Jasarat News:
2025-10-04@16:51:17 GMT

بغاوتِ ضمیر اور احتجاجِ انسانیت

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250930-03-4

 

مسعود محبوب خان

’’بمباری بند کرو! بمباری بند کرو!!‘‘ یہ الفاظ محض ایک ہجوم کا احتجاج نہیں بلکہ انسانیت کی اجتماعی روح کی پکار ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو کسی ایک قوم، نسل یا خطے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کے دلوں میں گونجتی ہے۔ یہ وہی پکار ہے جو کبھی ویتنام کے گھنے جنگلوں میں زخمی درختوں اور اجڑی بستیوں سے بلند ہوئی تھی۔ یہ وہی صدا ہے جو عراق کی مٹی سے اٹھتی تھی جب معصوم بچّے ’’تباہی کے ہتھیار‘‘ کے جھوٹے بہانے پر قربان کیے جا رہے تھے۔ یہ وہی نوحہ ہے جو افغانستان کے پہاڑوں سے بلند ہوا جب انسانیت کو دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلا گیا۔ اور آج یہ پکار غزہ کی تنگ گلیوں سے، شہید بچّوں کے خون آلود کھلونوں سے، اور بے کس ماں کے سینے سے اٹھنے والی آہوں سے دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہ احتجاج ایک اجتماعی ضمیر کی بازگشت ہے جو ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا خود ظلم کا حصہ بن جانا ہے۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بار بار یہ سچائی سکھاتے ہیں کہ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے، مگر اس کی جڑوں میں کھوکھلا پن ہوتا ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر قائم نظام بظاہر مضبوط دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ریت کے گھروندے ہوتے ہیں جنہیں ایک چھوٹی سی لہر بھی بہا لے جاتی ہے۔

فرعون کے محلات بھی ظلم و غرور کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ دریائے نیل کے کنارے اپنی طاقت کے مظاہرے کرتا اور خود کو ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کہتا، لیکن ایک دن وہی دریا اس کی بغاوت کو نگل گیا۔ نمرود کے ایوان بھی آسمان کو چھونے کی آرزو میں تھے، مگر ایک حقیر مچھر نے اس کی طاقت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ رومیوں اور تاتاریوں کی شان و شوکت بھی ظلم کے بوجھ تلے ڈھیر ہو گئی۔ آج اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے لیے بھی یہی سبق ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی، ایٹمی ہتھیار اور سیاسی لابی ان کے اقتدار کو دائمی بنا دیں گے، لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ظلم کی عمر تاریخ کے کسی بھی دور میں طویل نہیں رہی۔

ظلم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اس کا انجام ایک دن زوال ہے۔ جب کہ حق اور انصاف کی کرنیں، چاہے کمزور ہی کیوں نہ لگیں، ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ فلسطینی بچّوں کے ننھے ننھے ہاتھ جو آسمان کی طرف اٹھتے ہیں، وہ محض دعا نہیں بلکہ انسانیت کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ اور یہ ضمانت تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ ظلم مٹ جائے گا اور انصاف باقی رہے گا۔ یہ لمحہ صرف فلسطین یا غزہ کا لمحہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا امتحان ہے۔ یہ پکار ’’بمباری بند کرو!‘‘ ایک عہد ہے جو انسانیت کو یاد دلاتا ہے کہ ظلم کی طاقت وقتی ہے اور انصاف کی روشنی دائمی۔ آج اگر دنیا نے اس صدا کو نہ سنا تو کل تاریخ اپنے فیصلے صادر کر دے گی، اور اس فیصلے میں ظالموں کے ساتھ ساتھ خاموش رہنے والے بھی مجرم شمار ہوں گے۔

فوجی اہلکاروں کی بغاوت دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم کا بوجھ کتنا ہی میٹھے الفاظ اور سیاسی جوازوں میں لپیٹ دیا جائے، آخرکار وہی بوجھ ظالم کے ساتھیوں کے کندھوں پر بھی بھاری ہونے لگتا ہے۔ وہ جو کل تک خاموش تماشائی تھے، آج زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی شہادت ہے کہ: ظلم کے ساتھی بھی کبھی ضمیر کی خلش سے لرز اٹھتے ہیں۔ طاقتور کی زبان سے بھی اعترافِ جرم ممکن ہے۔ انسانیت کی اصل قوت عوام کے اجتماعی ضمیر میں چھپی ہے، نہ کہ ایٹمی ہتھیاروں اور بارودی انباروں میں۔

یہ صدائیں دراصل اس سچائی کی بازگشت ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اپنے شہریوں کے دل و دماغ پر پہرے بٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ واشنگٹن کے ایوانوں میں ابھرتی یہ آوازیں محض شور نہیں بلکہ تاریخ کے نئے موڑ کی علامت ہیں۔ جب ظلم کے ایوانوں کے اندر سے سوالات اٹھنے لگیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حقیقت اپنی راہ بنا رہی ہے۔ یہ آوازیں بیک وقت ایک سوال، ایک چیلنج اور ایک نوید ہیں۔ سوال اس نظام کے لیے جو اپنے آپ کو انصاف کا علمبردار کہتا ہے مگر ظلم کا سہولت کار ہے۔ چیلنج ان طاقتوں کے لیے جو یہ سمجھتی ہیں کہ فوجی طاقت اور سرمایہ ہی ہمیشہ دنیا کو جھکائے رکھیں گے۔ نوید انسانیت کے لیے کہ اگر یہ صدائیں سنی گئیں تو وہ دن دور نہیں جب ظلم کے اندھیروں کو انصاف کی روشنی چیر ڈالے گی۔

اگر دنیا نے اس پکار کو نظر انداز کیا تو کل یہ طوفان صرف غزہ کے مکانوں کو نہیں، بلکہ عالمی امن کے ایوانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ ظلم کا لاوا جب پھٹتا ہے تو وہ کسی ایک قوم یا خطے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ پکار سنی گئی، اگر انسانیت نے اس آواز کو اپنی آواز بنا لیا، تو یہی لمحہ تاریخ کا سنگ میل بن سکتا ہے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں سے دنیا ظلم کے اندھیروں سے نکل کر انصاف اور روشنی کے سفر پر گامزن ہو سکتی ہے۔ ظالم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ دکھائی دے، اس کے زوال کا دن مقرر ہے۔ لیکن مظلوم کی صدا، چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ لگے، ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ یہی صدا آج واشنگٹن کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہے، اور یہی صدا آنے والے کل میں تاریخ کے اوراق پر روشن سچائی کے طور پر ثبت ہوگی۔

مسعود محبوب خان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ہے کہ ظلم تاریخ کے کتنا ہی کیوں نہ ہیں کہ ظلم کے کے لیے رہی ہے ظلم کا

پڑھیں:

اسرائیل کا فلو ٹیلا پر قبضہ،سیکڑوں گرفتار،دنیا بھر میں احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-01-3

مقبوضہ بیت المقدس/دوحا/ اسلام آباد/ میڈرڈ / برلن/بگوٹا/واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک+نمائندہ جسارت+خبرایجنسیاں) اسرائیلی فوج نے غزہ امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر قبضہ کرکے سیکڑوں رضاکاروں کو گرفتار کرلیا۔ زیر حراست افراد میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد،عالمی شہرت یافتہ سویڈن کی سماجی رہنما گریٹا تھنبرگ اور نیلسن منڈیلا کا پوتا بھی شامل ہے۔اسرائیلی فوجی کشتیوں نے گزشتہ شب 40 سے زاید کشتیوں پر مشتمل گلوبل فلوٹیلا کو گھیرے میں لینا شروع کیااور کئی کشتیوں پر آگ کے گولے فائر کیے اور پانی کی توپیں چلائیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق فلوٹیلا میں موجود تمام کشتیوں کو اسرائیلی فوج نے قبضے میں لے لیا ہے اور فلوٹیلا میں موجود تمام افراد کو اسرائیل منتقل کیا جارہا ہے جہاں سے انہیں یورپ ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلوٹیلا کی صرف ایک کشتی کافی فاصلے پر موجود ہے، وہ کشتی اگر قریب آئی تو اسے بھی روک لیا جائے گا۔اسرائیلی حکام نے الزام عاید کیا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حماس کی مدد کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ پاک فلسطین فورم کی جانب سے سوشل میڈیا پر بتایاگیا کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کو قابض اسرائیلی فورسز نے حراست میں لے لیا ہے۔40سے زیادہ سویلین کشتیوں پر مشتمل گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ کے لیے ادویات اور خوراک لے کر جا رہا تھا جس میں تقریباً 500 اراکین پارلیمنٹ، وکلا اور کارکنان سوار تھے، سابق سینیٹر مشتاق احمد خان گلوبل صمود فلوٹیلا میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے۔صدرمملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمور فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔آصف زرداری نے بیان میں فلوٹیلا میں شریک پاکستانی شہریوں کی بہادری اور انسان دوستی کو خراج تحسین پیش کیا ۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ کے شہریوں کو امداد کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں “صمود غزہ فلوٹیلا” میں پاکستان کے شہریوں کی باوقار شرکت کو سراہتا ہوں، مشتاق احمد خان، مظہر سعید شاہ، وہاج احمد، ڈاکٹر اسامہ ریاض سمیت دیگر پاکستانیوں نے انسانی ہمدردی کے اصولوں کے عین مطابق اس عظیم امدادی مشن میں حصہ لیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پاکستانی عوام کی امن پسند امنگوں، انصاف کے لیے جدوجہد، اور ضرورت مندوں کی مدد کے جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اپنے شہریوں کی واپسی کا بھرپور مطالبہ کرتی ہے اور ان کی سلامتی، وقار اور جلد از جلد وطن واپسی کے لیے دعاگو اور کوشاں ہے۔دوسری جانب اسرائیل کی گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، اسپین، برازیل، کولمبیا، ارجنٹینا سمیت دیگر ممالک میں بھی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور دھرنے دے دیے۔یہ احتجاج گلوبل صمود فلوٹیلا کی اپیل پر شروع کیا گیا ہے، استنبول میں اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے شہریوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا، اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی۔فلوٹیلا کو روکے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جرمن دارالحکومت برلن میں مظاہرین نے مرکزی ٹرین اسٹیشن کو بند کر دیا۔غزہ جانے والے امدادی بیڑے کو روکنے پر حماس نے اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، حماس نے اسے شہریوں کے خلاف قزاقی اور سمندری دہشت گردی قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی مذمت کریں۔حماس کے مطابق یہ کارروائی بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی، جس کے دوران جہازوں پر موجود کارکنوں اور صحافیوں کو بھی گرفتار کیا گیا، یہ اسرائیل کی جارحیت کا ایک اور خطرناک قدم ہے جو اس کے سیاہ ریکارڈ میں اضافہ کرتا ہے۔کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے لیے امداد لے جانے والی گلوبل صمود فلوٹیلا کے عملے میں شامل 2 کولمبیائی خواتین کی گرفتاری کے بعد ملک میں موجود تمام اسرائیلی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دیا اور کہا کہ ان کا ملک ہر قانونی اور جائز طریقے سے خاص طور پر اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اسرائیل کو جوابدہ بنانے کے اقدامات کرے گا۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلوٹیلا نے اسرائیل کا خونی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ، امدادی فلوٹیلا عملے کی گرفتاری غزہ میں ہونے والی درندگی کی بدترین مثال ہے۔آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے ایکس پر لکھا کہ موصول ہونے والی رپورٹس بہت تشویشناک ہیں، یہ ہولناک انسانی تباہی پر روشنی ڈالنے والا ایک پرامن مشن ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گلوبل صمود فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی فرانسسکا البانیزے نے سوال اٹھایا ہے کہ دنیا کے ممالک غزہ پر اسرائیلی فوجی بحری ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے، جب کہ اسرائیل پر عام شہریوں کے خلاف نسل کشی اور قحط جیسی صورتحال پیدا کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ادھرہالی وڈ کے نامور اداکاروں اور فلم سازوں سمیت 3900 سے زائد فنکاروں نے اسرائیلی فلمی اداروں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔اسرائیلی فلمی اداروں کا بائیکاٹ کرنے والوں میں ایما اسٹون، ٹلڈا سوئٹن، سوزن سرینڈن اور مارک رفالو جیسے بڑے نام شامل ہیں۔فنکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فلمی اداروں کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔فنکاروں نے اپنے اس اقدام کو نسل پرستی اور غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف ایک اصولی مؤقف قرار دیا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ بائیکاٹ ان اداروں کے خلاف ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شریک ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی افواج کی جانب سے دن بھر نہتے فلسطینیوں پر حملے جاری رہے، جس میں کم از کم 53 فلسطینی شہید ہو گئے۔ادھر حماس کے غیر مسلح ہونے سے انکار کے بعد امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے امریکی صدر ٹرمپ سے فون پر رابطہ کرکے غزہ جنگ بندی منصوبے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیوٹ نے بات چیت کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت حساس ہے، بتائی نہیں جاسکتی۔مزید برآں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس نے امن منصوبہ تسلیم نہ کیا تو پھر اسرائیل جو بھی کرے گا وہ ٹھیک کرے گا، اس کی مکمل حمایت کریں گے،امید کرتے ہیں ہمیں اپنے جوہری تھیاروں کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
اسرائیل

نمائندہ جسارت

متعلقہ مضامین

  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت انسانی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے، اولکھ
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • اترپردیش راجرشی ٹنڈن اوپن یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی تاریخ پڑھائی جائیگی، کانگریس کا احتجاج
  • اسرائیل کا فلو ٹیلا پر قبضہ،سیکڑوں گرفتار،دنیا بھر میں احتجاج
  • صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
  • نو مئی بغاوت اورحملے کیس کے مرکزی ملزمان کے ساتھ نرمی اور کیسزکو طول دیا جانا پاکستان دشمنوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں ۔ خواجہ رمیض حسن
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی