ججز ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق ڈپٹی رجسٹرار کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاہے جس میں کہا گیاہے کہ ایک جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کیخلاف آرڈر جاری نہیں کرسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی فیصلے میں تحریر کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجراور آئینی بینچ کمیٹی ممبران کو توہین عدالت کا نوٹس برقرار نہیں رہ سکتا۔ سوال یہ ہےآئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کیخلاف توہین عدالت کارروائی ممکن ہےیا نہیں، آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کو انتظامی امور میں استثنیٰ حاصل ہے، ججز کو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے، ایک ججز اپنی ہی عدالت کے کسی جج کیخلاف کسی قسم کی رٹ یا کارروائی نہیں کر سکتا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق محمد اکرام چوہدری کیس فیصلے کے مطابق ججز کیخلاف کارروائی ممکن نہیں، عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے، طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اُسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں، جب اعلٰی عدلیہ کا جج اپنے جج کیخلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کارروائی کیسے کر سکتا ہے، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ جج کیخلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے، آرٹیکل 209 جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کیخلاف کارروائی پر قدغن لگاتا ہے۔
جسٹس منصور کے بینچ سے شروع توہین عدالت کارروائی پر سابق ڈپٹی رجسٹرار نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی، متعلقہ بنچ نے عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کارروائی شروع کی ، انٹراکورٹ اپیل میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے توہین عدالت کارروائی ختم کر دی تھی، سابق ڈپٹی رجسٹرار کی انٹراکورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: توہین عدالت کارروائی سپریم کورٹ کورٹ اپیل جج کیخلاف نہیں کر
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر
حکومت کی جانب سے مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔ سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) اور 199 کے تحت عدالتی جائزے کے اختیارات آئین کا بنیادی ستون ہیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی جائزے کے اختیارات کو ختم، معطل یا متوازی نظام سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست کا مقصد 27ویں ترمیم سے پہلے اعلیٰ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محفوظ بنانا ہے۔ ترمیم منظور ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس آئینی معاملات نہیں سن سکیں گی۔ عدالت عظمیٰ میں سینئر وکیل بیرسٹر علی طاہر کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مجوزہ ترمیم سے عدالتی نظام مفلوج اور عدالتیں غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اپنے اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا تحفظ کرے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ترمیم کے دیگر حصے بعد میں جائزے کے لیے رہ سکتے ہیں، مگر عدالتی خودمختاری متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ عدالتی اختیار کا تحفظ عالمی جمہوری اصول ہے ۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست میں بین الاقوامی عدالتی مثالیں بھی شامل کی گئی ہیں۔