بات ہے تو پرانی۔لیکن اس پرانی سال خوردہ بوڑھی دنیا میں کوئی بات نئی ہوتی بھی نہیں
صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
کچھ لوگ اس میں فلسفہ ڈال کر اور بگھاڑ ڈال دیتے ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور یہ بات قطعی سچ ہے۔بلکہ صحیح بھی ہے آپ ایوب خان کے زمانے کا پھر بھٹو کے زمانے کا پھر ضیاء الحق کے زمانے کا پھر مشرف کے زمانے کا ایک ایک اخبار اٹھائیے اور سامنے رکھ کر تازہ ترین اخبار سے موازنہ کیجیے۔
صرف نام تاریخ اور کاغذ بدلے ہوں گے اعلانات بیانات خوش خبریاں وہی ہوں گی سب کے ساتھ گا،گے۔گی۔ممتازلیڈر وزیر مشیر اور معاون کا ایک بڑا سا’’چھاج‘‘ بھی ہوگا۔اس موقع پر لازماً حمزہ شنواری کاایک شعر یاد آجاتا ہے کہ
تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ
نو سہ نوے خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑو کے
ترجمہ۔تم نے آج یہ جو حمزہ کو وعدے پر وعدہ دیا۔ تو کیا نئی بات پیدا کی پرانی بات میں؟۔معذرت چاہتا ہوں یہاں میں نے تھوڑی سی ڈنڈی ماری ہے کیا کروں پاکستانی ہوں نا۔ڈنڈی یہ ماری ہے کہ میں نے اس نئے دور نئی تبدیلی نئے پاکستان کو بھی۔جو حضرت بانی نے اپنے زبردست’’وژن‘‘ سے بنایا ہے کو بھی پرانے پاکستان کے ساتھ ملا دیا ہے حالانکہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
پرانے پاکستان میں گا۔گے۔ گی۔ کا سلسلہ تھا لیکن نئے پاکستان یا بانی کے وژن والے پاکستان میں۔پہلے بلکہ ’’ہے ہے‘‘ کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ وہ جو پرانے پاکستان میں’’گا‘‘ تھا نئے پاکستان میں ’’ہے‘‘ ہوچکا ہے یعنی قافلہ فردوس گم گشتہ پہنچ چکا ہے۔خیر لیکن ہم پرانے ہیں تو پرانی بات بھی کریں گے اسی طرح جس طرح آج سیلاب نے ’’خانہ انوری‘‘ کا پتہ پوچھا بلکہ اس پتے پر پہنچ چکا ہے
ہر بلا ہے کہ زا اسمان بود
خانہ انوری تلاش کنند
ترجمہ یعنی آسمان سے جو بھی’’ بلا‘‘ آتی ہے انوری کا پتہ پوچھتی اور اس کا گھر تلاش کرتی ہے اسی طرح ایک مرتبہ بنوں کے ایک علاقے میں شدید ژالہ باری ہوئی اور اولوں نے تمام فصلیں ’’کوف ماکول‘‘ کر دیں تو اس علاقے کا ایک وفد اپنی فریاد لے کر ڈی سی بنوں کے پاس آیا ہم بھی صحافت کی دنیا میں نئے نئے یعنی ’’تازہ واردان بساط ہوائے دل‘‘ تھے اس لیے ساتھ ہولیے۔وفد اور ڈی سی کے درمیان معمول کی باتیں ہوگئیں۔وفد نے فریاد کی، ڈی سی صاحب نے وعدے وعید کیے۔
اختتام پر ڈی سی صاحب نے کہا سرکاری باتیں تو ہوگئیں ،اب میں آپ لوگوں سے ایک ذاتی بات کرنا چاہتا ہوں وفد کھڑے کھڑے ہمہ تن گوش ہوگیا تو ڈی سی صاحب نے کہا ’’زکوۃ دیا کرو‘‘۔ اس ڈی سی کا نام عبدالرزاق عباسی تھا اور اس کی یہ بات مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد ہوگئی ۔اور یہی وجہ ہے کہ میں اسلام کے پانچ بنیادی اصولوں میں سے واحد اقتصادی ’’رکن‘‘ کے بارے میں بات کرتا رہتا ہوں کیونکہ میرا عقیدہ ہے کہ اگر مسلمان صرف ایک رکن پر عمل پیرا ہوجائیں باقی چار ارکان کا تعلق عبادات اور حقوق اللہ سے ہے اور اس واحد رکن کا تعلق معاملات یعنی حقوق العباد سے ہے۔تو معاشرہ اگر جنت نہیں تو ایک ہموار معاشرہ بن سکتا ہے اور اگر معاشرہ ہموار ہو تو اس میں کوئی جرم کوئی ظلم اور کوئی استحصال پیدا نہیں ہوتا کہ ساری برائیاں ، ناانصافیاں اور بے قاعدگیاں ناہموار معاشرے میں پیدا ہوتی ہیں۔لیکن پاکستان میں اس وقت جو اسلام رائج ہے۔
اسے ہم ایک ہاتھی قرار دے سکتے ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ الگ ہوتے ہیں۔جو جو عبادتیں’’دکھائی‘‘ جاسکتی ہیں ان پر تو بے پناہ زور ہے لیکن جو دکھائی نہیں جاسکتیں وہ مکمل طورپر نظرانداز کی گئی ہے ان ہی میں سیزکوۃ بھی ہے جو اگر صحیح طریقے پر ادا کی جائے تو صرف دینے اور لینے والے کو پتہ ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ تو’’موحد‘‘ بھی بڑے ہیں اس لیے اسے بھی ممکن حد تک دکھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ حکومت نے نہایت ہی ہنرمندی سے اس کے لیے جو نظام بنایا ہے، وہ یوں ہے جیسے گندگی کو پیشاب سے دھویا جائے۔
ہمارے علاقے میں ایک حاجی صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ زکوۃ کی رقم کو پوٹلی میں باندھ کر ایک ٹوکری میں رکھ دیتے تھے پھر اس کے اوپر دو چار سیر اناج ڈال دیتے تھے پھر کسی راہگیر فقیر یا بھکاری کو پکڑ کر لاتے، اناج کی وہ ٹوکری اسے دے کر کہتے، یہ زکوۃ ہے قبول کرلیجیے۔وہ قبول کرلیتا تو پھر کہتے تم اناج کہاں لیے پھروگے میں ہی خرید لیتا ہوں ، بتاو کتنے پیسے دوں اس اناج کے۔بھکاری غلے کو دیکھ کر اندازے سے کوئی رقم بتاتا یا حاجی صاحب ہی اسے بازار کا نرخ اور اناج کا وزن سمجھا کر رقم دے دیتا اور گھر لے جا کر رقم کی پوٹلی نکال کر اپنے حق حلال کی دولت میں شامل کردیتا ۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے پشاور کی ایک بڑی بلڈنگ کا مالک زکوۃ یوں تقسیم کرتا تھا کہ پہلے شہر میں اعلان ہوتا کہ فلاں صاحب فلاں تاریخ کو زکوۃ تقسیم کریں گے۔ اس دن وہ ایک کھڑکی میں بیٹھ کر بیس بیس یا دس دس روپے تقسیم کرتے تھے اور کھڑکی کے سامنے قطار سڑک تک دراز ہوتی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کے زمانے کا
پڑھیں:
تحریک تحفظ آئین پاکستان کا 27ویں ترمیم کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان
اسلام آباد:تحریک تحفظ آئین پاکستان نے جمعہ 21 نومبر کو 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔
سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جمعہ کو پورے پاکستان میں یومِ سیاہ منایا جائے گا، جمعہ کی نماز میں ہم سب اس ترمیم کی مذمت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا قانون ہر اس چیز کی مخالفت کرتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو اور 27ویں ترمیم نے قانون کو غیر مؤثر کر دیا۔
محمود اچکزئی نے بتایا کہ ہم ایک بڑی اپوزیشن اتحاد کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوں گے، بدتمیزی نہیں ہوگی اور پر امن احتجاج ہوگا۔
اس موقع پر علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ آج ہم نے پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ تک واک کی، پاکستان میں عوام کے لیے انصاف کے تمام راستے بند ہوگئے، اب ظلم کا راستہ ہمارے سسٹم میں کوئی نہیں روک سکتا۔
انہوں نے کہا کہ متفقہ آئین کو متنازع آئین بنا دیا گیا، پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہو رہا ہے، آئین کی روح کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ اب یہ اسرئیل کو تسلیم کرلیں تو انہیں کون پوچھے گا؟ ہم پوچھیں گے اور پاکستان کی عوام پوچھے گی، جب تک زندہ ہیں ہم چپ نہیں رہیں گے۔
علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ آنے والا جمعہ پورے ملک میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا، ہر کوئی جمعہ کو سیاہ پٹیاں باندھے گا، قومی کانفرنس بھی بلائی جا رہی ہے۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ پیٹرول میں 100 روپے ٹیکس دیا جا رہا ہے، اس وقت لوگ گندہ پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہیں، ڈھائی لاکھ روپے ہر پاکستانی مقروض ہے لیکن ان کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی، صرف اشرافیہ کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسے دستور کو نہیں مانتے نہیں جانتے، 27 ویں آئینی ترمیم بنیادی حقوق پر ڈرون حملہ ہے، استثنا غیر قانونی ہے، پاکستانی عوام اس کو مسترد کرتی ہے۔ ہم اس کی جنگ جاری رکھیں گے۔
مشتاق خان نے کہا کہ پاکستان کے مشیر سیاحت اسرائیل کے مشیر سے ملتے ہیں، امریکی دباؤ پر ٹرمپ کے منصوبے کو ووٹ دیا، یہ فلسطین کا سودا ہے، یہ مسجد اقصیٰ کا سودا ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں۔