UrduPoint:
2025-11-09@05:04:46 GMT

دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کو "واضح طور پر بلا مقصد" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرے گا۔

منگل کے روز ایران کے سرکاری ٹیلیویژن پر ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت نشر ہوا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عموماً سفارتی مذاکرات کیے جاتے ہیں۔

جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران پر آئندہ چند روز بعد ہی دوبارہ پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں اور اسی سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے منگل کے روز ہی ای تھری نامی یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس کے ساتھ ملاقات کی۔

(جاری ہے)

خامنہ ای نے مزید کیا کہا؟

ایران کے رہبر اعلی خامنہ ای نے اپنے ریکارڈ شدہ خطاب میں کہا، "امریکہ نے مذاکرات کے نتائج کا پہلے سے اعلان کر دیا ہے۔

اس کا نتیجہ جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کی بندش ہے۔ یہ کوئی مذاکرات نہیں، بلکہ یہ ایک حکم ہے، جو مسلط کیا جا رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی ڈالیں گے۔"

یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں کی آخری تاریخ میں توسیع کے لیے اس شرط پر تیار ہوں گے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔

ان کی دو شرائط اور ہیں کہ تہران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو اپنے جوہری مقامات تک رسائی کی اجازت دے اور اس انتہائی افزودہ یورینیم کے 400 کلوگرام سے زیادہ کا حساب بھی دے، جو اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے بقول اس نے افزودہ کی تھی۔

یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت؟

اطلاعات ہیں کہ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عباس عراقچی اور یورپی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں زیادہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔

جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول نے اسے "خاص طور پر اچھا نہیں" قرار دیا۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا، "پابندیوں کے نفاذ سے پہلے سفارتی حل تک پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

"

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ وہ بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان سے ملاقات کریں گے تاکہ معاہدے پر عمل کیا جا سکے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ "یا تو ایران کوئی اشارہ کرتا ہے اور امن اور احتساب کے راستے پر واپس چلا جاتا ہے۔۔۔۔ یا پھر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔"

ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ "اس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام فریقین کے ساتھ مشاورت جاری رہے گی۔

"

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ہفتے کے آخر تک اپنے برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کا وقت دیا گیا ہے تاکہ تہران اقوام متحدہ کی ان پابندیوں کی بحالی سے بچ سکے، جو 2015 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت معطل کر دی گئی تھیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ یورپی مذاکراتی ٹیم کو پابندیوں سے بچنے کے لیے ایران کی جانب سے "کچھ حقیقی کارروائی" دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، "سفارت کاری کا ایک موقع ہے۔ ڈیڈ لائن چل رہی ہے اور اب آئیے دیکھتے ہیں۔ ہمیں ایران کی جانب سے بھی کچھ حقیقی کارروائی دیکھنے کی ضرورت ہے۔"

ایران نے بارہا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تردید کی ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے جوہری توانائی حاصل کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔

خامنہ ای کی تقریر نے تہران کے اسی نظریے کی پھر توثیق کی ہے، جن کا کہنا تھا کہ "ایران جوہری ہتھیار نہیں چاہتا، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔"

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی نے کہا کہ انہوں نے خامنہ ای کے ساتھ کے روز

پڑھیں:

کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟

آج دنیا میں ہر طرف ظلم و جبر انتہا پسندی اور ممالک کے درمیان تنازعات کا دور دورہ ہے، سکون اور اطمینان کیسا؟ یہ نعمتیں تو انسانوں سے کوسوں میل دور ہو گئی ہیں یا کہیں کھو گئی ہیں۔

انسان امن کی تلاش میں ہے مگر بعض طاقتیں امن کی ایسی دشمن بن گئی ہیں کہ وہ دنیا کو جہنم بنانے کی تگ و دو میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے ’’ اقوام متحدہ‘‘ کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ’’ لیگ آف نیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ ادارہ اقوام عالم کے درمیان باہمی تنازعات کو حل کرنے میں قطعی ناکام رہا اور بدقسمتی سے اس کی موجودگی میں ہی دوسری جنگ عظیم کا سانحہ رونما ہوا جس میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ کئی ملک برباد ہوگئے اورکئی کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا۔

یہ تباہی بربادی اتنی خوفناک اور وسیع تھی کہ دنیا ہل کر رہ گئی اور ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ دنیا کو تباہی و بربادی سے بہرصورت بچایا جائے۔ تمام ممالک کو اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہونا ہوگا اور مستقبل کو پرامن بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار عالمی ادارہ قائم کرنا ہوگا جو انسانیت کو آیندہ جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا سکے، ساتھ ہی دنیا میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن بن سکے۔

یوں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آ گیا۔ اس کے قیام میں تمام ہی ممالک کی مرضی شامل تھی۔ اس ادارے سے یہ بھی امید وابستہ کی گئی تھی کہ آیندہ دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور تنازعات کی صورت میں اقوام متحدہ کے آئین کے مطابق اپنے مسائل حل کریں گے۔

اس ادارے کے قیام میں غریب ممالک سے لے کر دنیا کے متمول ممالک بھی شریک تھے، طاقتور ممالک کو متفقہ طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ ان کا ووٹ کسی بھی مسئلے کے حل کے سلسلے میں حتمی قرار دیا جائے گا۔ یہی ویٹو پاور ہے جو دنیا کے پانچ ممتاز ممالک کو تفویض کیا گیا تھا۔

ان ممالک میں امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور چین کی جگہ تائیوان شامل تھا۔ اس وقت تک امریکا اور یورپی ممالک نے چین کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر بعد میں چین کے اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے بعد تائیوان کے بجائے چین کو ویٹو پاور سے نواز دیا گیا۔

افسوس کہ ویٹو پاورکا اکثر ممالک نے غلط استعمال کیا، امریکا نے سب سے زیادہ مرتبہ استعمال کیا مگر اکثر اس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ دنیا میں تنازعات پہلے بھی تھے مگر اب تنازعات کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے ویٹو پاور کے حامل مستقل ممبران ہیں۔

ان ممالک نے اپنے حلیف ممالک کے حق میں بے جا طورپر ویٹو پاور کا استعمال کیا جس کی وجہ سے دنیا میں مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور عالمی سطح پر بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت دنیا کے کئی ممالک باہمی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کے لیے اپنے حریف ملک سے چھیڑ چھاڑ سے بڑھ کر جنگ تک کرنے پر تل جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے مگر ویٹو پاورکے حامل ممالک ان مسائل میں خود کو ڈال کر انھیں ایسا الجھا دیتے ہیں کہ پھر یہ برسوں حل نہیں ہو پاتے جیسے مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہیں۔ یہ مسائل پانچ دہائیوں سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہیں مگر ان کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

اقوام متحدہ ان جیسے کئی مسائل میں لاچار اور مجبور دکھائی دیتی ہے۔ روانڈا اور بوسنیا میں ایک عرصے تک انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا مگر اقوام متحدہ کا ادارہ مفلوج رہا اور پھر غزہ کے قتل عام کو روکنے میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔

دنیا میں حق خود اختیاری کے حصول کے لیے جو اقوام مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں، اقوام متحدہ ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہی ہے، شاید اس لیے کہ ان مسائل میں بعض بڑے ممالک دلچسپی نہیں لے رہے کیونکہ وہ حق خود اختیاری کے غاصب ممالک کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔

یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے جس سے ممبر ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ہی ختم ہو گیا ہے۔

اس کے مفلوج ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے ممالک نے جو ویٹو پاور کے حامل ہیں خود اپنے اثر و نفوذ دے عالمی تنازعات کے حل کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ وہ دو ممالک کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں اپنے فیورٹ یا پسندیدہ ملک کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں جب کہ دوسرا فریق ملک جوکہ حق پر بھی ہوتا ہے، اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور پھر کوئی اس کی نہیں سنتا۔

اس وقت عالمی تنازعات کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جگہ امریکا کے صدر ٹرمپ نے لے لی ہے، وہ تنازعات حل کرانے کے علاوہ ملکوں پر پابندیاں بھی لگا رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس بھی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر ہیں۔

انھوں نے کئی ممالک کے باہمی تنازعات کو حل کرا بھی دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ تھی تو بہت مختصر مگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی جا سکتی تھی۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اسے انھوں نے رکوا دیا، صرف دونوں ممالک کو تجارت کی آفر دے کر۔ انھوں نے اس کامیابی پر نوبل انعام دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مگر چونکہ اسے دیے جانے کا طریقہ کار مختلف ہے، اس لیے اس سال کا نوبل انعام انھیں نہیں مل سکا۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی جنگ رکوا دی ہے اور صلح کرا دی ہے۔ اب اگر ممبر ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرانے کا یہی شخصی طریقہ قائم رہا تو اقوام متحدہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ لیگ آف نیشن بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہی ناکام ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کا سانحہ پیش آیا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ کے کاموں میں بڑی طاقتیں کھل کر مداخلت کر رہی ہیں اور اسے ایک ناکام اور لاچار ادارہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں تو پھر دنیا کا خدا ہی حافظ۔ 

اقوام متحدہ کی عدم فعالیت کی وجہ سے ہی کئی طاقتور ممالک کمزور ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں کیونکہ اب انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس صورت حال کا بھارت اور اسرائیل سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بھارت کا کوئی بھی پڑوسی اس کے توسیع پسندانہ رجحان سے محفوظ نہیں ہے۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور بنگلہ دیش تمام ہی اس سے خوفزدہ ہیں، ادھر وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ایک طرف دہشت گردی کا سہارا لے رہا ہے۔

دوسری طرف خود بھی بلاجواز حملے کرتا رہتا ہے حال ہی میں وہ پلوامہ کے بہانے پاکستان پر پوری قوت سے حملہ کر چکا ہے مگر خوش قسمتی سے اس میں اسے تاریخی شکست اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کر رہا ہے۔

دراصل مودی پاکستان پر ان حملوں کے ذریعے سیاسی فائدے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہاں ہونے والے ریاستی اور وفاقی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتا رہتا ہے مگر اس دفعہ وہ اپنے آپریشن سندور میں ناکام ہونے کے بعد اب مشکل ہی سے بہار میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائے گا۔
 

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ: پاکستان کی ہتھیاروں، جوہری سلامتی سے متعلق 4 قراردادیں منظور  
  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • قوانین کو سیاسی دباؤ یا انتقامی کارروائی کیلئے استعمال نہیں ہونے دینگے: سہیل آفریدی
  • ایران کے بارے روس اور آئی اے ای اے کی بات چیت
  • امن کے خواہاں ہیں، خودمختاری اور جوہری پروگرام پر سمجھوتا نہیں  ہوگا، ایرانی صدر
  • امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر
  • شمالی کوریا کا نیا میزائل تجربہ، خطے میں کشیدگی میں اضافہ
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز
  • یمم
  • چین اور ایران کا ایرانی جوہری مسئلے پر تفصیلی تبادلہ خیال