’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کس طرح دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے؟ آئی آئی سی آر کی ہوشربا رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
اسلام آباد میں قائم آزاد اور غیر جانبدار تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ ریزولوشن (IICR) نے ایک تازہ تجزیاتی رپورٹ میں بلوچستان کی صورتِ حال اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کی متنازع نامزدگی کا بھارتی پراپیگنڈا؟
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جاری دہشتگردی صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ بیانیے کی جنگ میں بھی لڑی جا رہی ہے، جہاں انسانی حقوق کے نام پر دہشتگردی کو جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بلوچستان: دہائیوں پر محیط دہشتگردیبلوچستان طویل عرصے سے شدت پسند گروہوں کی پرتشدد مہم کا شکار رہا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) نے خود کو سیاسی جدوجہد کے پردے میں چھپایا لیکن ان کے اقدامات خالصتاً دہشتگردی کے ہیں۔
حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے نہ صرف شہریوں کو نشانہ بنایا بلکہ بسوں سے مسافروں کو اتار کر قتل کیا، جافر ایکسپریس کو یرغمال بنایا اور اسکول بس پر حملہ کیا جس میں بچے جاں بحق ہوئے۔
ان واقعات نے عالمی سطح پر مذمت کو جنم دیا اور امریکہ نے بی ایل اے کو باضابطہ طور پر دہشتگرد تنظیم قرار دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی: انسانی ہمدردی یا دہشتگردی کی حمایت؟بلوچ یکجہتی کمیٹی 2018 میں سامنے آئی اور ابتدا میں سماجی خدمات کی آڑ میں مقبولیت حاصل کی۔
تاہم رپورٹ کے مطابق اس کی قیادت، خصوصاً ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، ریاستی حمایت کے باوجود دہشتگردی کی مذمت کرنے کے بجائے ہمیشہ ریاستی اداروں کو نشانہ بناتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں:خان کو باہر بھیجنے کا پلان، شہباز شریف اور عاصم منیر عظیم لیڈر قرار، ماہرنگ بلوچ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی
بی وائی سی نے بی ایل اے کے حملوں پر خاموشی اختیار کی اور بعض مواقع پر دہشتگردوں کو شہید قرار دے کر ان کے جنازے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لاپتا افراد کا بیانیہ اور حقائقرپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بی وائی سی کی جانب سے ’لاپتا افراد‘ قرار دیے جانے والے کئی نوجوان بعد میں بی ایل اے کے دہشتگرد کے طور پر سامنے آئے۔
متعدد ایسے کیسز درج ہیں جن میں لاپتا قرار دیے گئے افراد خودکش حملوں میں مارے گئے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ’لاپتا افراد‘ کا بیانیہ دہشتگردی کو چھپانے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈا
بی وائی سی اور اس کے حامی بیرونِ ملک بھی سرگرم ہیں۔ یورپ اور امریکا میں احتجاجی مظاہرے کرکے پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے، جبکہ دہشتگرد گروہوں کے جرائم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والا ’یورگن واٹنے فریڈنس‘ کون ہے؟
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ پروپیگنڈا دہشتگردوں کو سفارتی تحفظ دیتا ہے اور پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کاوشوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اختتامیہ: دہشتگردی کو دہشتگردی کہنا ضروری
IICR کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا امن صرف دہشتگردوں کے خلاف کارروائی سے نہیں بلکہ بیانیے کی جنگ جیتنے سے بھی وابستہ ہے۔
بی وائی سی جیسے پلیٹ فارمز انسانی حقوق کے پردے میں دہشتگردوں کو سہارا دیتے ہیں، اس لیے ان کے بیانیے کو بے نقاب کرنا ناگزیر ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ عالمی سطح پر یہ واضح کرے کہ اصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی عام شہریوں، مزدوروں اور طلبہ کا قتل ہے، جو بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے گروہ کرتے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ بلوچستان میں پائیدار امن کے لیے دہشتگردی کے ہتھیار اور پروپیگنڈا دونوں کو شکست دینا ہو گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
IICR آئی آئی سی آر انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ ریزولوشن انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ ریزولوشن بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان بی وائی سی ماہرنگ بلوچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان بی وائی سی ماہرنگ بلوچ بلوچ یکجہتی کمیٹی ماہرنگ بلوچ بی وائی سی رپورٹ میں بی ایل اے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ اور بچوں کا بدنام زمانہ جنسی اسمگلر، ہوشربا انکشافات
اسلام ٹائمز: ہنٹر بائیڈن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ خاندان اور ایپسٹین کے درمیان تعلقات کو "انتہائی وسیع اور گہرے" قرار دیا۔ وہ امریکی صحافی مائیکل وولف کی کتاب "فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس" کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی اور ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران وائٹ ہاؤس کے اندرونی حالات سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کے باعث امریکہ میں شدید ہلچل کا سبب بنی تھی۔ خصوصی رپورٹ:
امریکہ میں بچوں کے ایک بدنام زامنہ جنسی اسمگلر کا کیس، امریکہ کے متنازع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک نئے چیلنج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران منظرِ عام پر آنے والی مختلف دستاویزات نے موجودہ امریکی صدر اور بچوں کے جنسی اسمگلر جفری ایپسٹین کے درمیان تعلقات کی گہرائی کے مزید پہلو آشکار کیے ہیں۔
ایپسٹین کون تھا؟:
1953 میں پیدا ہونے والا جفری ایپسٹین ایک امریکی سرمایہ کار تھا، جس نے خود کو ایک نہایت دولت مند مالیاتی مینیجر کے طور پر متعارف کروایا، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ نابالغ لڑکیوں کا جنسی استحصال کر کے انہی کی خرید و فروخت کے ایک وسیع نیٹ ورک کا اصل سرغنہ تھا۔ وہ 100 سے زائد نابالغ لڑکیوں کے جنسی استحصال اور اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا کر رہا تھا، اور اس کے تعلقات سیاست دانوں، مشہور شخصیات اور ارب پتی افراد سمیت طاقتور طبقے کے متعدد لوگوں سے قائم تھے۔ ایپسٹین اپنے نجی جزیرے (یو ایس ورجن آئی لینڈز) پر مشکوک تقریبات منعقد کرتا تھا۔ 2008 میں اسے نابالغ لڑکیوں کے استحصال کے جرم میں سزا تو ملی، مگر ایک خفیہ ڈیل کے نتیجے میں اسے صرف 13 ماہ کی جیل کاٹنی پڑی۔
2019 میں اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا، وہ ایک ایسے مقدمے کا منتظر تھا جس میں اس کے سیاست دانوں، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ تعلقات کے متعدد راز افشا ہونے کا امکان تھا۔ لیکن اچانک یہ اعلان ہوا کہ وہ نیویارک کی ایک جیل میں مردہ پایا گیا ہے۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ اس نے خودکشی کی، لیکن ایپسٹین کے بااثر حلقوں سے تعلقات کے باعث یہ دعویٰ عام لوگوں میں شکوک سے بالاتر نہ ہو سکا۔ ایپسٹین کے پاس بل کلنٹن، ڈونلڈ ٹرمپ، شہزادہ اینڈریو اور بل گیٹس جیسے مشہور افراد کے بارے میں انتہائی حساس معلومات تھیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ اس کی موت کو ممکنہ عدالتی افشاگریوں کو روکنے کا شاخسانہ سمجھتے ہیں۔
یہ کیس مغرب کے طاقتور اور دولت مند طبقات میں پھیلی بدعنوانی کی علامت بن چکا ہے، اور حالیہ انکشافات کے بعد یہ معاملہ خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے زیادہ توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس رپورٹ میں اس کیس میں ٹرمپ کے خلاف سامنے آنے والے اہم ترین انکشافات کا جائزہ لیا گیا ہے، تاہم اس سے پہلے ان دونوں افراد کی دوستی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
1۔ دوستانہ تعلقات:
ایپسٹین کے کیس میں ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات، ای میلز اور بیانات شامل ہیں، جو امریکی عدالتوں اور کانگریس کی کمیٹیوں کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔
تاہم ان دستاویزات کے سامنے آنے سے پہلے ہی ٹرمپ اور ایپسٹین کی دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔ دونوں کو ٹرمپ کے مارا لاگو کلب کی تقریبات میں ایک ساتھ دیکھا جاتا تھا، اور ان کی متعدد تصاویر بھی موجود ہیں جن میں ملانیا ٹرمپ اور ایپسٹین کی ساتھی مجرم گِسلین میکسویل بھی نظر آتی ہیں۔
پروازوں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے کم از کم سات بار ایپسٹین کے نجی طیارے میں سفر کیا۔ یہ پروازیں عموماً پالم بیچ جیسے تفریحی مقامات کی جانب جاتی تھیں، وہی جگہیں جہاں ایپسٹین نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اپنے بدنام زمانہ پروگرام اور پارٹیاں منعقد کرتا تھا۔ بعدازاں ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ کبھی ایسے مقامات پر نہیں گئے، لیکن سامنے آنے والے دستاویزات نے اس دعوے کو غلط ثابت کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ آیا ٹرمپ ان پروازوں کے ماحول اور مقاصد سے واقف تھے یا نہیں۔
2- ایپسٹین کے بارے میں عوام کی رائے:
ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2002 میں نیویارک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایپسٹین کو ایک غیر معمولی شخص قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ نوجوان اور خوبصورت لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے، بالکل میری طرح۔ یہ بیان، جو کئی سال بعد دوبارہ منظرِ عام پر آیا، واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ ایپسٹین کے نوجوان خواتین کے حوالے سے ذوق کی تعریف کرتے تھے۔ یہی بات بعد میں اس دعوے سے متصادم ثابت ہوئی جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے 2004 میں ایپسٹین سے پوری طرح تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
3۔ ٹرمپ کی ایپسٹین کے جرائم سے آگاہی:
گزشتہ دس دنوں میں سامنے آنے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اُس وقت بھی ایپسٹین سے اپنے تعلقات برقرار رکھے جب وہ ایپسٹین کی مجرمانہ سرگرمیوں اور اس کے جنسی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے بخوبی آگاہ تھے۔
4۔ مقدمے کی متاثرہ لڑکیوں سے ٹرمپ کا تعلق:
دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ ایپسٹین نے اپنی ساتھی مجرم گسلین میکسویل کو ایک ای میل میں لکھا تھا کہ ٹرمپ نے اس کے گھر میں کم عمر ایک متاثرہ لڑکی کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے۔ اسی ای میل میں ایپسٹین نے ٹرمپ کو "وہ کتا جو بھونکتا نہیں" قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹرمپ سب کچھ جانتے ہیں، سب دیکھ چکے ہیں، مگر اب تک اس بارے میں چپ رہے ہیں اور کچھ نہیں کہا۔
5۔ ٹرمپ کی سرگرمیوں کی خفیہ نگرانی:
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایپسٹین کے عملے نے 2004 کے بعد بھی ٹرمپ کی پروازوں پر نظر رکھی اور اس کی سفری سرگرمیوں سے متعلق ای میلز ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نگرانی اس بات کا اشارہ ہے کہ ایپسٹین ٹرمپ میں مسلسل دلچسپی رکھتا تھا اور اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتا تھا۔
6۔ ٹرمپ کی بدعنوانی کے متعلق ایپسٹین کا اعتراف:
اسناد ظاہر کرتی ہیں کہ ایپسٹین ٹرمپ کی بدعنوانیوں سے بخوبی واقف تھا۔ 2018 میں اُس نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا کہ "میں جانتا ہوں کہ ڈونلڈ کتنا گندا ہے۔"
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ کے ایک فحش فلموں کی اداکارہ کے ساتھ تعلقات کی خبریں میڈیا میں گرم تھیں۔ ایپسٹین نے 2017 میں، ٹرمپ کی حلف برداری کے کچھ عرصے بعد، ایک اور ای میل میں لکھا کہ "یاد ہے میں نے کہا تھا کہ میں نے بہت بُرے لوگوں کو دیکھا ہے؟ ان میں سے کوئی بھی ٹرمپ جتنا خبیث نہیں۔ اس کے اندر ذرا سی بھی شرافت نہیں، تو ہاں، وہ خطرناک ہے۔"
7۔ ٹرمپ کی شادی میں ایپسٹین کا کردار:
حال ہی میں سابق امریکی صدر کے بیٹے، ہنٹر بائیڈن، نے ایک یوٹیوب پروگرام میں انکشاف کیا کہ ایک بدنام زمانہ جنسی دلال نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی موجودہ اہلیہ ملانیا ٹرمپ کی شادی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یوٹیوب پروگرام چینل 5 ود اینڈریو کالاغن کو دیے گئے اس انٹرویو میں ہنٹر بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ بچوں کے جنسی اسمگلر جفری ایپسٹین، جو 2019 میں مشکوک حالات میں جیل میں مردہ پایا گی۔ اس نے ہی ٹرمپ اور ملانیا کا آپس میں تعارف کرایا تھا۔
ہنٹر بائیڈن نے اس انٹرویو میں ٹرمپ خاندان اور ایپسٹین کے درمیان تعلقات کو "انتہائی وسیع اور گہرے" قرار دیا۔ وہ امریکی صحافی مائیکل وولف کی کتاب "فائر اینڈ فیوری: انسائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس" کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کتاب 2018 میں شائع ہوئی تھی اور ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران وائٹ ہاؤس کے اندرونی حالات سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کے باعث امریکہ میں شدید ہلچل کا سبب بنی تھی۔
8۔ ٹرمپ کی متنازع مبارکباد:
وال اسٹریٹ جرنل نے حالیہ دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2003 میں جفری ایپسٹین کو اس کے 50ویں یومِ پیدائش پر ایک مبارکباد کارڈ بھیجا تھا، جس میں ایک نیم برہنہ عورت کی تصویر اور ایک طنزیہ پیغام شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس کارڈ میں مزید نامناسب مواد بھی موجود تھا۔ ٹرمپ نے اس پیغام میں لکھا تھا کہ ہمارے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں، جفری۔ انہوں نے آخر میں یہ بھی تحریر کیا کہ سالگرہ مبارک اور امید ہے کہ ہر دن ایک نیا حیران کن راز لے کر آئے۔
9۔ روسی حکام سے ملاقات کی پیشکش:
ڈیموکریٹ اراکینِ کانگریس کی جانب سے منظرِ عام پر لائی گئی ایک ای میل کے مطابق، ایپسٹین نے ایک سابق یورپی عہدیدار ثوربیورن یاگلاند (سابق سیکریٹری جنرل، کونسل آف یورپ) کو تجویز دی تھی کہ وہ ولادیمیر پوتن اور سرگئی لاوروف (روسی وزیر خارجہ) کو کہیں کہ وہ “ٹرمپ کو بہتر سمجھنے کے لیے” اس سے بات کریں۔ یہ ای میل 2018 میں ہلسنکی میں ٹرمپ پوتن ملاقات سے پہلے کی ہے۔ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ پیغام ٹرمپ اور روس کے درمیان تعلقات کے کئی پراسرار پہلوؤں میں سے ایک اور اہم اشارہ ہے۔
10۔ پردہ پوشی کی کوششیں:
امریکی میڈیا نے چند ماہ قبل رپورٹ کیا تھا کہ FBI کوشش کر رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر بااثر شخصیات کے نام ایپسٹین سے متعلق کچھ دستاویزات سے حذف کر دیے جائیں۔ اس کے علاوہ بھی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق امریکی محکمۂ انصاف نے ایپسٹین فائل سے کئی دیگر ناموں کو ہٹانے کی کوششیں کیں۔