جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان کے نمائندوں میں مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
امیر مقام اور طارق فضل چوہدری جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیلئے پہنچ گئے—’جیو نیوز‘ گریب
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان کے نمائندوں میں مذاکرات ہوئے۔
مظفرآباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وزیر امور کشمیر امیر مقام اور وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری مذاکرات میں شامل ہیں۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں ہر ڈویژن سے کمیٹی کے 3 ممبران شامل ہیں۔
مذاکرات میں آزاد کشمیر حکومت کی نمائندگی بھی موجود ہے۔
اہم وفاقی اداروں اور حکومت آزاد کشمیر کے افسران بھی مذاکرات میں شامل ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عوامی ایکشن کمیٹی
پڑھیں:
ویبینار کے مقررین کا شہدائے جموں کو شاندار خراج عقیدت
کنوینر غلام محمد صفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ جو نومبر 1947ء میں جموں میں شروع ہوا تھا آج بھی جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یوم شہدائے جموں کے موقع پر منعقدہ ایک ویبینار کے مقررین نے شہدائے جموں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا اور شہداء کے مشن کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کااعادہ کیا۔ ذرائع کے مطابق "یوم شہدائے جموں۔قربانیوں کو یاد اور تجدید عزم کا دن" کے عنوان سے ویبینار کا اہتمام کشمیر میڈیا سروس اور ریڈیو صدائے حریت کشمیر نے کیا تھا۔ ویبینار کے مقررین میں کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی، سینئر حریت رہنماء محمد حسین خطیب، سابق وزیر آزاد کشمیر فرزانہ یعقوب، تحریک کشمیر برطانیہ کی سیکریٹری اطلاعات ایڈوکیٹ ریحانہ علی، آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی لیکچرار مدیحہ شکیل اور سیالکوٹ میں مقیم کشمیری ڈاکٹر زاہد غنی ڈار شامل تھے۔ کنوینر غلام محمد صفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ جو نومبر 1947ء میں جموں میں شروع ہوا تھا آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی قابض فورسز آج بھی وادی کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کو اپنی حق پر مبنی جدوجہد آزادی جاری رکھنے پر انتقامی کارروائیوں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد مقبوضہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنا ہے۔
غلام محمد صفی نے شہدائے جموں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا اور جدوجہد آزادی کشمیر کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔حریت رہنماء محمد حسین خطیب نے کہا کہ نومبر 1947ء میں مسلمانوں کا قتل عام صرف سیالکوٹ اور جموں کے درمیان واقع علاقوں میں ہی نہیں بلکہ جموں کے دوسرے علاقوں میں بھی ڈوگرہ مہاراجہ کی فوج، بھارتی فورسز اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ انہوں نے کہا کہ ادھمپور میں آج بھی ایک قبرستان موجود ہے جس میں سانحہ جموں کے شہداء مدفون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں کے مسلمانوں کو صرف پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی۔ فرزانہ یعقوب، ایڈوکیٹ ریحانہ علی اور مدیحہ شکیل اپنے خطاب میں کہا کہ جموں و کشمیر کی تاریخ کشمیریوں کے قتل عام کے واقعات سے بھری ہوئی ہے تاہم سانحہ جموں وہ واحد واقعہ ہے جب لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج کے جموں و کشمیر پر قبضے کے اگلے ہی روز شروع ہو گیا تھا جب بھارتی فوجیوں نے سرینگر میں متعدد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔ ڈاکٹر زاہد غنی ڈار نے، جن کے والدین جموں قتل عام کے دوران ہجرت کر کے سیالکوٹ میں آ کر آباد ہوئے، اس سانحہ کی واقعاتی شہادتیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل عام میں ان کے اپنے خاندان سمیت بے شمار لوگوں کو شہید اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
ویبنار کی میزبانی کے فرائض کشمیر میڈیا سروس کے ایڈیٹر ارشد میر نے ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ جموں پر گفتگو صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ حال کی نوحہ اور مستقبل کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر تاریخ کو فراموش کیا گیا تو ظلم اپنی شکل بدل کر بار بار لوٹتا رہے گا۔ واضح رہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی فورسز، بھارتی فوج اور ہندوتوا قوتوں نے نومبر 1947ء کے پہلے ہفتے میں جموں کے مختلف علاقوں میں لاکھوں کشمیریوں کا اس وقت قتل عام کیا تھا جب وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔