Jasarat News:
2025-11-09@07:09:56 GMT

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابیں — ایک فکری رہنمائی

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تاریخ کی راہ گزر میں کچھ ہستیاں ایسی آتی ہیں جو اپنے دور کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے بیسویں صدی کے فکری بحران میں اسلام کے ہمہ گیر پیغام کو دوبارہ زندہ کیا۔ ان کی تحریروں نے نوجوان نسل کو احساسِ کمتری سے نکالا، مسلم معاشروں کو اپنی اصل پہچان یاد دلائی اور دنیا کو بتایا کہ اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایسے وقت میں قلم اٹھایا جب مغربی فلسفہ، سیکولرزم، لبرل ازم، سوشلسٹ نظریات اور نوآبادیاتی اثرات مسلمانوں کے ذہنوں کو مسخر کر رہے تھے۔ ایسے میں ان کی تصانیف روشنی کے مینار ثابت ہوئیں، جو آج بھی لاکھوں ذہنوں کو راہ دکھا رہی ہیں۔ مولانا مودودیؒ کے دور میں مسلم معاشرے شدید بحران کا شکار تھے۔ مذہب کو محض چند رسوم اور عبادات تک محدود کر دیا گیا تھا، سیاست و معیشت مغربی نظریات کے تابع ہو چکی تھی اور نوجوان نسل احساسِ کمتری میں ڈوبتی جا رہی تھی۔ ایسے میں انہوں نے دین کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے مکمل ضابطہ قرار دیا اور اسلام کے جامع تصور کو ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ ان کی فکر کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو محض عبادات یا روحانی سکون کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ حیات کے طور پر بیان کیا۔ اسی وجہ سے ان کی تصانیف محض مذہبی کتابیں نہیں بلکہ فکری، سیاسی، سماجی اور تہذیبی رہنمائی کا مرقع ہیں۔

مولانا مودودیؒ کی تصانیف کا دائرہ حیرت انگیز حد تک وسیع ہے۔ انہوں نے دینیات، تفسیر، سیاست، معیشت، تاریخ، فقہ، خواتین کے مسائل، اور عصر ِ حاضر کے چیلنجز سب پر قلم اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں ہر قاری کی علمی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ اگر کوئی عام تعلیم یافتہ فرد دین کی بنیادی باتیں سمجھنا چاہے تو ’’دینیات‘‘ اور ’’خطبات‘‘ بہترین رہنمائی ہیں۔ اگر کوئی محقق اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کو جاننا چاہے تو ’’اسلامی ریاست‘‘، ’’معاشیاتِ اسلام‘‘ اور ’’سود‘‘ جیسی کتب دستیاب ہیں۔ اور اگر کوئی قرآن کے ہمہ گیر پیغام کو سمجھنا چاہے تو ’’تفہیم القرآن‘‘ ایک لازوال تفسیر ہے۔

مولانا نے اسلام کے ارکان اور بنیادی عقائد پر عام فہم اور مؤثر انداز میں روشنی ڈالی۔ خطبات: یہ کتاب نہ صرف ارکانِ خمسہ کو واضح کرتی ہے بلکہ ان کے روحانی و فکری پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ دینیات: مختصر مگر نہایت قیمتی تصنیف، جس میں ایمان، عبادت اور اسلامی اخلاقیات کو سادہ اور جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتب ایک عام تعلیم یافتہ مسلمان کو اسلام کے ساتھ فکری تعلق جوڑنے کا پہلا زینہ فراہم کرتی ہیں۔

جہاد اسلام کا وہ پہلو ہے جسے ہمیشہ غلط فہمیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ نے نہ صرف مغربی اعتراضات کا علمی جواب دیا بلکہ یہ واضح کیا کہ جہاد ظلم کے خلاف جدوجہد اور عدل کے قیام کا ذریعہ ہے۔ اس کتاب نے مغرب کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچا دی تھی اور آج بھی جہاد کے تصور کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بیسویں صدی میں نیشنلزم نے دنیا کو شدید نقصان پہنچایا۔ مسلمانوں کو بھی نسلی و جغرافیائی قومیت کے نعروں میں الجھایا گیا۔ مولانا کی کتاب ’’مسئلہ قومیت‘‘ نے واضح کیا کہ اسلام کا اصل پیغام عالمی اخوت ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ امت ِ مسلمہ کی اصل پہچان لا الہ الا اللہ ہے، نہ کہ رنگ، نسل یا زبان۔ یہ کتاب دو قومی نظریہ کی فکری بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔

اسلامی معاشیات اور جدید چیلنجز: مولانا نے معاشیات پر بھی گہری بصیرت سے روشنی ڈالی۔ معاشیاتِ اسلام: جدید مسائل کا اسلامی حل۔ اسلام اور جدید معاشی نظریات: سوشلسٹ اور کیپٹلزم نظام کا تجزیہ۔ سود: سرمایہ دارانہ نظام کے اس مہلک جرثومے کی جڑ کاٹتی ہے، جو انسانیت کو غلام بنا دیتی ہے۔ ان کتب نے اسلامی معاشیات کے ایک پورے علمی سلسلے کی بنیاد رکھی۔

سیاست، ریاست اور حکمرانی: مولانا کی فکر کا ایک بڑا حصہ سیاست و ریاست کے گرد گھومتا ہے۔ اسلامی ریاست: اسلام کا سیاسی فلسفہ۔ خلافت و ملوکیت: خلافت کے بعد آنے والے انحرافات کا تجزیہ۔ یہ کتب نہ صرف سیاستدانوں بلکہ عام قاری کو بھی یہ سمجھاتی ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت کس طرح عدل و انصاف پر مبنی ہے اور کس طرح ملوکیت نے اصل نظام کو مسخ کیا۔

سماجی مسائل اور خواتین: مولانا نے خواتین کے مسائل پر بھی قلم اٹھایا۔ ان کی کتاب ’’پردہ‘‘ جدید دور میں خواتین کے حقوق اور اسلامی معاشرت کے اصولوں کی وضاحت کرتی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پردہ کسی جبر یا پسماندگی کا نام نہیں بلکہ عورت کے وقار اور معاشرتی تحفظ کی ضمانت ہے۔

تاریخی و علاقائی موضوعات: مسئلہ کشمیر: کشمیر کے تنازعے کو اسلامی اور سیاسی تناظر میں واضح کرتی ہے۔ قادیانی مسئلہ: قادیانیت کے فتنہ پر دلائل اور استدلال کے ساتھ مدلل جواب۔ سنت کی آئینی حیثیت: منکرین ِ حدیث کے اعتراضات کا علمی۔ مولانا مودودیؒ کی سب سے بڑی خدمت ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے۔ یہ عام فہم زبان میں قرآن کا پیغام پیش کرتی ہے۔ اس تفسیر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جدید ذہن کی الجھنوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اور خواتین بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔

علمی منہج اور اسلوبِ استدلال: مولانا کے استدلال میں دو خصوصیات نمایاں ہیں: 1۔ دلیل و منطق کا بھرپور استعمال۔ 2۔ عام فہم زبان میں پیچیدہ موضوعات کی وضاحت۔ انہوں نے ہمیشہ قرآن و سنت کو بنیاد بنایا اور عقل کو معاون بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں ایک ہی وقت میں علمی بھی ہیں اور عوامی بھی۔ مولانا مودودیؒ کی فکر صرف برصغیر تک محدود نہیں رہی۔ ان کی تحریروں نے اخوان المسلمون، حماس، جماعت اسلامی اور کئی اسلامی تحریکات کو متاثر کیا۔ ان کے افکار نے نوجوانوں کو عمل اور قربانی کی راہ دکھائی۔ یقینا ہر بڑے مفکر کی طرح مولانا مودودیؒ پر بھی تنقید ہوئی۔ بعض علماء نے ان کے بعض اجتہادات سے اختلاف کیا، کچھ نے سیاسی میدان میں ان کی جدوجہد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی علمی خدمات اور فکری وزن اتنا واضح ہے کہ مخالفین بھی ان کی عظمت کا انکار نہیں کر سکتے۔ مولانا مودودیؒ کی کتابیں محض تصانیف نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی سفر کی رہنمائی ہیں۔ ان کے ذریعے قاری تشکیک سے یقین، غلامی ٔ فکر سے آزادی اور مایوسی سے امید کی طرف بڑھتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی نوجوان مغربی فلسفوں کی یلغار میں الجھا ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سید مودودیؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ کس طرح یہ کتب اسے واضح سمت، فکری جرأت اور روحانی یقین عطا کرتی ہیں۔

خدا کی رحمتیں ہوں امام العصر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر کروڑوں بار۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے، آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں آپ کے فکر سے مسلسل استفادہ کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

میر بابر مشتاق سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا مودودی کی کتابیں نہیں بلکہ کی تصانیف انہوں نے اگر کوئی اسلام کا اسلام کے کی کتاب کرتی ہے کی فکر پر بھی

پڑھیں:

سالانہ روح پرور تبلیغی اجتماعی

زبان پر ذکر الٰہی ، آنکھوں میں شب بیداری کے آثار، پیشانیوں پر سجدوں کے نشان، کاندھوں پر بستر، ایک ہاتھ میں ضروری سامان اور دوسرے ہاتھ میں تسبیح لیے بے شمار قافلے اپنے مخصوص انداز اور ترتیب سے پوری دنیا میں ملک ملک شہر شہر، نگرنگر اور قریہ قریہ اپنے قدموں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اﷲ کے راستہ میں بڑی دلسوزی کے ساتھ امت کے ایک ایک فرد کے دروازے پردستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ 

ان قافلوں کو عرف عام میں ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہا جاتا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت اور لمحہ نہیں گزرتا جس میں تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں جا ری نہ ہو۔

رائیونڈ لاہور میں سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع کے حسبِ سابق اس مرتبہ بھی دو سیشن ہیں۔ پہلا سیشن6 نومبر 2025 بعد نماز عصر سے شروع ہوکر 9 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔

جب کہ دوسرا سیشن13 نومبرکو عصر کی نماز سے شروع ہوکر 16 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا۔اس عالمی اجتماع میں پاکستان سمیت پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان شریک ہوں گے اورآخری روز ’’اجتماعی دعا‘‘ میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔

آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس حمتہ اللہ علیہ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت جس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔

اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔

آپ کے والد مولانا محمد اسماعیل ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔

آپ نے جہاں ایک طرف اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن جیسے مجاہد عالم دین اور دیگر نامور علماء سے علم دین حاصل کیا ، وہاں آپ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔

ایک مرتبہ آپ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، حضرت گنگوہی یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحب نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپ سے کام لیں گے‘‘۔

بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو اردگرد دین سے دوری دیکھی تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہؐ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے۔ 

آپ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی، اب سمٹتی چلی جا رہی ہے، جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں، اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انھوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے، اس لیے آپ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس اور خواص میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے۔ 

اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں۔ 

اس لیے مولانا الیاس کاندھلوی ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہو۔

اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرام جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاء دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔

حضرت مولانا محمد الیاس کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔

بعض اوقات اسی فکر میں آپ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے، آہیں بھرتے اور فرماتے تھے، میرے اﷲ میں کیا کروں ،کچھ ہوتا ہی نہیں۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔

اور پھر مولانا محمد الیاس خود سراپا دعوت بن کر ’’دعوت و تبلیغ ‘‘ والے کام کو لے کر بڑی دلسوزی کے ساتھ دیوانہ وار ’’میوات‘‘ کے ہر علاقہ میں پھرے، ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پرواہ ہو کر تبلیغی گشت کیے۔

راتوں کو خدا کے حضور روتے گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے۔ اور پھر اپنی اہمت و طاقت ، مال ودولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیا۔ اس دوران اپنے رفقاء اور ساتھیوں کو ایک خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ! تم غور کرو، دنیائے فانی میں کام کے لیے تو گھر کے سارے افراد ہوں او ر اس دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے صرف ایک آدمی کو کہا جائے اور اس پر بھی نباہ نہ ہو تو آخرت کو دنیا سے گھٹایا ،یا نہیں گھٹایا؟

حضرت مولانا الیاس کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔

مولانا الیاس نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میں دو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کے لیے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا۔ 

ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کے لیے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ’’چلہ‘‘ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کے لیے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے‘‘۔

مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم، گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔

 حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حْسنِ اتفاق سے ’’تبلیغ‘‘ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔

اور انھی چاروں کے مجموعہ کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورؐ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • علامہ اقبالؒ کا فکری ورثہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ رہے گا، صدرِ مملکت
  • سالانہ روح پرور تبلیغی اجتماعی
  • بنگلہ دیش کے موجودہ حالات ’دور آزمائش‘ ہے، علامہ بابونگری
  • آئینی ترمیم، مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت اور بلاول بھٹو سے اہم ملاقات
  • 27 ویں ترمیم پر صدر و اتحادی جماعتوں کا شکریہ، نواز شریف سے رہنمائی لی: وزیراعظم
  • رائیونڈ عالمی تبلیغی اجتماع، معاشرے سے قبل اپنی اصلاح ضروری، گھروں میں اسلام نافذ کریں: علما
  • فکری یلغار کا مقابلہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ممکن ہے‘ اکرام اللہ
  • ڈاکٹر ظفر اقبال بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلیے ڈھاکا روانہ
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • انقلاب اسلامی ایران نے کیسے دنیا کا فکری DNA ہی تبدیل کر دیا؟