data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250930-03-8
باباالف
کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے
(ظفر اقبال)
ہاتھوں کی لکیروں سے الجھنے میں، ہاتھ دکھانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوجاتا ہے۔ ایک دست شناس نے کسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ’’اگر آپ کے دادا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ آپ کے والد کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے آپ کے ہاں بھی نہ ہو‘‘۔ ہاتھ دکھانے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دست شناس کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ ہا تھ پھیلانے کے ہنر میں ہمارے حکمرانوں کی مہارت بے مثل ہے اس قدر کہ اب کوچہ سود خوراں میں ان کا سرخ قالین پر استقبال کیا جاتا ہے۔
دست شناسی ایک حیرت انگیز علم اور مہارت ہے۔ ہتھیلی، اس کی لکیریں، اشکال اور کانٹے آپ کی شخصیت کے بارے میں وہ باتیں ظاہر کردیتی ہیں جو گمان میں بھی نہ ہوں۔ دست شناسی صدیوں برس قدیم فن ہے۔ اس کا آغاز بھارت سے ہوا۔ یہاں سے نکل کر یہ ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا میں پھیل گیا۔ چینی باشندوں اور ارسطو نے اس میں خصوصی دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اس فن کی بدولت کئی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔
پاکستان خصوصاً کراچی میں بندر روڈ پر بیٹھے دست شناس اس فن کے امین ہی نہیں الاٹی بھی تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ دندان ساز بھی قطار میں بیٹھے ہوتے تھے۔ اب نہ دست شناس رہے اور نہ وہ دندان ساز۔ اخبار فروشوں کے ٹھیوں پر بھی جو سستی اور عوامی پسند کی کتابیں بکتی تھیں ان میں ’’کیرو کی پا مسٹری‘‘ لازمی ہوتی تھی۔ کسی دست شناس سے ایک مرمریں نازک سے ہاتھ نے سوال کیا۔
ہوش کا کتنا تناسب ہو بتادے مجھ کو
اور اس عشق میں درکار ہے وحشت کتنی
دست شناس نے جواب دیا ’’بیٹا ہوش کا تناسب اور عشق میں درکار وحشت چھوڑو، برتن کم دھویا کرو ایسا نہ ہو ہاتھ سے شادی کی لکیر ہی مٹ جائے‘‘۔ دبئی کے سابق حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کے بارے میں ایک نجومی نے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ میں دولت کی لکیر نہیں ہے۔ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز مرحوم کے ہاتھ میں شہرت کی لکیر نہیں تھی۔ شاہ محمود قریشی جن دنوں وزیر خارجہ تھے ایک نجومی نے بتایا تھاکہ ان کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر نہیں ہے۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ان کا کام ایسا تھا کہ دماغی کام کوئی اور کرتا تھا انہیں صرف منہ بگاڑ کر بولنا ہوتا تھا۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر نہیں ہے۔ مگر عمران خان کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کبھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ شادیاں اور سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ عمل پیہم سے انہوں نے نجومیوں کی بات کو غلط ثابت کردیا اور 2018 کے الیکشن میں سلیکٹ ہوگئے۔ نجومی پھر بھی اپنی بات پر اڑے رہے۔
بہت سے دست شناس ہاتھ کے بجائے چہرے پر لکھی خواہشیں پڑھ کر قسمت کا حال بناتے ہیں۔ ایک دست شناس نے اداکارہ میرا کا ہاتھ دیکھ کر بتایا آپ کو بہت جلد ایک بڑی کاسٹ کی فلم میں لیڈ نگ رول ملنے والا ہے۔ ویسے آپ کس قسم کے رول پسند کرتی ہیں؟ ’’قیمے والے‘‘ اداکارہ میرا نے جواب دیا۔ دست شناس نے ایک لڑکی کا ہاتھ دیکھ کر بتایا ’’مس ناز آپ کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ عنقریب ایک بہت بڑا فلمساز آپ کو دیکھے گا اور اگلے سال تک آپ کی ملک کی نامور اور مہنگی ترین ہیروئن بن جائیں گی‘‘۔ مس ناز نے نجومی کوغصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں ویٹنگ روم میں سن رہی تھی مجھ سے پہلے جو پین دی سری آئی تھی اس کو بھی تم نے یہی بتایا تھا‘‘ نجومی نے بے بسی سے مس نازکو دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا کریں اس سے کم پر کوئی لڑکی راضی ہی نہیں ہوتی‘‘۔
پاکستان نام کے ایک ملک نے بھی اپنا ہاتھ نجومی کو دکھاتے ہوئے پوچھا تھا ’’مجھے اچھے حکمران کب ملیں گے‘‘۔ نجومی نے جواب دیا ’’کئی دہائیوں تک تمہیں برے حکمران ملیں گے‘‘۔ پاکستان نے خوش ہوتے ہوئے کہا ’’تو کیا اس کے بعد مجھے اچھے حکمران مل جائیں گے؟‘‘ نجومی نے جواب دیا ’’نہیں! اس کے بعد تم برے حکمرانوں کے عادی ہو جائوگے‘‘۔
کسی دست شناس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا ’’سات قسم کی عورتوں سے شادی مت کرنا۔۔ انانہ۔۔ منانہ۔۔ کنانہ۔۔ حنانہ۔۔ حداقہ۔۔ براقہ۔۔ اور۔۔ شداقہ‘‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا ’’یہ عورتیں ہیں یا کوہ قاف کے جنات‘‘۔
دست شناس نے تامل سے کہا: ’’انانہ‘‘ سے وہ عورت مراد ہے جو ہر وقت سر پر پٹی باندھے رکھے۔ شکوہ اور شکایت جس کا معمول ہو۔ ’’منانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت شوہر پر احسان جتاتی رہے اور کہے تم سے شادی کرکے تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ’’کنانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت ماضی کی یادوں میں گم رہے۔ فلاں وقت میرے پاس یہ تھا فلاں وقت میرے پاس وہ تھا۔ ’’حنانہ‘‘ ایسی عورت ہوتی ہے جو ہر وقت اپنے سابق خاوند کو یاد کرتی رہتی ہے اور موجودہ بدنصیب کا سابق سے تقابل کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جو بات اُس میں تھی وہ تم میں کہاں‘‘۔ ’’حداقہ‘‘ عورت ہمیشہ شاپنگ کی فرمائش کرتی رہتی ہے۔ ہر وقت شوہر سے کچھ نہ کچھ طلب کرنا اس کا معمول ہوتا ہے۔ ’’براقہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت اپنے بنائو سنگھار میں لگی رہے۔ ’’شداقہ‘‘ تیز زبان اور ہر وقت باتیں بناتی رہتی ہے۔
نوجوان نے دست شناس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ملکوں ملکوں گھوما اور ستر سال کی عمر میں بن شادی کے ہی مرگیا۔
انکشاف ذات ایک ایسامسئلہ ہے جس کے لیے لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کی طرح جنگلوں میں نکل جاتے ہیں۔ توتوں سے فال نکلواتے ہیں، نجومیوں، قیافہ شناسوں اور دست شناسوں کے آگے بیٹھتے ہیں لیکن آئینے سے رجوع نہیں کرتے۔ آپ کی تقدیر آپ ہی کے خدوخال، چہرے کے نشیب وفراز اور شکنوں میں پوشیدہ ہے جسے آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
آج کل کے دست شناس، نجومی اور مستقبل کا حال بتانے والے لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سارے جہاں کا علم ہمارے سینے اور لیپ ٹاپ میں ہے۔ یہ جدید اور نفیس لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گفتگو بھی بڑی مہارت اور سلیقے سے کرتے ہیں جس میں انگریزی الفاظ کا تناسب اور خود پسندانہ جھلک بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے جب کہ ماضی میں ان اصحاب کی ہیئت میں ایک مجنونانہ بے پروائی پائی جاتی تھی۔ نیم استغراقی اور نیم خود فراموشی کا عالم ان پر طاری ہوتا تھا اور بالوں کی صورت حال تو وہ ہوتی تھی کہ استاد ذوق یاد آجائیں:
خط بڑھا، کاکل بڑھے، قلمیں بڑھیں، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی لکیر نہیں ہے جو ہر وقت نے جواب دیا کے ہاتھ میں وہ عورت
پڑھیں:
دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی میں ہونے والے دھماکوں کی بابت پہلے تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ کسی گاڑی کے سیلنڈر پھٹنے سے ہوا ہے یا دھماکہ خیز مادے کی مدد سے کیا گیا ہے ۔ اس گاڑی کو چلانے والا فدائین حملہ آور تھا حادثاتی طور پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ شاید اس وقت تک سرکار دربار کے لوگ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کون سا بیانیہ سیاسی طور پر مفید یا مضر ہوگا؟ بی جے پی کی فرقہ پرستانہ سیاست کے لیے دہشت گردانہ بیانیہ ہی مفید تھا اور اگر وہ اقتدار میں نہیں ہوتی تو بلاتحقیق اسی کو آگے بڑھایا جاتا لیکن چونکہ یہ دھماکہ دارالخلافہ دہلی میں ہوا تھا جہاں ڈبل انجن سرکار ہے یعنی ریاستی حکومت کو بھی اس کے لیے گھیرا نہیں جاسکتا اس لیے یہ ہچکچاہٹ تھی کہ کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟ ملک میں فی الحال ایک بہت طاقتور مانے جانے والے وزیر اعظم ہیں جو ایک زمانے میں چین کو لال آنکھیں دِکھا کر ٹھیک کردینے کی عار دلاتے تھے اس لیے ان کے ہوتے یہ ہوجانا موصوف کی ‘مہا مانو'( عظیم انسان) والی شبیہ پر سوال کھڑے کرتا تھا۔اس کے علاوہ وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی انتظامی صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین دن گومگوں کی کیفیت رہی لیکن وزیر اعظم کے بھوٹان سے لوٹنے کے بعد اب تفتیشی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے زاویہ کا اشارہ دے دیا گیا ہے ۔
دھماکے کے بعد تیسرے دن تحقیقاتی ایجنسیوں نے گرفتار شدگان سے پوچھ گچھ کے بعد یہ دعویٰ کردیا ہے کہ دہلی سمیت ملک بھر کے کم از کم 32 مقامات پر ایک ساتھ دھماکے کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ ملک تفتیشی ایجنسیوں کو اس طرح کی کہانیاں گھڑنے کابہت وسیع تجربہ ہے اور وہ اس معاملے میں بڑے بڑے سے فکشن نگار کو چاروں خانے چِت کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ وطن عزیز میں یہ ہوتا رہا ہے اور یہ کام اس قدر سفاکی سے کیا جاتا ہے کہ باضمیر افسران کے لیے ایسے ظلم کا حصہ بننا ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے ۔ ممبئی کے ٹرین دھماکوں کی تفتیش شاہد ہے 11 جولائی 2006 کو ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کے سینئر تحقیقاتی افسرونود وٹھل بھٹ پراسرار حالت میں خودکشی کرلی تھی۔ ریلوے پولیس کو ان کی لاش مشکوک حالت میں ریل کی پٹریوں کے درمیان ملی تھی ۔ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ونود بھٹ اس وقت انسداد دہشت گردی عملہ کے تفتیشی افسر تھے ۔ اس سے قبل وہ ممبئی میں بارہ مارچ 1993 میں ہوئے بم دھماکوں کی جانچ سے بھی منسلک رہے تھے ۔ آگے چل کر جن نام نہاد ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کو برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور ان میں سے کئی لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی عدالت میں نہیں ٹک سکے اور سارے کے سارے ملزم باعزت بری ہوگئے لیکن میڈیا میں سنائی جانے والی کہانی اس قدر مرصع تھی کہ ہر کسی نے اس پر اعتبار کرلیا بقول وسیم بریلوی
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں 21اور22مارچ 2000کی رات ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے موقع پر بے قصور سکھوں کو ہلاک کرکے اس سانحہ کا الزام لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین پر لگا کر پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کے انکاونٹر کا دعویٰ کردیا گیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا وہ پانچوں مقامی باشندے تھے اور انہیں گشتی دستے کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ اس ہلاکت پر احتجاج درج کرنے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرنے والوں پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ اس سے پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔اس کے بعد سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں تحقیقات کا حکم دیا۔ ایک سال بعد جب کولکاتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی خاطر بھیجے جانے والے نمونے نقلی تھے ، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔ان دونوں کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی اور ابتداء میں گھڑے جانے والے جھوٹ کو مسترد کردیا۔ اس لیے ویسا ہی تجربہ دہلی دھماکے کے معاملے میں دوہرایا نہیں جائے ۔ چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ اب بھی ہر سال 22مارچ کو انصاف کی خاطر اس امید پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں کہ
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
دہلی دھماکے کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے نٹھاری قتل کیس میں بنیادی ملزم سریندرکولی کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ اس مقدمہ کے نشیب و فراز کو دیکھا جائے تو نہ صرف تفتیشی ایجنسی بلکہ عدلیہ کے رویہ پر بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ نٹھاری قتل معاملے کا انکشاف 29 دسمبر 2006 کو ہوا تھا۔ اس وقت دہلی سے سٹے نوئیڈا کے نٹھاری گاؤں میں صنعت کار مونندر سنگھ پنڈھیر کی رہائش گاہ کے پیچھے نالے سے 8 بچوں کے ڈھانچے برآمد ہوگئے ۔ تفتیش کے دوران مرکزی ملزم کے طور پر پندھیر کا گھریلو ملازم سریندر کولی سامنے آیا۔ آگے چل کر جب یہ معاملہ سی بی آئی کے ہاتھ میں گیا تو مزید انسانی اعضا اور ڈھانچے برآمد ہوئے ۔ تفتیش کے بعد کولی کو ایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں مجرم ٹھہرایا گیا ۔ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزا برقرار رکھی تھی اور 2014 میں اس کی نظرثانی عرضی بھی مسترد کر دی تاہم، 2015 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رحم کی عرضی پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کی تکنیکی بنیاد پر اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ۔
اکتوبر 2023 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے نٹھاری کیس متعلق معاملات میں سریندر کولی اور مونندر سنگھ پندھیر کو کمزورثبوت کمزور ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی سبب بری کر دیا۔اس کے بعد سی بی آئی اور مقتولین کے اہل خانہ نے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتو 30 جولائی 2025 کو عدالت عظمیٰ نے ان تمام 14 اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ دستیاب شواہد اتنے مضبوط نہیں کہ ان کی بنیاد پر سزائے موت یا قید برقرار رکھی جا سکے ۔امسال ٧اکتوبر 2025 کو عدالت نے کولی کی اصلاحی عرضی پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا مگر ١١نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں 18 برس سے جیل میں بند سریندر کولی کوفوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ نے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ”اصلاحی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے ، سزا اور جرمانہ منسوخ کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے معاملے میں کولی کی ضرورت نہیں ہے تو اسے فوراً رہا کیا جائے ۔” ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کے اندر یہ کہانیاں کیسے کمزور پڑجاتی ہیں مگر اس وقت تک بے قصور کی زندگی کے کئی سال قیدو بند میں گزر جاتے ہیں ۔
عمر خالد اور شرجیل امام وغیرہ کی مثال ہیں شاہد ہے کہ اس طرح کے معاملات صرف ہندوستان جیسے پسماندہ ملک کا خاصا نہیں ہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بے قصور سبرامنیم ‘سبو’ویدم کو رہا ہونے سے قبل 43 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں ۔19 سالہ طالب علم سبرامنیم ویدم کو اپنے ہم کمرہ ٹام کنسر کے قتل کا مجرم قرار دے کر 43 سال قبل عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ انہوں نے مقتول کی گمشدگی کے دن اس سے گاڑی لی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹام کنسر کو ان کی گاڑی معمول کی مختص جگہ پر واپس کر دی گئی تھی مگر اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ 1984 میں سبرامنیم کو عدالت کے سامنے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت منشیات کے جرم میں علیحدہ سے ڈھائی سے پانچ برس کی سزا سنا دی گئی۔ یہ سزا انھیں عمر قید کی سزا کے ساتھ ہی بھگتنی تھی۔ سبرامنیم کو قتل کی سزا کے خلاف نئے شواہد سامنے آنے پر بریت مل گئی ان کے خلاف ملک بدری کا حکمنامہ موجود ہے اور وہ حراست میں ہیں۔ ان کا پورا خاندان امریکہ میں ہے جبکہ ہندوستان کوئی بھی نہیں ہے اس لیے وہ یہاں آکر کیا کریں گے کوئی نہیں جانتا مگر امریکی انتظامیہ کے لیے یہ سوال بے معنیٰ ہے ۔ سبرامنیم ملک بدری کے مقدمے کے فیصلے تک حراست میں ہی رہیں گے ۔ اس طرح دنیا بھر میں بے قصور لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔ خدا کرے دہلی دھماکے میں گرفتار ہونے والے بے قصور لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ ہو۔ مذکورہ بالا تشویش کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور عدلیہ کی موجودہ حالت پر امیر قزلباش کا یہ شعر صادق آتا ہے
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا