سیلاب زدگان کی امداد سے روکے جانے کا معاملہ، مریم نواز کیخلاف دائر درخواست خارج
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے مریم نواز کی تصاویر کے بغیر سیلاب زدگان کی امداد سے روکے جانے کے خلاف اعتراضی درخواست خارج کردی۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں مریم نواز کی تصاویر کےبغیرسیلاب زدگان کی امداد سے روکے جانے کے خلاف اعتراضی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کون سے حقائق لکھے ہیں جن پر کارروائی کریں۔ وکیل آفتاب باجوہ نے نے اپنے دلائل میں کہا کہ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے مریم نواز کی تصاویر کے بغیر امداد کی تقسیم سے روکا۔ امداد کرنیوالے کچھ لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست میں کوئی متاثرہ نام، جگہ نہیں لکھا۔ آپ کی درخواست ناقابل سماعت ہے خارج کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم نے درخواست پر بطور اعتراض کیس سماعت کی۔ یہ درخواست غلام محی الدین وڑائچ نے آفتاب باجوہ ایڈووکیٹ کےتوسط سے دائر کی۔ درخواست میں حکومت پنجاب، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایاگیا تھا۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ مریم نواز کی تصاویر کےبغیرسماجی کارکنوں کو امدادی سرگرمیوں سے روکاجارہاہے۔ کشتیوں کےذریعے متاثرین کو محفوظ مقام تک منتقلی کےلئے رشوت کی اطلاعات ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ دودھ پیتے بچوں کے لیے دودھ دستیاب نہیں ہے۔ سیلاب متاثرین شدید مشکلات کاسامنا کررہے ہیں۔ مریم نواز کی تصاویر کےبغیر امداد سے روکا جانا قوانین اور اخلاقی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت امدادی کارکنوں اور سماجی تنظیموں کو امدادی سرگرمیوں جاری رکھنے کا تحفظ دے۔ عدالت رشوت لینے والے سرکاری ملازمین کےخلاف کارروائی کے احکامات صادر کرے۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کا اعتراض برقرار رکھا۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کلثوم خالق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اسے خارج کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کیا۔ جسٹس خادم حسین سومرو نے اس درخواست پر فیصلے میں کہا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھتے ہوئے درخواست کو مسترد کیا گیا، اور اس کے ساتھ ہی عدالت نے خاتون وکیل پر کسی قسم کا بھاری جرمانہ عائد کرنے سے گریز کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ جج کے خلاف کسی کارروائی کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ جسٹس ثمن رفعت نے صرف “آبزرویشنز” دیں تھیں، اور کسی قسم کا کوئی حکم جاری نہیں کیا جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہو۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ پٹیشنر کی درخواست میں کئی اہم افراد کو فریق بنایا گیا تھا، جو آئینی عہدوں پر فائز ہیں، اور ان افراد کو فریق بنانے کے لئے ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ کسی جج کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنا، جب وہ خود کسی دوسرے حاضر سروس جج کے خلاف ہو، قانوناً ممکن نہیں۔ عدالت نے پٹیشنر کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کو غیر مستند اور آئینی دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے کیس کو داخل دفتر کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ فیصلہ ایک اہم اشارہ ہے کہ عدلیہ میں اندرونی معاملات پر کارروائی کے لئے صحیح فورم کا تعین ضروری ہے۔