Jasarat News:
2025-10-04@23:23:47 GMT

لکیریں

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250930-03-8

 

باباالف

کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا

مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے

(ظفر اقبال)

ہاتھوں کی لکیروں سے الجھنے میں، ہاتھ دکھانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوجاتا ہے۔ ایک دست شناس نے کسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ’’اگر آپ کے دادا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ آپ کے والد کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے آپ کے ہاں بھی نہ ہو‘‘۔ ہاتھ دکھانے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دست شناس کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ ہا تھ پھیلانے کے ہنر میں ہمارے حکمرانوں کی مہارت بے مثل ہے اس قدر کہ اب کوچہ سود خوراں میں ان کا سرخ قالین پر استقبال کیا جاتا ہے۔

دست شناسی ایک حیرت انگیز علم اور مہارت ہے۔ ہتھیلی، اس کی لکیریں، اشکال اور کانٹے آپ کی شخصیت کے بارے میں وہ باتیں ظاہر کردیتی ہیں جو گمان میں بھی نہ ہوں۔ دست شناسی صدیوں برس قدیم فن ہے۔ اس کا آغاز بھارت سے ہوا۔ یہاں سے نکل کر یہ ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا میں پھیل گیا۔ چینی باشندوں اور ارسطو نے اس میں خصوصی دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اس فن کی بدولت کئی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔

پاکستان خصوصاً کراچی میں بندر روڈ پر بیٹھے دست شناس اس فن کے امین ہی نہیں الاٹی بھی تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ دندان ساز بھی قطار میں بیٹھے ہوتے تھے۔ اب نہ دست شناس رہے اور نہ وہ دندان ساز۔ اخبار فروشوں کے ٹھیوں پر بھی جو سستی اور عوامی پسند کی کتابیں بکتی تھیں ان میں ’’کیرو کی پا مسٹری‘‘ لازمی ہوتی تھی۔ کسی دست شناس سے ایک مرمریں نازک سے ہاتھ نے سوال کیا۔

ہوش کا کتنا تناسب ہو بتادے مجھ کو

اور اس عشق میں درکار ہے وحشت کتنی

دست شناس نے جواب دیا ’’بیٹا ہوش کا تناسب اور عشق میں درکار وحشت چھوڑو، برتن کم دھویا کرو ایسا نہ ہو ہاتھ سے شادی کی لکیر ہی مٹ جائے‘‘۔ دبئی کے سابق حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کے بارے میں ایک نجومی نے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ میں دولت کی لکیر نہیں ہے۔ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز مرحوم کے ہاتھ میں شہرت کی لکیر نہیں تھی۔ شاہ محمود قریشی جن دنوں وزیر خارجہ تھے ایک نجومی نے بتایا تھاکہ ان کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر نہیں ہے۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ان کا کام ایسا تھا کہ دماغی کام کوئی اور کرتا تھا انہیں صرف منہ بگاڑ کر بولنا ہوتا تھا۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر نہیں ہے۔ مگر عمران خان کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کبھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ شادیاں اور سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ عمل پیہم سے انہوں نے نجومیوں کی بات کو غلط ثابت کردیا اور 2018 کے الیکشن میں سلیکٹ ہوگئے۔ نجومی پھر بھی اپنی بات پر اڑے رہے۔

بہت سے دست شناس ہاتھ کے بجائے چہرے پر لکھی خواہشیں پڑھ کر قسمت کا حال بناتے ہیں۔ ایک دست شناس نے اداکارہ میرا کا ہاتھ دیکھ کر بتایا آپ کو بہت جلد ایک بڑی کاسٹ کی فلم میں لیڈ نگ رول ملنے والا ہے۔ ویسے آپ کس قسم کے رول پسند کرتی ہیں؟ ’’قیمے والے‘‘ اداکارہ میرا نے جواب دیا۔ دست شناس نے ایک لڑکی کا ہاتھ دیکھ کر بتایا ’’مس ناز آپ کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ عنقریب ایک بہت بڑا فلمساز آپ کو دیکھے گا اور اگلے سال تک آپ کی ملک کی نامور اور مہنگی ترین ہیروئن بن جائیں گی‘‘۔ مس ناز نے نجومی کوغصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں ویٹنگ روم میں سن رہی تھی مجھ سے پہلے جو پین دی سری آئی تھی اس کو بھی تم نے یہی بتایا تھا‘‘ نجومی نے بے بسی سے مس نازکو دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا کریں اس سے کم پر کوئی لڑکی راضی ہی نہیں ہوتی‘‘۔

پاکستان نام کے ایک ملک نے بھی اپنا ہاتھ نجومی کو دکھاتے ہوئے پوچھا تھا ’’مجھے اچھے حکمران کب ملیں گے‘‘۔ نجومی نے جواب دیا ’’کئی دہائیوں تک تمہیں برے حکمران ملیں گے‘‘۔ پاکستان نے خوش ہوتے ہوئے کہا ’’تو کیا اس کے بعد مجھے اچھے حکمران مل جائیں گے؟‘‘ نجومی نے جواب دیا ’’نہیں! اس کے بعد تم برے حکمرانوں کے عادی ہو جائوگے‘‘۔

کسی دست شناس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا ’’سات قسم کی عورتوں سے شادی مت کرنا۔۔ انانہ۔۔ منانہ۔۔ کنانہ۔۔ حنانہ۔۔ حداقہ۔۔ براقہ۔۔ اور۔۔ شداقہ‘‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا ’’یہ عورتیں ہیں یا کوہ قاف کے جنات‘‘۔

دست شناس نے تامل سے کہا: ’’انانہ‘‘ سے وہ عورت مراد ہے جو ہر وقت سر پر پٹی باندھے رکھے۔ شکوہ اور شکایت جس کا معمول ہو۔ ’’منانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت شوہر پر احسان جتاتی رہے اور کہے تم سے شادی کرکے تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ’’کنانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت ماضی کی یادوں میں گم رہے۔ فلاں وقت میرے پاس یہ تھا فلاں وقت میرے پاس وہ تھا۔ ’’حنانہ‘‘ ایسی عورت ہوتی ہے جو ہر وقت اپنے سابق خاوند کو یاد کرتی رہتی ہے اور موجودہ بدنصیب کا سابق سے تقابل کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جو بات اُس میں تھی وہ تم میں کہاں‘‘۔ ’’حداقہ‘‘ عورت ہمیشہ شاپنگ کی فرمائش کرتی رہتی ہے۔ ہر وقت شوہر سے کچھ نہ کچھ طلب کرنا اس کا معمول ہوتا ہے۔ ’’براقہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت اپنے بنائو سنگھار میں لگی رہے۔ ’’شداقہ‘‘ تیز زبان اور ہر وقت باتیں بناتی رہتی ہے۔

نوجوان نے دست شناس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ملکوں ملکوں گھوما اور ستر سال کی عمر میں بن شادی کے ہی مرگیا۔

انکشاف ذات ایک ایسامسئلہ ہے جس کے لیے لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کی طرح جنگلوں میں نکل جاتے ہیں۔ توتوں سے فال نکلواتے ہیں، نجومیوں، قیافہ شناسوں اور دست شناسوں کے آگے بیٹھتے ہیں لیکن آئینے سے رجوع نہیں کرتے۔ آپ کی تقدیر آپ ہی کے خدوخال، چہرے کے نشیب وفراز اور شکنوں میں پوشیدہ ہے جسے آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

آج کل کے دست شناس، نجومی اور مستقبل کا حال بتانے والے لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سارے جہاں کا علم ہمارے سینے اور لیپ ٹاپ میں ہے۔ یہ جدید اور نفیس لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گفتگو بھی بڑی مہارت اور سلیقے سے کرتے ہیں جس میں انگریزی الفاظ کا تناسب اور خود پسندانہ جھلک بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے جب کہ ماضی میں ان اصحاب کی ہیئت میں ایک مجنونانہ بے پروائی پائی جاتی تھی۔ نیم استغراقی اور نیم خود فراموشی کا عالم ان پر طاری ہوتا تھا اور بالوں کی صورت حال تو وہ ہوتی تھی کہ استاد ذوق یاد آجائیں:

خط بڑھا، کاکل بڑھے، قلمیں بڑھیں، گیسو بڑھے

حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

 

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی لکیر نہیں ہے جو ہر وقت نے جواب دیا کے ہاتھ میں وہ عورت

پڑھیں:

یہ بربریت آخرکب تک؟

اللہ تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ اگر وہ کسی ملت کو اپنے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کی ذمے داری سونپے، اس کے لیے انھیں تیار کرے، اسے مواقع اور سہولیات بھی فراہم کرے مگر وہ پھر بھی نہ صرف یہ کہ اس میں تساہل سے کام لیں بلکہ اپنی اس تفویض کردہ خدمت کو اپنے لیے اعزاز کے بجائے ایک سزا سمجھ بیٹھے۔

اس سے اعراض کرے اور مسلسل تفویض کردہ فرائض کی خلاف ورزی کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔

جب انسانی تاریخ میں انبیا کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اس وقت جب اللہ کسی قوم سے ناراض ہو جاتا تو ان کی جگہ دوسری قوم کو لاکھڑا کرتا اور یوں ایک ترقی یافتہ اور پسندیدہ قوم، ناپسند ہو کر عذاب کی مستحق ہو جاتی تھی اور اس لیے اس پر عذاب الٰہی مسلط کیا جاتا تھا۔ 

کبھی طوفانی ہواؤں کے ذریعے، کبھی نہ رکنے والی بارش کی شکل میں، کبھی پتھروں کی بارش کرکے اور کبھی ان کی زمین کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا جاتا تھا۔

مگر اب عذاب کی شکل مختلف نظر آتی ہے، اب نہ زلزلوں کے ذریعے، نہ دھماکوں اور چیخ کے ذریعے، نہ زمین سے اگلنے والے پانی کے ذریعے قوم پر عذاب مسلط نہیں کیا جاتا، اب اگر کوئی قوم بدکردار ہو جائے اور اس کی سلامت روی کا کوئی امکان باقی نہ رہے تو پھر اس قوم کو اس کی ہم عصر، کمزور اور بے طاقت قوم کے آگے اس طرح ڈال دیا جاتا ہے کہ ایک ناتواں طاقت سے کہہ دیا جاتا ہے کہ لو اسے نوچ نوچ کر کھا لو۔

غزہ ملت اسلامیہ کا ایک ہی ایک عضو ہے اور ملت اسلامیہ کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے مگر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اہل غزہ کو ملت اسلامیہ کے من حیثیت القوم بدعہدی اور اپنے منصب کی خلاف ورزی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ اہل غزہ کو سزا نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کو سزا ہے۔

 اسرائیل جسے اپنے وقت کے فرعونوں کی حمایت حاصل ہے، اس طرح غزہ پر ٹوٹ پڑا ہے جیسے گدھ کسی مردار جانور پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ غزہ اور اسرائیل کے ارد گرد تقریباً 57 مسلم ممالک موجود ہیں مگر اہل غزہ پر ہونے والے مظالم پر کسی ایک مسلم ملک کی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔

غزہ میں روزانہ کے حساب سے مرنے، زخمی ہونے والے لوگوں کی تعداد اس طرح بیان کی جاتی ہے جیسے کرکٹ کے میچ میں کسی ماہر بلے باز کے چھکے اور چوکوں کی تعداد فخریہ پیش کی جاتی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے سرپرست امریکا نے جو اپنا جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس 48 گھنٹوں کے اندر اندر اپنے آپ کو غیر مسلح کر دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر امریکا کی طرف سے اسرائیل کو آزادی ہوگی وہ اہل غزہ سے جو سلوک چاہے کرے۔

ایسے بے رحمانہ انداز گفتگو کے بعد بھی امریکا بہادر کو امن کا علم بردار قرار دے کر اسے امن کے نوبل پرائز کے لیے امیدوار قرار دینا ملت اسلامیہ کی کمزوری کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب متعدد ممالک کے نمایندوں پر مشتمل اہل غزہ کے لیے غذائی اجناس، ادویہ اور طبی آلات لے کر جانے والا جہاز غزہ کے پانیوں میں داخل تو ہو گیا ہے مگر اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس جہاز پر اسرائیلی جنگی بحری جہازوں نے قبضہ کر لیا ہے اور اس پر موجودہ 500 افراد میں سے دو سو کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔

اور خبر ہے کہ اسرائیل ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے اس اعلیٰ منصب پر فائز ہو گیا ہے کہ اس نے اس جہاز میں موجود امدادی سامان پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا ہے کہ اب یہ سامان اسرائیل اہل غزہ کو پہنچائے گا۔

اہل غزہ کے توسط سے ملت اسلامیہ پر یہ احسان اسرائیل کیوں فرمائے گا جب کہ غزہ کے لوگ ساحل پر کھڑے اس امداد کے منتظر ہیں، انھیں اس امداد سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور اس پر بھی دعویٰ یہ ہے کہ انسانیت کا دشمن اپنے سرپرستوں کی نگرانی میں ان کے منہ سے نوالے اور ان زخمیوں سے دوائیں بھی چھین چکے ہیں۔

امدادی سامان لے کر جانے والا یہ بحری جہاز ان اقوام اور افراد پر مشتمل ہے جن کی اکثریت مسلمان نہیں ہے، مگر اسرائیل کو غزہ کے ان زخم خوردگان کی مرہم پٹی، علاج معالجے اور بھوک پیاس سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کو اس نہج پر خود اسرائیل ہی نے تو پہنچایا ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی یہودیوں کی نسل کشی کا بڑا چرچا کیا جاتا ہے مگر اس ’’دور مہذب‘‘ میں غزہ کے مسلمانوں پر جس نوعیت کے مظالم توڑے جا رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے ہٹلر کے مظالم کی کوئی وقعت ہی نہیں رہتی۔

غزہ کے لیے امداد کے لیے جانے والا یہ بحری جہاز مسلمان یا ملت اسلامیہ کا نمایندہ نہیں ہے۔ اس میں یورپی، افریقی اور ایشیائی غیر مسلموں کی بڑی تعداد شامل ہے مگر اسرائیل کو ان کی کاوشوں پر بھی شرم نہیں ہے اور وہ بے شرمی اور دیدہ دلیری سے بین الاقوامی دہشت گردی میں مصروف ہے اور یہ سب کچھ اسرائیل کے بس کی بات نہ تھی یہ اس کے سرپرستوں کی سرپرستی کی برکات ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • یہ بربریت آخرکب تک؟
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس
  • ویمنز ورلڈکپ: بی سی سی آئی نے پاک بھارت کھلاڑیوں کے مصافحے سے راہِ فرار اختیار کرلی
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے متعلق بی سی سی آئی کا موقف سامنے آگیا
  • بھارتی میڈیا جھوٹا، معافی مانگی نہ مانگوں گا، محسن نقوی: کوئی گارنٹی نہیں خواتین کھلاڑی ہاتھ ملائیں، سیکرٹری بھارتی بورڈ