستان کا کردار محدود ہوتا جا رہا ہے، جب کہ بھارت کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق پاکستان کو اب صرف تعریفوں پر خوش ہونے کے بجائے عملی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ٹرمپ کی سفارت کاری ’محبت کے پیچھے مفاد‘ کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے امریکا اور چین کے درمیان ایک متوازن کردار ادا کرے، تاکہ کسی بڑے سفارتی جال میں نہ پھنسے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان تعریف اور تعاون کے بیچ کے فرق کو سمجھتے ہوئے اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ریئل ازم (Realism) پر استوار کرے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا نے شامی صدر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • غزہ میں استحکام کے لیے بین الاقوامی فورس بہت جلد تعینات کی جائے گی، امریکی صدر
  • ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بدل سکتے ہیں، ان سے ملنا چاہتا ہوں، کرسٹیانو رونالڈو امریکی صدر کے مداح نکلے
  • غزہ کے لیے امریکی امن قرارداد، بین الاقوامی فوج کے اختیارات پر اختلاف کا خدشہ
  • دیکھتے ہیں ممدانی نیویارک میں کیسا کام کرتے ہیں، ٹرمپ
  • پاک بھارت جنگ کے دوران آٹھ طیارے مار گرائے گئے، امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ
  • امریکا: بین البراعظمی ’منٹ مین تھری‘ میزائل کا کامیاب تجربہ
  •  شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • امریکا۔بھارت دفاعی معاہدہ: ٹرمپ کی دوہری محبت