حکومتِ آزاد کشمیر، عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر وفاقی وزراء طارق فضل چوہدری اور انجینئر امیر مقام نے آزاد جموں و کشمیر جا کر ان مذاکرات میں ثالثی کی کوشش کی۔وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر وفاقی وزراء طارق فضل چوہدری اور انجینئر امیر مقام نے آزاد جموں و کشمیر جا کر ان مذاکرات میں ثالثی کی کوشش کی۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر حکومت اور عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر وفاقی وزراء طارق فضل چوہدری اور انجینئر امیر مقام نے آزاد جموں و کشمیر جا کر ان مذاکرات میں ثالثی کی کوشش کی۔مذاکرات کے دوران جب بھی کسی معاہدے کی صورت بنتی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے نئے مطالبات پیش کر دیے جاتے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے تاجروں اور کاروباری طبقے کے لیے بجلی میں مزید سبسڈی کا مطالبہ بھی پیش کیا، بجلی سبسڈی کا یہ مطالبہ گھریلو صارفین کے دائرہ کار سے ہٹ کر پایا گیا۔اس کے علاوہ، ایکشن کمیٹی نے جج صاحبان کی پنشن ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بعد ازاں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اچانک مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا جس کے باعث یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جوائنٹ ایکشن کمیٹی
پڑھیں:
آئین سے ماورا مطالبات ناقابل قبول، وفاقی وزرا کی مظفرآباد میں پریس کانفرنس
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں وفاقی وزرا طارق فضل چوہدری اور امیر مقام نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عوامی حقوق من و عن تسلیم کرتی ہے لیکن آئین سے ماورا مطالبات کسی صورت قابل قبول نہیں۔
وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر انجینئر امیر مقام نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر مظفرآباد آکر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے۔ عوامی حقوق سے متعلق جتنے مطالبات ہمارے دائرہ اختیار میں تھے، انہیں تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر کون ہیں؟
آئینی و قانونی نوعیت کے مطالبات پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ ہم نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کمیٹی نئے مطالبات سامنے لاتی رہی۔
ہم نے واضح کیا کہ جو ممکن تھا وہ مان لیا گیا ہے لیکن جو آئینی دائرہ کار سے باہر ہے اس پر وعدہ نہیں کر سکتے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر مظفرآباد آئے تاکہ مذاکراتی عمل کو سہولت فراہم کریں۔
ایکشن کمیٹی کے تمام جائز عوامی مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں، البتہ ایسے مطالبات جن کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے وہ صرف پارلیمان ہی کر سکتی ہے۔ چند افراد بند کمرے میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے آئین میں ترمیم کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور یہی اتحاد قائم رہنا چاہیے۔ ایکشن کمیٹی کو مشورہ ہے کہ وہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرے۔
مذاکرات کا پہلا روز ڈیڈ لاک کا شکار
اس سے قبل مظفرآباد میں وفاقی وزراء اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا روز ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا۔ 12 گھنٹے طویل نشست کے باوجود مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔
وفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے گئے تھے تاہم دو مطالبات پر اصرار کے باعث ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔
وزرا نے کہا کہ ہم اب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن 29 ستمبر کے احتجاج میں شہریوں کا راستہ روکنے یا زبردستی دکانیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں