معاہدۂ تاشقند اور بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250927-03-3
متین فکری
ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ معاہدۂ تاشقند میں ایسا کیا راز تھا جسے ذوالفقار علی بھٹو ظاہر کرنے کا اعلان کرتے رہے لیکن شاید مصلحتاً وہ ایسا نہ کرسکے اور راز راز ہی رہا۔ راقم الحروف نے انہیں بتایا کہ ایسا کوئی راز نہ تھا، بھٹو صاحب اپنی پبلسٹی کرنے کے ماہر تھے، انہوں نے معاہدۂ تاشقند میں راز کا ایشو بھی اسی لیے گھڑا تھا کہ لوگوں میں تجسس پیدا ہو اور وہ انہیں سننے کے لیے جلسے میں آئیں جو ایوب کابینہ سے نکالے جانے کے بعد لاہور میں ان کا پہلا جلسہ تھا۔ وہ جنرل ایوب خان کے نہایت لاڈلے وزیر تھے۔ دونوں میں اتنی قربت تھی کہ بھٹو انہیں ڈیڈی کہتے تھے۔ پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ صدر جنرل ایوب خان نے تاشقند سے واپس آتے ہی بھٹو کو کان پکڑ کر کابینہ سے نکال دیا اور وہ روتے ہوئے راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوگئے۔ رونے کی بات مبالغہ نہیں ہے۔ وہ بذریعہ ریل کار لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ان کا رومال آنسوئوں سے تر تھا اور ان کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔ بھٹو نے آنسوئوں سے تر رومال لہرایا تو اس کی بولی لگ گئی اور بھٹو کو آنسوئوں کی قیمت وصول ہوگئی۔ ایوب کابینہ سے نکالے جانے کے بعد ان کی عوامی مقبولیت میں اچانک اضافہ ہوگیا تھا کیونکہ تاثر یہ پھیلایا گیا تھا کہ بھٹو کو کابینہ سے نکالا نہیں گیا بلکہ انہوں نے جنرل ایوب خان سے اختلافات کے سبب کابینہ سے خود استعفا دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔
اصل کہانی یہ ہے کہ اگرچہ صدر جنرل ایوب خان قومی سطح پر مشاورت کیے بغیر تاشقند چلے گئے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ قوم ان سے کیا توقع رکھتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہی اس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے مسئلہ کشمیر پر بات کی جائے کہ یہی مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان فساد کی اصل وجہ ہے لیکن بھارتی وزیراعظم نے ہاتھ کھڑے کردیے۔ ہم یہ کہانی اس قبل اپنے ایک کالم میں بیان کرچکے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے سوویت صدر کے دبائو پر مذاکرات میں حصہ تو لیا تھا لیکن ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کا موقف بلاکم و کاست ریکارڈ پر آنا چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم کا اصرار تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرے جبکہ صدر ایوب کا کہنا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر زندہ ہے جنگ نہ کرنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ مذاکرات ختم ہوئے تو معاہدے کا مسودہ اور مشترکہ اعلامیہ کا متن تیار کرنے کی باری آئی اس کے لیے باقاعدہ ڈرافٹنگ کمیٹی بنائی گئی جس میں دونوں ملکوں کے نمائندے شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اس کمیٹی کے رکن تھے اور انہیں کمیٹی میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ چنانچہ جنرل ایوب خان نے بھٹو کو آف دی ریکارڈ یہ ہدایت کی تھی کہ معاہدۂ تاشقند کے متن اور مشترکہ اعلامیہ کے مسودے میں پاکستان کے موقف کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کیا جائے تا کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف واضح ہوسکے اور اسے عالمی پزیرائی حاصل ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ مذاکرات کے دوران بہت سرگرم تھے ان کا بھارتی ہم منصب اور سوویت حکام سے مسلسل رابطہ تھا اور توقع یہی کی جارہی تھی کہ وہ معاہدہ تاشقند کی دستاویز اور مشترکہ اعلامیہ کے مسودے میں پاکستان کے موقف کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ لیکن جب یہ چیزیں تحریری شکل میں سامنے آئیں تو صدر جنرل ایوب خان کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کہ ان تحریروں میں پاکستانی موقف کو بالکل نظر انداز کردیا گیا تھا اور مسئلہ کشمیر کا ذکر ان میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ جنرل ایوب خان نے پاکستانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے ان مسودوں پر دستخط تو کردیے لیکن پاکستان واپس پہنچتے ہی بھٹو پر چڑھائی کردی اور کان پکڑ کر کابینہ سے نکال دیا۔ پرو بھٹو عناصر نے یہ بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کی کہ بھٹو نے جنرل ایوب خان سے اختلافات کے سبب کابینہ سے استعفا دیا ہے لیکن عوام میں اس بیانیے کو پزیرائی نہ مل سکی۔
بھٹو فوج کے سہارے سیاست میں آئے تھے اور اب تک فوج کی سرپرستی میں سیاست کررہے تھے، جنرل ایوب خان ان کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے لیکن جب باپ نے انہیں عاق کردیا تو انہیں بہت مایوسی ہوئی۔ ایسے میں بھٹو نے سیاست میں آنے کے لیے معاہدۂ تاشقند کا سہارا لینا ضروری سمجھا اور معاہدہ تاشقند کے راز سے پردہ اٹھانے کا اعلان کردیا۔ اس مقصد کے لیے باغ بیرون موچی دروازہ لاہور جلسہ عام کا انعقاد طے پایا۔ جلسہ عام کی بڑے پیمانے پر پبلسٹی کی گئی، مخلوق خدا بھٹو کو سننے کے لیے جلسے میں اُمڈ آئی۔ لوگوں کو اشتیاق تھا کہ آخر وہ کون سا راز ہے جس سے بھٹو پردہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہم بھی جلسے میں موجود تھے، بھٹو اسٹیج پر آئے تو لوگوں نے نعرے لگا کر پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا۔ بھٹو نے تقریر شروع کی تو جلسے میں وقفے وقفے سے تاشقند کے نعرے لگنے لگے۔ یہ گویا سامعین کی طرف سے مطالبہ تھا کہ حسب وعدہ معاہدۂ تاشقند کے راز سے پردہ اٹھایا جائے۔ بھٹو نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ صبر کرو پھر وہ اپنی تقریر میں اتنی دور نکل گئے کہ تاشقند بہت پیچھے رہ گیا۔ اور راز راز ہی رہا۔ دراصل معاہدۂ تاشقند ایک کھلا راز تھا جس میں مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن کردیا گیا تھا اس میں پاکستان کے لیے بالواسطہ طور پر یہ پیغام بھی موجود تھا کہ بھارت نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ کیا ہے اب مذاکرات کے ذریعے نہیں طاقت کے ذریعے ہی یہ قبضہ چھڑایا جاسکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنرل ایوب خان نے مسئلہ کشمیر میں پاکستان تاشقند کے کابینہ سے گیا تھا بھٹو کو بھٹو نے تھا کہ کے لیے تھی کہ
پڑھیں:
ایک اور گیم چینجر معاہدہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کی ایک ہی جھلک عوام نے دیکھی ہے کہ ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور ہوگا اور دونوں ملک اس کا مقابلہ مل کے کریں گے۔ معاہدے کی تفصیلات کا تو پوری طرح شاید ہی کسی کو علم ہو مگر یہ ایک سطری خلاصہ ہی دشمنوں اور شریکوں کو جلانے اور انہیں عزائم اور منصوبے بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہے۔ سعودی عرب کے وسائل اور پاکستان کی فوجی طاقت اگر کسی تیسرے ملک کی جارحیت کے خلاف یکجا ہوتی ہے تو حالات کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ جس پر اس معاہدے کو پڑھے سنے بغیر گیم چینجر کہنے کا دل کرتا ہے۔ اپنی تزویراتی اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ ایک سماجی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ مقامات مقدسہ کا دفاع ایک ذمے داری ہی نہیں ایک خواب بھی سمجھا جاتا ہے۔ گیم چینجر معاہدات کرنے میں پاکستان کا کوئی ثانی نہیں۔ برسوں کے سفر میں پاکستان کے حکمران طبقات نے بیش تر دور رس اثرات کے حامل معاہدات کیے کمی صرف ان معاہدات پر کسی ایک فریق کی طرف سے صدق ِ دل سے عمل درآمد کی رہی ہے۔ کبھی ہم خود معاہدوں پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہے تو کبھی فریق ِثانی اپنے معاہدوں کو اصل روح کے ساتھ عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم ایک گیم چینجر معاہدہ کرکے فارغ ہوئے تھے۔ ہمارا میڈیا ریاستی ادارے حکمران طبقات سب یہ بتا رہا تھے کہ پاکستان کو ستر برس کے سفر میں جس منزل کا انتظار تھا وہ بس دوگام پر ہے۔ یہ چین کے ساتھ بیلٹ اینڈ روڈ کا معاہدہ تھا جس کی حمایت جس کی فیوض وبرکات گنوانے میں پوری ریاستی مشینری رطب اللسان تھی۔ ہم بھی اس لہر میں بہہ کر یہ سمجھتے تھے کہ واقعی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے ہاتھ جادوئی چھڑی یا الہٰ دین کا چراغ لگ گئے ہیں۔ چراغ کو رگڑتے اور چھڑی کو گھماتے ہی پاکستان کے سارے قرض اْتر جائیں گے۔ پاکستان ترقی کے ایک سفرپر روانہ ہوگا کہ جہاں بدعنوانی کا گزر نہیں ہوگا کیونکہ چین اپنے ہاں اگر کرپشن پر زیرو ٹالرنس کا رویہ اپنائے ہوئے ہے وہ اپنے قرض یا اپنی سرمایہ کاری پر بھی یہی رویہ اپنائے گا اور یوں پاکستان کا نظام اپنے مزاج میں تبدیلی لا کر بدعنوانی سے پاک معاشرے کی تکمیل پر متوجہ ہوگا۔ احتساب کو محض نعروں اور سیاسی انتقام کے بجائے حقیقی سماجی اور معاشی اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان کے شہر شنگھائی بیجنگ بنیں گے تو اس کے دیہات چینی دیہاتوں کی طرح محنت کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہوں گے۔ ہماری زراعت چینی مہارت اور ٹیکنالوجی کے باعث ترقی کرے گی اور اب ہمیں بہت سی اشیاء کے لیے سرحدوں سے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جب ہم چین سے سر پھینک کر محنت کرنے کا ہنر سیکھ لیں گے تو ہماری خوداور خودداری بھی جاگ پڑے گی اور ہم آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق قرضوں کی واپسی کی شکل میں اْتار پھینکیں گے۔ چین پاکستان میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے تو ظاہر ہے اس کے پاس اس سرمایہ کاری کی حفاظت کا پلان بھی ہوگا سو اب امن اور چین ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر ہے اور ہم بدامنی اور کرائے کی جنگوں کا ایندھن بننے کی مجبوریوں سے دامن چھڑا چلیں گے۔ سی پیک پر گیم چینجر معاہدہ ہوا۔ ہماری خواہش تھی کہ افغانستان سے مقبوضہ کشمیر تک لوگ اس عظیم منصوبے کا حصہ بن کر مستفید ہوں۔ مقبوضہ کشمیر سے تو آوازیں اْٹھنے لگی تھیں کہ سی پیک سے مستفید ہونا ہمارا بھی حق ہے۔ کشمیر میں عوامی مزاحمت کی لہروں کے پیچھے یہ خواہش بھی مچل رہی تھی۔ کابل میں اشرف غنی بگرام میں بیٹھے مہمانوں کی خشمگیں نگاہوں کے باعث اس معاملے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے مگر طالبان اسی خواہش کی تکمیل کا دوسرا نام تھا۔ پھر گیم چینجر معاہدہ لاتعداد ارمانوں خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ ہوا مگر پاکستان کے دن پھرنا تھے نہ پھرے۔ اب یہ گیم چینجر منصوبہ وقت اور حالات کی دھند میں تاریخ کے عجائب خانے کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ منصوبہ گیم چینجر نہ تھا اگر صدق دل سے اس پر عمل ہوتا تو شاید حالات کچھ بہتر ہوتے مگر سردست ایسا نہیں ہوسکا۔
پاکستان نے تاریخ میں ہر معاہدہ ہی گیم چینجر کیا مگر گیم چینج ہونے سے پہلے ہی سب کچھ چینج ہوتا رہا۔ 1954 میں امریکا کے ساتھ پہلا دفاعی معاہدہ گیم چینجر تھا۔ وقت کی سپر طاقت کے ساتھ دفاعی معاہدہ لاتعداد خوابوں اور خواہشوں کے ساتھ ہوا مگر اس کے باوجود پاکستان ٹوٹ گیا اور ساتواں بحری بیڑہ مدد کو نہ آسکا۔ دوحصوں میں بٹ جانے کے بعد نئے پاکستان میں ایک نئی صبح کے طلوع کا تاثر دینے اور عوام کے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے 1974 میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا لاہور میں انعقا د ہوا۔ اہلاً وسہلاً مرحبا کے بڑے بڑے اشتہار چھپوائے گئے اور قوم کو تاثر دیا گیا کہ اب مسلم اْمہ کا اتحاد پاکستان کو عروج عطا کرے گا مگر کچھ نہ ہوا۔ 1979 میں جنرل ضیاء الحق نے بتایا کہ ہم تاریخ کے اہم ترین موڑ پر دنیا کا سب سے اہم اور مشکل کام انجام دے رہے ہیں اور اس میں ہماری بقا اور عروج ہے۔ افغان جہاد کی حمایت افغان مہاجرین کی میزبانی دنیا میں ہمیں ممتاز اور نمایاں مقام دے گی۔ یہ دور ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ سب کچھ ویسا ہی ہے بلکہ چیزیں پہلے سے زیادہ خراب ہو چکی ہیں۔ 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے وقت بھی قوم کو یہی خواب دکھایا گیا کہ اب پاکستان دفاع کے روایتی طریقوں سے فارغ ہوکر وسائل اپنے عوام کے میعار زندگی کو بلند کرنے پر لگائے گا مگر آج تک آئی ایم ایف کا قرضہ ترقی کر رہا ہے۔ 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی معاونت پر ایسے خواب دکھائے جو سراب ہی ثابت نہیں ہوئے بلکہ اپنے پیچھے بہت عذاب چھوڑ گئے۔ 2015 میں سی پیک کا خواب دکھایا گیا۔ اب مجیب الرحمان شامی صاحب فرماتے ہیں کہ پاک سعودی عرب تاریخی معاہدے سے پاکستان کا ایک سو چالیس ارب ڈالر کا قرضہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا میں اْڑ جائے گا۔ شامی صاحب کے منہ میں گھی شکر مگر برسوں کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان بیرونی معاہدات سے نہیں اندرونی معاہدے سے ٹھیک ہوگا جب ریاست اپنے عوام سے اندرونی حالات ٹھیک کرنے کا معاہدہ کرے گی تو ہماری مٹی بھی سونا بننے لگے گی اس وقت تک ہمارا سونا بھی مٹی بنتا رہے گا۔