این ایف سی ایوارڈز، اضافی فنڈز کے باوجود بلوچستان اور خیبر پختونخوا ترقی میں پیچھے
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی میں پنجاب سب سے آگے، بلوچستان و خیبرپختونخوا کے برعکس پنجاب میں انتہائی کمزور ضلع ایک بھی نہیں۔
رپورٹ میں اضلاع کو مالی وسائل کی براہ راست منتقلی کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومتوں کا وسائل پر مضبوط کنٹرول آبادی کے ایک بڑے حصے کی پسماندگی بڑھا رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ولنرایبلٹی انڈیکس فار پاکستان کا اجراء وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب اور وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے کیا، جس کے مطابق ملک کے بیشتر کمزور ترین اضلاع بلوچستان، کم کمزور پنجاب میں ہیں۔رپورٹ میں7 ویں نیشنل فنانس کمیشن کے تحت صوبوں کو جاری کھربوں کے اضافی مالی وسائل کے استعمال پر سوالات اٹھائے ہیں کہ اضافی رقوم اپنے لوگوں پر خرچ کرنے کے بجائے وفاقی حکومت کے قرضوں میں لگ رہی ہے۔
رپورٹ چھ شعبوں ہاؤسنگ، ذرائع معاش، کمیونیکشین، ٹرانسپورٹ، صحت و تعلیم تک رسائی، شرح پیدائش کی بنیاد پر تیار اور پاکستان پاپولیشن کونسل کے انڈیکس نیسماجی، معاشی اور موسمیاتی خطرات سے حوالے سے اضلاع کی درجہ بندی کی ہے۔
بہتر کارکردگی والے اضلاع میں سسٹم کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک کے مطابق 11.
رپورٹ کے مطابق20 کم کمزور اضلاع میں13 پنجاب، 4 سندھ، 2 خیبرپختونخوا میں ہیں، بلوچستان میں ایک بھی کم کمزور ضلع نہیں۔
انتہائی کمزور اضلاع میں 2 سابق فاٹا، ایک سندھ، 17 بلوچستان میں ہیں، پنجاب میں کوئی ضلع انتہائی کمزور نہیں۔
چیف اکانومسٹ ڈاکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ خطے میں آبادی کے اضافہ کی 2.55 فیصد بلند شرح تمام سٹیک ہولڈرز پر فیصلہ کن اقدامات کیلئے دبائو بڑھا رہی ہے، وہ اضلاع کم کمزور ہیں جوکہ انفراسٹرکچر کے ذریعے باقی ملک سے جڑے ہیں، ان پانچ اضلاع میں کراچی کے چار اور لاہور شامل ہیں۔
پانچ کمزور ترین اضلاع میں بلوچستان کے چار اضلاع واشک، خضدار، کوہلو، ژوب اور خیبر پختونخوا کا ضلع کوہستان شامل ہیں۔
انتہائی کمزور اضلاع میں واشک، خضدار، کوہستان، ژوب، کوہلو، موسیٰ خیل، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، قلات، تھرپارکر،شیرانی، جھل مگسی، نصیر آباد، چاغی، بارکھان، ہرنائی، آواران، خاران، شمالی وزیرستان اور پنچگور شامل ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق بہترین اضلاع کی حالت بہت اچھی نہیں، 20 انتہائی کمزور اضلاع میں17 کا بلوچستان میں رپورٹ کا بدترین پہلو ہے۔
رپورٹ میں ہائوسنگ کچے مکانات کا تناسب، ٹائلٹ اور صاف پانی کی سہولت کا فقدان، ایک کمرے پر مشمل گھر ہیں، 20 بدترین کارکردگی والے اضلاع کی 65 فیصد آبادی کچے عارضی گھروں کی مکین، ان میں نصف کو پائلٹ کی سہولت، 40 فیصد کی صاف پانی میسر نہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے صاف پانی، تعلیم اور محفوظ ہائوسنگ تک رسائی میں بڑھتی عدم مساوات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے کبھی نہیں سوال کیا کہ صاف پانی تک رسائی مشکل کیوں ہے؟صاف پانی، تعلیم، محفوظ گھر آسائشیں نہیں، بنیادی حق ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کئی متصل اضلاع میں پکی سڑکوں، ٹرانسپورٹ یا ٹیلیفون سروسز سے رابطے کا شدید فقدان ہے۔ بے روزگاری کے شکار 20 میں15 اضلاع بلوچستان میں، بلامعاوضہ ورکرز کا تناسب بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں زیادہ ہے ۔
رپورٹ کے مطابق دونوں صوبوں میں پسماندگی کی بلند شرح کی وجہ دونوں کا دہشتگردی کیخلاف سے زیادہ متاثر ہونا ہے۔
صحت کی سہولتوں کے فقدان کی بنیاد مراکز صحت، نجی ڈاکٹر کی گائوں سے دوری اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے دورے بنائے گئے ہیں، اس شعبہ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا دونوں کمزور صوبے ہیں،جن کے اضلاع کے درمیان صحت کی سہولتوں کے حوالے سے گہری عدم مساوات ہے۔
تعلیم میں تدریسی سہولتوں سے فاصلے کو بنیاد بنایا گیا ہے، کراچی سکولوں تک رسائی میں پہلے، بلوچستان طویل فاصلوں کے باعث کمزور ترین ہے۔
شرح پیدائش پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی کارکردگی کمزور حالانکہ کمزور ترین تھرپارکر ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انتہائی کمزور اضلاع کمزور اضلاع میں رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بلوچستان اور صاف پانی مصدق ملک تک رسائی
پڑھیں:
کے پی کےساتھ سوتیلی ماں جیساسلوک ہوتاہے،سہیل آفریدی
پشاور: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع کے ساتھ سالانہ 10 کروڑ کا وعدہ کیا گیا تھا جو مل نہیں رہا۔ 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ وفاق ہمارا قرض دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی گورننس اور پالیسی پر کوئی توجہ نہیں دیتا جبکہ قبائلی اضلاع ضم ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حصہ 400 ارب بنتا تھا۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ تاہم اب جو پالیسی قوانین بنیں گے وہ عوام کے حق میں ہوں گے۔