نادرا کا فیس وصولی کے لیے نئے اور آسان طریقۂ کار کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
حکومتی اداروں میں مالی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے فیس کی رقم بینک اکاؤنٹس کے ذریعے وصول کی جاتی تھی۔ اس کے باعث شناختی کارڈ، پاسپورٹ یا دیگر دستاویزات کی فیس کی ادائیگی ایک مشکل اور وقت طلب عمل تھا، جس میں شہریوں کو پہلے چالان بنوانا، پھر بینک میں فیس جمع کرانا اور دوبارہ دفتر جا کر درخواست آگے بڑھانا پڑتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانیوں کے لیے بڑی خوشخبری، نادرا سے وراثتی سرٹیفکیٹ کا حصول انتہائی آسان ہوگیا
ڈیجیٹل دور کی طرف پیشرفت
ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے نادرا نے شہریوں کی سہولت کے پیش نظر نیا اور آسان طریقۂ کار متعارف کرا دیا ہے۔ اس کا مقصد عوام کو بینکوں اور لمبی قطاروں کی مشکلات سے نجات دلانا ہے۔
ڈیجیٹل ذرائع سے ادائیگی کی سہولت
اب شہری شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر خدمات کی فیس موبائل ایپلی کیشنز، آن لائن بینکنگ، ایزی پیسہ اور جاز کیش سمیت مختلف الیکٹرانک ذرائع سے بھی ادا کر سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:بڑی خوشخبری، نادرا کی شناختی کارڈ سمیت تمام خدمات اب یونین کونسلز میں دستیاب ہونگی
اس کے ساتھ ساتھ نادرا دفاتر میں براہِ راست کیش ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے۔
کیو آر کوڈ کے ذریعے فوری ادائیگی
نادرا دفتر میں درخواست جمع کرانے کے بعد شہری کو ایک مخصوص کیو آر کوڈ آئی ڈی دی جائے گی۔ اسے موبائل بینکنگ ایپ، ایزی پیسہ یا جاز کیش سے اسکین کر کے فوری طور پر بغیر کسی اضافی چارجز کے فیس ادا کی جا سکے گی۔
شفافیت اور وقت کی بچت
ترجمان نادرا کے مطابق اس نظام سے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ فیس کی ادائیگی شفاف اور محفوظ بھی ہو گی۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ اس سہولت سے استفادہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ڈیجیٹل پاکستان کی جانب پیش قدمی
نادرا کا یہ فیصلہ ’ڈیجیٹل پاکستان‘ وژن کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو سرکاری خدمات کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈٰجیٹل پاکستان ڈیجیٹل ادائیگی فیس آدائیگی کیو آر کوڈ نادرا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈ جیٹل پاکستان ڈیجیٹل ادائیگی فیس ا دائیگی کیو ا ر کوڈ کے لیے
پڑھیں:
ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-03-4
عبید مغل
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران فلاحی ریاست کے بجائے اپنی عیاشیوں کی ریاست قائم کر لیں تو محلات کے چراغ عوام کے خون سے جلنے لگتے ہیں۔ قدیم روم کے ظالم بادشاہوں نے رعایا کے سروں پر ’’سر ٹیکس‘‘ مسلط کیا۔ فرعونوں نے نیل کے کسانوں سے ’’پانی کا ٹیکس‘‘ وصول کیا۔ یورپ کے عیاش بادشاہوں نے ’’کھڑکیوں‘‘ اور ’’چرچ‘‘ پر ٹیکس لگا کر روشنی اور عبادت دونوں کو قیمت کے ترازو میں تول دیا۔ کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجوں نے تو ظلم کی حد کر دی۔ مسلمانوں پر چراغ، گائے، درخت، شادی اور حتیٰ کہ نماز پڑھنے پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کے ضمیر مر جائیں تو ٹیکس خدمت نہیں ظلم کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ اب وہی تماشا صدیوں بعد سندھ میں دہرایا جا رہا ہے۔ فرق صرف ناموں کا ہے۔ کبھی انہیں مہاراجا کہا جاتا تھا اب یہ لوگ عوامی نمائندے کہلاتے ہیں۔ ظلم وہی ہے بس لباس نیا ہے۔ کراچی میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کے لیے ای چالان متعارف کرانا یقینا لائق تحسین عمل ہے مگر اس کی آڑ میں کراچی کے شہریوں کی جیب پر ڈاکا ڈالنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ای چالان کے بھاری جرمانوں سے ظاہر ہوتا ہے مقصد اصلاح نہیں بلکہ لوٹ مار ہے اور سندھ حکومت اس کام کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے لبادے میں سندھ حکومت شہریوں کے جیب کاٹ رہی ہے۔
کراچی کی سڑکیں ایسی کہ گاڑی نہیں صبر کا سسپنشن بھی ٹوٹ جاتا ہے اور کمر کی ہڈی بھی اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے۔ یاد رہے کہ جن ممالک میں ای جرمانے نافذ ہیں وہاں اگر فٹ پاتھ میں ایک انچ کا گڑھا ہو اور اس کی وجہ سے کوئی شخص گر جائے تو حکومت کو متاثرہ شہری کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے مگر سندھ میں الٹا حساب ہے۔ یہاں حکومت گڑھے بناتی ہے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور پھر جرمانہ بھی انہی سے وصول کیا جاتا ہے۔
مہذب ممالک میں جہاں ٹریفک کیمرے نصب ہوں وہاں جگہ جگہ وارننگ سائن لگے ہوتے ہیں تاکہ لوگ قانون کا احترام بھی کریں اور جرمانوں سے بھی بچ سکیں۔ اْن معاشروں میں جرمانوں سے زیادہ عوام کے اندر شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور چالان سے قبل ڈرائیور کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ جرمانے اور پوائنٹس سے بچنے کے لیے روڈ سیفٹی کا تربیتی کورس کرے۔ پھر ایسے ملکوں میں فلاحی ریاستوں میں ٹیکس کے بدلے سہولت ملتی ہے۔ صاف سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، صاف پانی، مفت علاج، تعلیم، صفائی، تحفظ لیکن سندھ میں ٹیکس کے بدلے بدبو، گڑھے، کرپشن، سفارش اور رشوت ملتی ہے چونکہ یہ فلاحی نہیں فریب کی ریاست ہے۔
سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کے یہ ٹیکس کہاں جا رہے ہیں۔ عوام کا پیسہ ترقی پر نہیں تصویری مہمات اور عیاشیوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سندھ حکومت نے مہاراجا گلاب سنگھ کی روح کو جدید لباس پہنا دیا ہے۔ وہی لوٹ مار وہی استحصال مگر انداز نیا۔ تاریخ کا اصول یہی ہے کہ جب حکمران عیاشی کے عادی ہوں تو ٹیکس عوام کے خون سے وصول ہوتا ہے۔ کراچی میں نافذ کردہ ای چالان دراصل ای ظلم ہے جو بھٹو زادوں کے محلات روشن رکھنے کے لیے عوام کے گھروں کے چراغ بجھا رہا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر چلنا اب کسی ایڈونچر پارک میں جھولے لینے کے مترادف ہے۔ انہی گڑھوں میں سے ایک میں گر کر پیپلز پارٹی کے اداکار مصطفی قریشی بھی شدید زخمی ہوئے۔ پھر ایک ہی ملک میں مختلف ٹریفک قوانین بھی حیرت کا باعث ہیں۔ بات رشوت کی ہو یا جرمانوں کی سندھ ہمیشہ آگے رہتا ہے۔
پنجاب میں سڑکوں کی مرمت پر اربوں روپے کے منصوبے جاری ہیں جبکہ کراچی میں ایسے منصوبے تاخیر کے باعث شہریوں کے لیے وبال جان ہیں۔ پنجاب میں سگنل چمک رہے ہیں لینیں بحال ہو رہی ہیں اور کراچی میں سڑک اور نالا ایک ہی دھارا بن چکے ہیں۔ بارش ہو تو سڑک اور سیوریج کا فرق مٹ جاتا ہے اور ڈرائیور سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ روڈ ہے یا دریا۔ پنجاب میں حالات منظم منصوبہ بندی کے تحت بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ سندھ میں عوام اب بھی بھٹو کے مزار کے گرد امید کے چراغ جلا رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ لاہور میں ترقی کی بارش ہوتی ہے اور سندھ میں بارش آتے ہی بھٹو یہی فلسفہ دہراتے ہیں کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ پھر کراچی کا المیہ یہ بھی ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی جماعت شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی۔ چلیں مان لیا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے منہ میں سرکار نے وزارتوں کی ہڈی ڈال کر ان کے منہ بند کر دیے ہیں مگر سب سے زیادہ ووٹ لینے کی دعویدار پی ٹی آئی کہاں ہے؟ کیا ان کی سیاست کا مقصد عمران خان کی رہائی کے علاوہ کچھ نہیں؟ کیا انہیں کراچی کے شہریوں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں؟ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈھٹائی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم لاہور میں بھی کراچی جیسی ترقی لائیں گے۔ یہ دھمکی سنتے ہی لاہوری زندہ بھٹو سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔