Express News:
2025-10-04@17:00:50 GMT

معاملات زندگی

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

بات ہے تو پرانی۔لیکن اس پرانی سال خوردہ بوڑھی دنیا میں کوئی بات نئی ہوتی بھی نہیں

صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

کچھ لوگ اس میں فلسفہ ڈال کر اور بگھاڑ ڈال دیتے ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور یہ بات قطعی سچ ہے۔بلکہ صحیح بھی ہے آپ ایوب خان کے زمانے کا پھر بھٹو کے زمانے کا پھر ضیاء الحق کے زمانے کا پھر مشرف کے زمانے کا ایک ایک اخبار اٹھائیے اور سامنے رکھ کر تازہ ترین اخبار سے موازنہ کیجیے۔

صرف نام تاریخ اور کاغذ بدلے ہوں گے اعلانات بیانات خوش خبریاں وہی ہوں گی سب کے ساتھ گا،گے۔گی۔ممتازلیڈر وزیر مشیر اور معاون کا ایک بڑا سا’’چھاج‘‘ بھی ہوگا۔اس موقع پر لازماً حمزہ شنواری کاایک شعر یاد آجاتا ہے کہ

تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ

نو سہ نوے خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑو کے

ترجمہ۔تم نے آج یہ جو حمزہ کو وعدے پر وعدہ دیا۔ تو کیا نئی بات پیدا کی پرانی بات میں؟۔معذرت چاہتا ہوں یہاں میں نے تھوڑی سی ڈنڈی ماری ہے کیا کروں پاکستانی ہوں نا۔ڈنڈی یہ ماری ہے کہ میں نے اس نئے دور نئی تبدیلی نئے پاکستان کو بھی۔جو حضرت بانی نے اپنے زبردست’’وژن‘‘ سے بنایا ہے کو بھی پرانے پاکستان کے ساتھ ملا دیا ہے حالانکہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔

پرانے پاکستان میں گا۔گے۔ گی۔ کا سلسلہ تھا لیکن نئے پاکستان یا بانی کے وژن والے پاکستان میں۔پہلے بلکہ ’’ہے ہے‘‘ کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ وہ جو پرانے پاکستان میں’’گا‘‘ تھا نئے پاکستان میں ’’ہے‘‘ ہوچکا ہے یعنی قافلہ فردوس گم گشتہ پہنچ چکا ہے۔خیر لیکن ہم پرانے ہیں تو پرانی بات بھی کریں گے اسی طرح جس طرح آج سیلاب نے ’’خانہ انوری‘‘ کا پتہ پوچھا بلکہ اس پتے پر پہنچ چکا ہے

ہر بلا ہے کہ زا اسمان بود

خانہ انوری تلاش کنند

ترجمہ یعنی آسمان سے جو بھی’’ بلا‘‘ آتی ہے انوری کا پتہ پوچھتی اور اس کا گھر تلاش کرتی ہے اسی طرح ایک مرتبہ بنوں کے ایک علاقے میں شدید ژالہ باری ہوئی اور اولوں نے تمام فصلیں ’’کوف ماکول‘‘ کر دیں تو اس علاقے کا ایک وفد اپنی فریاد لے کر ڈی سی بنوں کے پاس آیا ہم بھی صحافت کی دنیا میں نئے نئے یعنی ’’تازہ واردان بساط ہوائے دل‘‘ تھے اس لیے ساتھ ہولیے۔وفد اور ڈی سی کے درمیان معمول کی باتیں ہوگئیں۔وفد نے فریاد کی، ڈی سی صاحب نے وعدے وعید کیے۔

اختتام پر ڈی سی صاحب نے کہا سرکاری باتیں تو ہوگئیں ،اب میں آپ لوگوں سے ایک ذاتی بات کرنا چاہتا ہوں وفد کھڑے کھڑے ہمہ تن گوش ہوگیا تو ڈی سی صاحب نے کہا ’’زکوۃ دیا کرو‘‘۔ اس ڈی سی کا نام عبدالرزاق عباسی تھا اور اس کی یہ بات مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد ہوگئی ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں اسلام کے پانچ بنیادی اصولوں میں سے واحد اقتصادی ’’رکن‘‘ کے بارے میں بات کرتا رہتا ہوں کیونکہ میرا عقیدہ ہے کہ اگر مسلمان صرف ایک رکن پر عمل پیرا ہوجائیں باقی چار ارکان کا تعلق عبادات اور حقوق اللہ سے ہے اور اس واحد رکن کا تعلق معاملات یعنی حقوق العباد سے ہے۔تو معاشرہ اگر جنت نہیں تو ایک ہموار معاشرہ بن سکتا ہے اور اگر معاشرہ ہموار ہو تو اس میں کوئی جرم کوئی ظلم اور کوئی استحصال پیدا نہیں ہوتا کہ ساری برائیاں ، ناانصافیاں اور بے قاعدگیاں ناہموار معاشرے میں پیدا ہوتی ہیں۔لیکن پاکستان میں اس وقت جو اسلام رائج ہے۔

اسے ہم ایک ہاتھی قرار دے سکتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ الگ ہوتے ہیں۔جو جو عبادتیں’’دکھائی‘‘ جاسکتی ہیں ان پر تو بے پناہ زور ہے لیکن جو دکھائی نہیں جاسکتیں وہ مکمل طورپر نظرانداز کی گئی ہے ان ہی میں سیزکوۃ بھی ہے جو اگر صحیح طریقے پر ادا کی جائے تو صرف دینے اور لینے والے کو پتہ ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ تو’’موحد‘‘ بھی بڑے ہیں اس لیے اسے بھی ممکن حد تک دکھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ حکومت نے نہایت ہی ہنرمندی سے اس کے لیے جو نظام بنایا ہے، وہ یوں ہے جیسے گندگی کو پیشاب سے دھویا جائے۔

ہمارے علاقے میں ایک حاجی صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ زکوۃ کی رقم کو پوٹلی میں باندھ کر ایک ٹوکری میں رکھ دیتے تھے پھر اس کے اوپر دو چار سیر اناج ڈال دیتے تھے پھر کسی راہگیر فقیر یا بھکاری کو پکڑ کر لاتے، اناج کی وہ ٹوکری اسے دے کر کہتے، یہ زکوۃ ہے قبول کرلیجیے۔وہ قبول کرلیتا تو پھر کہتے تم اناج کہاں لیے پھروگے میں ہی خرید لیتا ہوں ، بتاو کتنے پیسے دوں اس اناج کے۔بھکاری غلے کو دیکھ کر اندازے سے کوئی رقم بتاتا یا حاجی صاحب ہی اسے بازار کا نرخ اور اناج کا وزن سمجھا کر رقم دے دیتا اور گھر لے جا کر رقم کی پوٹلی نکال کر اپنے حق حلال کی دولت میں شامل کردیتا ۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے پشاور کی ایک بڑی بلڈنگ کا مالک زکوۃ یوں تقسیم کرتا تھا کہ پہلے شہر میں اعلان ہوتا کہ فلاں صاحب فلاں تاریخ کو زکوۃ تقسیم کریں گے۔ اس دن وہ ایک کھڑکی میں بیٹھ کر بیس بیس یا دس دس روپے تقسیم کرتے تھے اور کھڑکی کے سامنے قطار سڑک تک دراز ہوتی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں کے زمانے کا

پڑھیں:

آئی فون کے شوق میں گردہ بیچنے والا نوجوان زندگی بھر کی مشکل میں مبتلا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ: چین کے صوبے اینہوئی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے آئی فون خریدنے کے لیے 17 برس کی عمر میں اپنا گردہ بیچ دیا تھا، لیکن اب وہ اپنی اس ایک لمحے کی خواہش کی بھاری قیمت تاحیات معذوری کی صورت میں چکا رہا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق وانگ شینگکون نے 2011 میں آئی فون 4 خریدنے کی خواہش ظاہر کی، مگر غربت آڑے آگئی۔ اُس وقت آئی فون کو دولت اور اسٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ خواب پورا کرنے کے جنون میں وانگ نے آن لائن پوسٹس پڑھ کر ایک غیرقانونی سرجری کے ذریعے اپنا گردہ بیچنے کا فیصلہ کیا۔ اس ’’سودے‘‘ کے بدلے اسے 20 ہزار یوآن ملے جن سے اُس نے آئی فون 4 اور آئی پیڈ 2 خرید لیا۔

تاہم خوشی کے چند لمحے جلد ہی خوفناک انجام میں بدل گئے۔ گردہ نکالنے کے بعد ہونے والے انفیکشن نے اس کی صحت کو شدید متاثر کیا، حتیٰ کہ دوسرا گردہ بھی کمزور پڑ گیا۔ رپورٹ کے مطابق اُس کی والدہ اُس وقت چونک گئیں جب بیٹے کے ہاتھ میں مہنگا فون دیکھا اور اصل حقیقت جاننے پر دکھی ہو گئیں۔ دوسری جانب ڈاکٹروں نے وانگ کی بگڑتی حالت کے باعث انہیں تاحیات معذور قرار دے دیا۔

بعدازاں حکام نے غیرقانونی آپریشن کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا اور وانگ کو 1.48 ملین یوآن معاوضہ دیا گیا۔ لیکن اس معاوضے کے باوجود اُن کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں۔ آج 14 برس بعد اُن کے واحد گردے کی کارکردگی محض 25 فیصد رہ گئی ہے اور باقی زندگی انہیں ڈائیلیسز پر گزارنی ہوگی۔

وانگ شینگکون اب اپنے ماضی پر شدید پشیمان ہیں اور اسے زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنی پڑی تو کر دیں گے، ہمیں کوئی فکر نہیں، ہر وقت جواب دینے کیلیے تیار رہتے ہیں: سیکیورٹی ذرائع
  • سعودی پاک دفاعی معاہدہ اسٹریٹیجک، معیشت اور خوشحالی کا احاطہ کرتا ہے، سیکیورٹی حکام
  • ’بھارت کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے‘، آزاد کشمیر میں ہڑتال ختم ہونے کے بعد معمولات زندگی بحال ہونا شروع
  • پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ ہی ایسی کوئی بات ہے، ایاز صادق
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • آئی فون کے شوق میں گردہ بیچنے والا نوجوان زندگی بھر کی مشکل میں مبتلا
  • آزاد کشمیر میں مذاکراتی عمل تیز، زندگی معمول کی طرف لوٹ آئی
  • ملک میں واٹس ایپ سست چلنے کی وجہ جانتے ہیں؟
  • پاکستان میں دیہات کی زندگی شہروں سے زیادہ مہنگی ہوگئی
  • بھارتی میڈیا جھوٹا، معافی مانگی نہ مانگوں گا، محسن نقوی: کوئی گارنٹی نہیں خواتین کھلاڑی ہاتھ ملائیں، سیکرٹری بھارتی بورڈ