تمام ڈیجیٹل فنڈز بروقت ٹرانسفر ہو رہے ہیں اور رقوم فوراً منتقل ہو جاتی ہیں، اسٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
کراچی:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نےڈیجیٹل فنڈز ٹرانسفر میں دو گھنٹے کے کولنگ پیریڈ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ڈیجیٹل فنڈز بروقت ٹرانسفر ہو رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل فنڈز ٹرانسفر کے لیے دو گھنٹے کے کولنگ پیریڈ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر زیرگردش خبر کے حوالے سے وضاحت کی جاتی ہے کہ تمام ڈیجیٹل فنڈز ریئل ٹائم (بروقت) بنیاد پر ٹرانسفر ہو رہے ہیں اور رقوم وصول کنندگان کے اکاؤنٹس میں تقریباً فوراً منتقل ہو جاتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ دو گھنٹے کے کولنگ پیریڈ کا اطلاق صرف برانچ لیس بینکنگ والٹس، اکاؤنٹس میں وصول ہونے والی رقوم کے استعمال یا رقم کے اخراج پر ہوتا ہے، اگرچہ برانچ لیس بینکنگ والٹس، اکاؤنٹس میں رقوم فوراً منتقل ہو جاتی ہیں، تاہم ان رقوم کا اخراج یا ان سے آن لائن خریداری یا موبائل ٹاپ اپس صرف دو گھنٹے کے کولنگ پیریڈ کے بعد ہی ممکن ہوسکتی ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ شرط اپریل 2023 میں متعارف کرائی گئی تھی کیونکہ برانچ لیس بینکنگ اکاؤنٹس کے لیے صارف کی ضروری مستعدی کے تقاضے نسبتاً سادہ ہیں اور اس لیے ان میں دھوکا دہی پر مبنی لین دین کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ دو گھنٹے کے کولنگ پیریڈ سے صارفین کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے بینک کو کسی بھی مشکوک یا جعلی لین دین کی بروقت اطلاع دے سکیں۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ ڈھائی سال سے جاری کردہ کولنگ پیریڈ کی یہ ہدایات مؤثر طور پر کام کر رہی ہیں اور دھوکا دہی پر مبنی لین دین کے خلاف ایک مضبوط حفاظتی اقدام ثابت ہوئی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل فنڈز اسٹیٹ بینک ہیں اور
پڑھیں:
27 ویں ترمیم، 4 ہائی کورٹ ججز کے مستعفی ہونے کا امکان، اکاؤنٹ ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی تفصیلات مانگ لیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ہائی کورٹ کے ججوں کو ان کی مرضی کے بغیر صوبوں کے درمیان ٹرانسفر کرنے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دینے والی متنازع 27ویں ترمیم کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ہائی کورٹ کے کم از کم چار ججز استعفے پر غور کر رہے ہیں۔ موقر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان چار ججوں نے حال ہی میں اپنی ہائی کورٹ کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مراعات کی مفصل معلومات طلب کی ہیں۔ زبانی طلب کی گئی یہ معلومات پنشن کے فوائد اور جن تاریخوں پر یہ فوائد مل سکتے ہیں ان کی تفصیلات، اپنی باقی رہ جانے والی رخصت (ایکومولیٹڈ لیو بیلنس)، اور ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی موجودہ قیمت (اگر وہ یہ گاڑیاں خریدنا چاہیں تو) کے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق، معلوماتطلب کیے جانے کے اس واقعے سے یہ جوڈیشل حلقوں میں یہ افواہیں سرگرم ہیں کہ یہ چار ججز (جو ستائیسویں ترمیم کے بعد ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے ٹرانسفر کیے جانے والے ججز کی فہرست میں شامل ہیں) سرگرمی کے ساتھ اس آپشن پر غور کر رہے ہیں کہ نئے صوبوں یا علاقہ جات میں ٹرانسفر ہونے کی بجائے استعفےٰ دیدیا جائے۔ ان میں سے دو ججز ایسے ہیں جو آئندہ ماہ کسی بھی وقت پنشن کیلئے اہل ہو جائیں گے، جس سے ان کے فیصلے کے حوالے سے بے یقینی پائی جاتی ہے۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے استعفے کا فیصلہ کیا تو اب تک یہ واضح نہیں کہ استعفے فوراً آئیں گے یا جب وہ پنشن اور مراعات کیلئے کوالیفائی کرلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو یہ بھی واضح نہیں کہ یہ لوگ مل کر استعفیٰ دیں گے یا ایک ایک کرکے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب حکومت نے 27ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل ری شفلنگ (عدالتوں میں رد و بدل) کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ری شفلنگ ضروری ہے تاکہ ایسے ججوں کے رویے کے مسائل کو حل کیا جا سکے جو حکومت کے بقول عدلیہ کی بے توقیری کا سبب بنے ہیں۔ تاہم، دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ 27ویں ترمیم نے عدلیہ کی آزادی کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور ایسی صورتحال میں آزاد خیال ججوں کیلئے عہدوں پر باقی رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آئینی طور پر ججوں کے تقرر اور ٹرانسفر کا اختیار رکھتا ہے لیکن جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی موجودہ تشکیل کے ذریعے بظاہر حکومت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
انصار عباسی