مسئلہ فلسطین میں یورپ کی منافقت
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز: گارنٹی فراہم کرنے اور غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے فلسطینی پرچم لہرانے جیسے علامتی اقدامات کا واحد فائدہ میڈیا پر چرچوں اور سازباز کرنے والے عناصر کو مضبوط بنانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جبکہ زمینی حقائق میں حتی چھوٹی سی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی اور اسرائیل بدستور غزہ کی پٹی کو نگلنے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور شام کے جنوبی علاقوں کر بھی ہڑپ کر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کو اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے سازباز کرنے والے فلسطینی عناصر کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ اپنے خیال میں اسلامی مزاحمت سے عاری مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تحریر: محمد زمانی
یورپی ممالک نے آخرکار طویل عرصے کی تاخیر (اگر اوسلو معاہدے کو مدنظر قرار دیں) سے فلسطین کی خودمختار ریاست کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اپنے ان بار بار کے وعدوں پر عمل پیرا ہو سکیں جو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی راہ حل پر مبنی تھے۔ لیکن اس اقدام میں اتنی طویل تاخیر کے علاوہ اس بات پر بھی ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں کہ یورپی ممالک کا یہ اقدام ان کے منافقانہ ترین سیاسی اقدامات میں سے ایک ہے۔ وہ اس منافقت کے ذریعے درج ذیل بنیادی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:
1)۔ فیس سیونگ اور عزت حاصل کرنا: یورپی ممالک اس سے پہلے بھی غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے اسکولوں، اسپتالوں اور صحافیوں پر حملوں کی مذمت کر کے اپنی رائے عامہ میں پائے جانے والے شدید غصے اور ناراضگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
یاد رہے غزہ میں موجود انسانی بحران کی تصاویر اور رپورٹس ھشائع ہونے کے باعث مغربی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ اپنی حکومتوں پر بھی اسرائیل کی مدد کرنے کی وجہ سے برہم ہیں۔ مزید برآں، مغربی حکومتیں اس بات سے بھی خوفزدہ تھیں کہ کہیں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں عوام میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا فائدہ اٹھا کر الیکشن میں انہیں مشکل حالات سے دوچار نہ کر دیں۔ لہذا اسپین میں حکمفرما بائیں بازو کی حکومت کے علاوہ باقی یورپی حکومتوں کے بارے میں اس بات کا قومی امکان پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے مشورے سے خودمختار فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ یوں اپنی عوام میں موجود بے چینی اور غم و غصے کو کنٹرول کر سکیں اور کسی حد تک اپنی مشروعیت بھی بچا سکیں۔
یورپی حکمران اس اعلان کے ذریعے عالمی سطح پر امریکہ کی اپنے اسٹریٹجک اتحادی یعنی اسرائیل کا دفاع کرنے کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے اس اقدام کی مدد سے اپنی رائے عامہ کو انتہائی اقدام سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ مغربی عوام اس وقت اپنی اپنی حکومتوں سے یہ انتہائی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے ہر قسم کا سیکورٹی تعاون ختم کر دینے کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے باعث اس پر پابندیاں بھی عائد کریں۔ اگر بالفرض یورپی حکومتوں نے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان خلوص نیت سے کیا ہوتا تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا بھی اعلان کرتے۔ لیکن یورپی حکمران امریکہ سے خوفزدہ ہیں اور کسی قیمت پر اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
2)۔ ذمہ داری سے جان چھڑانا: اگرچہ کچھ یورپی ممالک نے زبان کی حد تک قبضہ ختم ہونے اور فلسطینیوں کے حقوق فراہم کیے جانے کی بات کی ہے لیکن عمل کے میدان میں انہوں نے بھی اسرائیل کے خلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات جیسے فوجی اور سیکورٹی تعاون منقطع کر دینا، وسیع فوجی پابندیاں یا موثر اقتصادی دباو وغیرہ انجام دینے سے گریز کیا ہے۔ یوں یورپی ممالک نے نہ صرف اسرائیل کے خلاف دو ٹوک اقدامات کی ذمہ داری سے جان چھڑائی ہے بلکہ اسرائیل کو مدد کی فراہم جاری رکھنے اور خفیہ طور پر اس سے فوجی اور سیکورٹی تعلقات بحال رکںے کی خاطر ایک منافقانہ اقدام انجام دیا ہے۔
3)۔ سازباز کے مرتے منصوبے میں نئی روح پھونکنا: یورپی ممالک کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کا ایک اہم مقصد اور محرک سازباز اور مذاکرات میں نئی روح پھونکنا ہے۔
یہ بات فرانسیسی صدر کی تقریر میں بہت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے جب اس نے فلسطین میں فرانسیسی سفارت خانہ کھولے جانے کو "اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی" سے مشروط کیا۔ اسرائیل کی بربریت اور انسان سوز مظالم پر مجرمانہ خاموشی کے باعث فلسطین اتھارٹی کی حیثیت ختم ہو چکی ہے جبکہ اسلامی مزاحمت کا اعتبار نہ صرف مغربی کنارے اور پوری عرب دنیا بلکہ پوری دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ لہذا حماس کے مقابلے میں محمود عباس اور فلسطین اتھارٹی کی حیثیت کا اعادہ کرنے اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے مقابلے میں اسرائیل سے سازباز اور مذاکرات کے نظریے کی حمایت کی خاطر یورپی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں انہوں نے دو ریاستی راہ حل کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران حماس کی جانب سے شاندار مزاحمت کے باعث سازباز کا نظریہ دم توڑ رہا ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے۔
4)۔ مزاحمت سے عاری سیٹ اپ میں اپنا حصہ بنانا: گارنٹی فراہم کرنے اور غاصب صیہونی رژیم پر دباو ڈالے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے فلسطینی پرچم لہرانے جیسے علامتی اقدامات کا واحد فائدہ میڈیا پر چرچوں اور سازباز کرنے والے عناصر کو مضبوط بنانے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جبکہ زمینی حقائق میں حتی چھوٹی سی تبدیلی بھی رونما نہیں ہوئی اور اسرائیل بدستور غزہ کی پٹی کو نگلنے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور شام کے جنوبی علاقوں کر بھی ہڑپ کر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کو اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لیے سازباز کرنے والے فلسطینی عناصر کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وہ اپنے خیال میں اسلامی مزاحمت سے عاری مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کو تسلیم ریاست کو تسلیم کر غاصب صیہونی رژیم سازباز کرنے والے اسرائیل کے خلاف یورپی ممالک نے اسلامی مزاحمت اور اسرائیل میں مصروف عناصر کو کی کوشش کے باعث رہا ہے ہے اور
پڑھیں:
برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا
برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا WhatsAppFacebookTwitter 0 22 September, 2025 سب نیوز
لندن:(آئی پی ایس) برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد اب پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی سمیت دیگر شرائط پورے نہیں کیے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان میں کہا کہ آج برطانیہ نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید دوبارہ اجاگرکرتے ہوئے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ کا اقدام دیگر 140 سے زائد ممالک سے مطابقت رکھتا ہے لیکن اسرائیل اور اس کے کلیدی اتحادی امریکا کے لیے ناراضی کا باعث ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق کینیڈا اور آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرلیا اور نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مزید ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ نے رواں برس جولائی میں اسرائیل کو الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر غزہ کی بدترین صورت حال ختم نہیں ہوئی تو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا جائے گا۔
کیئر اسٹارمر نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی، غزہ تک امداد کی فراہمی، مغربی کنارے پر قبضہ نہ کرنے کی وضاحت اور دو ریاستی حل کے لیے امن عمل شروع کرنے کی جانب اقدامات نہیں کیے تو برطانیہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرے گا۔
لندن میں فلسطینی مشن کے سربراہ حسام زملط نے برطانیہ کے فیصلے پر ردعمل میں کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا طویل عرصے سے انتظار تھا جو صرف فلسطین کے بارے میں نہیں بلکہ برطانیہ کی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے بھی ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم انصاف، امن اور تاریخی غلطیوں کی ناقابل تنسیخ ہے۔
نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پرتگالی وزیر خارجہ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے کو پرتگال کی خارجہ پالیسی کی ایک بنیادی اور مستقل سوچ قرار دیا۔ پرتگالی وزیر خارجہ پاولو رینجل نے کہا کہ دو ریاستی حل ہی خطے میں پائیدار اور مستقل امن کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا غزہ میں جاری انسانی بحران کو ختم نہیں کرتا، انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی ناگزیر ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربرطانیہ ودیگر ممالک کا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، طاہر اشرفی برطانیہ ودیگر ممالک کا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، طاہر اشرفی ہائی وولٹیج ٹاکرا، پاکستان کا بھارت کو جیت کیلئے 172 رنز کا ہدف ہماری خارجہ پالیسی نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کو معافی مانگنے پر مجبور کر دیا، رانا تنویر افغانستان کی آزادی اور سالمیت ہر چیز سے زیادہ اہم ہے: افغان طالبان کا ٹرمپ کے بیان پر ردعمل مودی نے بھارتیوں سے غیرملکی مصنوعات ترک کرکے مقامی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل کردی عالمی برادری اسرائیل و بھارت کی جارحیت اور مظالم کو فوری طور پر بند کرائے، بلاول بھٹوCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم