پاکستان میں بجلی صارفین پر گردشی قرضے کا بوجھ: حکومت کا لائحہ عمل کتنا مؤثر ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
پاکستان میں توانائی کے شعبے کا سب سے بڑا بحران گردشی قرضہ ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گردشی قرضے کے خاتمے کی اسکیم کا آغاز، وزیر اعظم شہباز شریف کی نیویارک سے ورچوئل شرکت
ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات بجلی کمپنیوں کی نااہلی، بجلی چوری، کم ریکوری اور حکومتی پالیسیوں کی کمزوریاں ہیں جس کے نتیجے میں ایمانداری سے اور بروقت بل ادا کرنے والے صارفین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
لیکن حکومت کی جانب سے گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے بینکوں سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ وہ معاہدہ کیا ہے اور کتنا موثر ثابت ہوگا آئیے جانتے ہیں۔
حکومت اور بینکوں کا معاہدہحکومت ن گردشی قرضے کا دباؤ کم کرنے کے لیے مقامی بینکوں کے ساتھ 1.
اس رقم میں سے 659 ارب روپے پاور ہولڈنگ لمیٹڈ (پی ایچ ایل) کے پرانے قرضے اتارنے پر خرچ ہوں گے جبکہ باقی رقم آئی پی پیز اور دیگر واجبات کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگی۔
مزید پڑھیے: پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2300 ارب روپے، اسمارٹ میٹرنگ کی طرف آنا ہوگا، وزیراعظم شہباز شریف
یہ قرض 4 سے 6 سال میں واپس کیا جائے گا اور اس کی ادائیگی بجلی کے بلوں پر موجود ڈیٹ سروس سرچارج (ڈی ایس ایس) کے ذریعے کی جائے گی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ صارفین پر نیا بوجھ نہیں ڈالا جا رہا البتہ موجودہ سرچارج 3.23 روپے فی یونٹ مزید 6 سال تک برقرار رہے گا۔حکومتی مؤقف یہ بھی ہے کہ یہ قرض رعایتی شرائط پر لیا گیا ہے تاکہ سود کی ادائیگی کا دباؤ کم ہو۔
معاشی ماہر خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ بجلی کمپنیوں کی نااہلی سے پیدا ہونے والے نقصانات یعنی ٹیکنیکل لوسز، بجلی چوری اور کم ریکوری ہی گردشی قرضے کی جڑ ہیں۔
خلیق کیانی نے کہا کہ حکومت اور بینکوں کے حالیہ معاہدے سے عوام کو براہِ راست کوئی ریلیف نہیں ملے گا بلکہ اس کی قیمت صارفین کو 3.23 روپے فی یونٹ اضافی سرچارج کی صورت میں آئندہ 6 سال تک ادا کرنی ہوگی۔
ملک میں 30 تا 40 فیصد بجلی چوری ہوجاتی ہے، راجہ کامرانتوانائی امور کے ماہر راجہ کامران نے بتایا کہ پاکستان میں حکومت بجلی کی واحد خریدار ہے۔ یہ تمام نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) سے بجلی خرید کر سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ذریعے وصول کرتی ہے۔ اس کے بعد بجلی این ٹی ڈی سی کے ذریعے ڈسکوز اور کے الیکٹرک تک پہنچتی ہے جہاں سے یہ صارفین کو فراہم کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی بجلی بلوں میں ریلیف کی منظوری، کون سے صارفین کو کتنا فائدہ ہو گا؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پورے ملک میں یکساں ٹیرف پالیسی نافذ کر رکھی ہے جس کے تحت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں صارف ایک ہی نرخ پر بجلی لیتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب کسی شہر یا علاقے میں بجلی چوری ہوتی ہے یا بل ادا نہیں کیے جاتے تو پورے نظام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔راجہ کامران کے مطابق ملک میں 30 سے 40 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بجلی سسٹم سے نکل تو جاتی ہے مگر اس کی بلنگ نہیں ہوتی
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح 10 سے 15 فیصد صارفین ایسے ہیں جو مہنگی بجلی کے باعث بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 100 روپے کی بجلی فراہم کی جائے تو صرف 60 روپے واپس ملتے ہیں جبکہ باقی 40 روپے گردشی قرضے میں بدل جاتے ہیں۔
راجہ کامران کا کہنا ہے کہ جب ڈسکوز ریکوری مکمل نہیں کر پاتیں تو وہ سی پی پی اے کو رقم نہیں دیتیں اور یوں سی پی پی اے آئی پی پیز کو ادائیگی نہیں کر پاتا۔
یہ بھی پڑھیے: وفاقی حکومت کی بڑی کامیابی: 2 ہزار 600 ارب روپے کے قرضے مقررہ وقت سے پہلے ادا
انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کی عدم ادائیگی سے ان کے سپلائرز اور ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں اور پورا نظام قرض کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
راجہ کامران نے واضح کیا کہ ڈسکوز کی ناقص مینجمنٹ اور بجلی چوری روکنے میں ناکامی گردشی قرض کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بجلی کی قیمت بار بار بڑھانی پڑتی ہے۔
معاہدہ وقتی سہارا ہے مسئلے کا مستقل حل نہیں، ماہرینماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کا حالیہ معاہدہ وقتی سہارا تو ہے مگر مستقل حل نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ قرض کو آگے منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس سے فوری ڈیفالٹ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے مگر بجلی چوری، ناقص ریکوری اور کمزور قانون سازی جیسے بنیادی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اقتصادی جائزہ مذاکرات؛ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور گردشی قرض کے خاتمے پر زور
ماہرین کا کہنا ہے کہ گردشی قرض سے حقیقی طور پر جان چھڑانے کے لیے بجلی چوری کو جرم قرار دینا، بلوں کی وصولی کو یقینی بنانا اور ڈسکوز کی مینجمنٹ کو درست کرنا ناگزیر ہے بصورت دیگر یہ بحران بار بار ابھرتا رہے گا اور اس کا بوجھ صرف ایماندار صارفین پر ڈالا جاتا رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی پی پیز بجلی بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے خلیق کیانی راجہ کامران گردشی قرضے اور بجلی صارفینذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی پی پیز بجلی بجلی کے شعبے کے گردشی قرضے خلیق کیانی راجہ کامران گردشی قرضے اور بجلی صارفین کا کہنا ہے کہ راجہ کامران خلیق کیانی آئی پی پیز بجلی چوری کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
میٹا نے پاکستان میں انسٹاگرام روڈ میپ لانچ کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام کی ملکیت رکھنے والی کمپنی میٹا نے پاکستان میں انسٹاگرام میپ کے اجرا کا اعلان کر دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ فیچر صارفین کو نہ صرف نیا اور دلچسپ مواد دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں دوستوں اور پسندیدہ تخلیق کاروں سے جڑے رہنے کا بھی ایک نیا اور انٹرایکٹو طریقہ پیش کرتا ہے، جبکہ اس میں مضبوط پرائیویسی کنٹرولز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
کمپنی کے مطابق انسٹاگرام میپ کا یہ نیا فیچر صارفین کے ڈی ایم ان باکس کے اوپر براہِ راست دستیاب ہوگا۔ اس کے ذریعے پاکستانی صارفین اپنی لوکیشن شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ کہانیاں، ریلز، پوسٹس اور نوٹسز کو لوکیشن ٹیگز کے ذریعے ایکسپلور کر سکیں گے۔ اس طرح صارفین با آسانی جان سکیں گے کہ ان کے دوست یا مشہور کریئیٹرز مقامی کیفے، کنسرٹس یا دیگر مقامات سے کیا شیئر کر رہے ہیں۔
انسٹاگرام نے صارفین کے لیے یہ سہولت بھی رکھی ہے کہ وہ اپنی آخری فعال لوکیشن کے حوالے سے مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو یہ معلومات صرف منتخب افراد، قریبی دوستوں کے ساتھ شیئر کریں یا کسی کے ساتھ بھی شیئر نہ کریں۔
پرائیویسی کے اسی تصور کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پلیٹ فارم پر موجود نوعمر صارفین کے والدین کو بھی یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شیئرنگ ترجیحات دیکھ سکیں اور انہیں منظم بھی کر سکیں۔
میٹا نے انسٹاگرام میپ میں متعدد تکنیکی بہتریاں بھی کی ہیں، جن میں نقشے پر پروفائل فوٹوز کو ہٹانا، لوکیشن بند ہونے کی صورت میں واضح نشاندہی فراہم کرنا اور ٹیگ شدہ مواد کے ظاہر ہونے سے قبل اس کی پیشگی جھلک دکھانے جیسے فیچرز شامل ہیں۔
انسٹاگرام کے اس نئے فیچر کو صارفین کے لیے ایک ایسا ٹول قرار دیا جا رہا ہے جو نہ صرف مواد تک رسائی کو مزید آسان بنائے گا بلکہ سوشل میڈیا پر صارفین کے روابط اور تجربات کو بھی مزید ذاتی اور محفوظ بنا دے گا۔
ویب ڈیسک
دانیال عدنان