مقبوضہ کشمیر، لداخ میں جمہوری حقوق کی بحالی کیلئے پُرتشدد مظاہرے
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے پارلیمنٹ ممبر سید ناصر حسین نے کہا کہ لیہہ لداخ کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے، مودی حکومت اور لداخ کے لوگوں کے درمیان جاری تنازعات اور تناؤ نے شہری بدامنی اور آتش زنی کو جنم دیا ہے۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: جاوید عباس رضوی
مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع لیہہ (لداخ) میں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کو لیکر پُرتشدد مظاہرے ہوئے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان سخت جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے بی جے پی کے مقامی دفتر کو آگ لگا دی۔ لیہہ میں تحریک کی قیادت لیہہ اپیکس باڈی (ایک آزاد تنظیم) کرتی ہے۔ وہ لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیہہ لداخ کا دارالحکومت ہے، جو ایک مرکز کے زیرانتظام علاقہ ہے، اسے جموں و کشمیر کی تقسیم (2019ء) کے بعد یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا گیا تھا۔ ادھر لیہہ اپیکس باڈی کے رہنماء بھوک ہڑتال پر ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ جب تک ان کے ریاستی مطالبات پورے نہیں ہوتے، وہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ وہ 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ معروف سماجی کارکن سونم وانگچک بھی اسی تنظیم کے تحت بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اب جبکہ مظاہرین نے تشدد کا سہارا لیا ہے، وانگچک نے امن کی اپیل کی ہے۔ تشدد میں چار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور پولیس کی کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ وانگچک نے اپنی 15 روزہ بھوک ہڑتال ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس گذشتہ چار برسوں سے بھارتی وزارت داخلہ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔ لیہہ اپیکس باڈی نے مودی حکومت سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے مذاکرات کے لئے 6 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ وزارت داخلہ کے ساتھ سابقہ میٹنگ مئی میں ہوئی تھی۔ لیہہ اپیکس باڈی کا مطالبہ ہے کہ جب بھی حکومت میٹنگ کا وقت طے کرتی ہے، تاریخ کو حتمی شکل دینے سے پہلے اس سے مشورہ کیا جانا چاہیئے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت خود بخود مذاکرات کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے اور انہیں بغیر اطلاع کے چھوڑ دیتی ہے۔ لیہہ ایپکس باڈی کے شریک چیئرمین چیرنگ دورجے نے کہا کہ ہمارا احتجاج پُرامن ہے، لیکن لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، صورتحال ہاتھ سے نکل سکتی ہے، مذاکرات پہلے ہی ملتوی ہوچکے ہیں۔
سونم وانگچک چاہتے ہیں کہ حکومت آئندہ ہل کونسل انتخابات سے قبل لداخ کو "چھٹے شیڈول" میں شامل کرنے کا مطالبہ تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ مطالبہ مان لے تو لداخ کے لوگ ووٹ میں حصہ لیں گے اور اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ میڈیا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت چاہتے ہیں اور اس میں چھٹے شیڈول کے تحفظات پر بات چیت شامل ہونی چاہیئے، یہ وعدہ 2020ء میں گزشتہ انتخابات کے دوران کیا گیا تھا۔ چھٹے شیڈول میں لداخ کو شامل کرنا بی جے پی کے منشور میں نمبر ایک عہد تھا۔ اس نے ایک بار پھر ہل کے انتخابات میں جیتنے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے مظاہرین کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے، جس سے ملک کی بدنامی ہو، اس لئے ہم پُرامن طریقے سے تحریک جاری رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا "میرا یہ مطالبہ پچھلے پانچ سال سے تھا، آپ کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ملک کا آئین بھی دو سال میں تیار ہوگیا تھا، پھر تاخیر کیوں۔"
سونم وانگچک نے کہا کہ جموں و کشمیر کو پہلے ہی اپنی اسمبلی اور اپنی حکومت مل چکی ہے، تو لداخ کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سونم وانگچک نے کہا کہ لداخ اب بھی مودی حکومت کے اہلکار چلا رہے ہیں۔ وانگچک نے پہلے کہا تھا کہ یہ مطالبات آئین کے دائرے میں ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی نے خود اپنے منشور میں آرٹیکل 244 کے تحت لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وانگچک نے 2024ء میں لیہہ سے دہلی کا سفر پیدل چل کر کیا۔ ان کے مطابق وزارت داخلہ نے صرف دو مطالبات پر بات چیت پر اتفاق کیا: علیحدہ سروس کمیشن کی تشکیل اور دو پارلیمانی نشستیں۔ لیہہ اپیکس باڈی سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ لداخ جموں و کشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ ان کا بنیادی مطالبہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کرنا تھا اور اسے یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا گیا تھا، اس لئے ان کا مطالبہ پورا ہوچکا ہے، اس لئے اس پر بات نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک "چھٹے شیڈول" میں شمولیت کا تعلق ہے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ چھٹا شیڈول، دفعہ 244 کے تحت بیان کیا گیا ہے، آسام، میگھالیہ، میزورم اور تریپورہ جیسے قبائلی علاقوں کو زیادہ خود مختاری فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت اے ڈی سی یا خود مختار ضلع کونسل، زمین کے استعمال، وراثت کے قوانین اور سماجی رسم و رواج کا انتظام کرتی ہے۔ اے ڈی سی قانون سازی، ایگزیکٹو اور مالیاتی اختیارات بھی استعمال کرتا ہے۔ اس کا کردار مقامی وسائل کا انتظام کرنا بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اے ڈی سی ریاستی قوانین کی جگہ لے کر اپنے قوانین بنا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے گورنر کی رضامندی درکار ہے۔ فی الحال لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کے پاس ضلعی سطح پر منصوبہ بندی اور ترقی کو نافذ کرنے کا اختیار ہے۔
لداخ کے احتجاج کرنے والے طلباء بھی بے روزگاری سے ناراض ہیں۔ کچھ مظاہرین نے ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ لداخ کے 26 فیصد گریجویٹس بے روزگار ہیں، جبکہ قومی سطح پر یہ 13.
جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھارتی حکومت کے لئے یہ وقت مناسب ہے کہ وہ ایمانداری سے اور پوری طرح سے اس بات کا جائزہ لے کہ 2019ء کے بعد سے واقعی کیا بدلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ویڈیو وادی کشمیر کی نہیں ہے، جسے بدامنی کا مرکز سمجھا جاتا ہے، بلکہ لداخ کے دل کا ہے، جہاں مشتعل مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں اور بی جے پی کے دفتر کو آگ لگا دی ہے۔ لیہہ جو طویل عرصے سے اپنے امن و آشتی کے لئے جانا جاتا ہے، لیکن اب تشویشناک مظاہروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ لوگ صبر کھو چکے ہیں، دھوکہ دہی، غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ادھورے وعدوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ حکومت روز مرہ کے بحران کے انتظام سے آگے بڑھے اور اس عدم اطمینان کی بنیادی وجوہات کو فوری اور شفاف طریقے سے حل کرے۔
ادھر کانگریس کمیٹی کے رکن پارلیمنٹ سید ناصر حسین نے کہا کہ لیہہ لداخ کی صورتحال انتہائی تشویشناک اور پریشان کن ہے۔ مودی حکومت اور لداخ کے لوگوں کے درمیان جاری تنازعات اور تناؤ نے شہری بدامنی اور آتش زنی کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مودی حکومت سے لوگوں کو پُرسکون کرنے اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے، ہم خطے میں امن اور استحکام کو بحال کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ لداخ کے لوگوں کے جائز مطالبات کو حل کرنے کے لئے مودی حکومت اور احتجاجی رہنماؤں کے درمیان فوری بات چیت، بشمول ریاست کا درجہ اور چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں، جبکہ لداخ کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رائے پور مک مل اجلاس میں منظور کردہ قرارداد کے مطابق، آئین کے چھٹے شیڈول کو لداخ تک توسیع دینے کے لئے پُرعزم ہے۔ لیہہ میں پُرتشدد مظاہروں اور سونم وانگچک کا پیغام ویڈیو کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ لداخ کے لوگوں وزارت داخلہ بھوک ہڑتال مظاہرین نے مودی حکومت کے درمیان کا مطالبہ چاہتے ہیں لوگوں کے بی جے پی کرنے کا کہ لداخ کرتی ہے بات چیت کا درجہ کے ساتھ گیا تھا لداخ کو کے تحت رہا ہے اور اس کے لئے
پڑھیں:
لداخ میں بی جے پی کا دفتر اور بھارتی فوجی گاڑی نذرِ آتش؛ 4 مظاہرین ہلاک، 70 زخمی
مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں عوام مودی سرکار کے سیاہ قانون کے خلاف اور ریاست کا درجہ دینے کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق لداخ کے علاقے لیہہ میں صورت حال کشیدہ ہوگئی۔ مودی کی جماعت بی جے پی کا دفتر نذر آتش کردیا گیا۔
احتجاج کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب عوام لداخ کو ریاستی درجہ دلوانے اور بھارتی آئین کی چھٹی شیڈول پر تحفظات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس احتجاجی تحریک کا آغاز لیہہ ایپکس باڈی (LAB) کے چیئرمین شیرنگ دورجے کی اپیل پر کیا گیا تھا اور کارکنان مطالبات کی منظوری کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے جن میں سے دو کی حالت بگڑ گئی۔
اس سے قبل ماحولیات کے معروف کارکن سونم وانگچک نے بھی 10 ستمبر سے 15 روزہ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا تھا۔
مودی نواز کٹھ پتلی انتظامیہ نے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور بھوک ہڑتالی کیمپ پر دھاوا بول دیا۔
جس پر صورتحال بگڑ گئی اور نوجوانوں نے پتھراؤ کیا۔ بعدازاں مشتعل عوام نے بی جے پی کا دفتر اور بھارتی فوج کی ایک گاڑی کو نذر آتش کردیا۔
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے بعد براہِ راست فائرنگ کردی۔
لیہہ ایپکس باڈی کے ترجمان نے بتایا کہ بھارتی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں 4 افراد ہلاک اور 70 کے قریب زخمی ہوگئے۔
درجن سے زائد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے جو مقامی اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہیں۔
عوامی تحریکوں کو جبر اور تشدد سے کچلنے کی کوشش کرنے والی مودی سرکار نے لیہہ میں ہر قسم کے مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی۔
متعدد علاقوں کو حساس قرار دیکر چپے چپے پر اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔ کئی جگہوں کی ناکہ بندی بھی کی گئی۔
خیال رہے کہ لداخ تاریخی طور پر جموں و کشمیر ریاست کا حصہ رہا ہے لیکن اگست 2019 میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر سے علیحدہ کرکے لداخ کو وفاقی اکائی بنا دیا تھا۔
مقامی آبادی نے مودی سرکار کے اس فیصلے کو اپنے ثقافتی تشخص، ماحولیاتی تحفظ اور قبائلی ڈھانچے کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔
اس کے بعد سے لیہہ ایپکس باڈی (LAB) اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) لداخ کو بطور الگ ریاست کا درجہ دینے اور چھٹی شیڈول کے تحت آئینی ضمانتوں کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔
تاہم بھارت کی مودی سرکار نے ناجائز تسلط اور قبضے کی سیاست کو جاری رکھتے ہوئے عوامی مطالبے کو ماننے کے بجائے طاقت کا بے دریخ استعمال کر رہی ہے جیسا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ بھی کر رہی ہے۔