بغاوتِ ضمیر اور احتجاجِ انسانیت
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250930-03-4
مسعود محبوب خان
’’بمباری بند کرو! بمباری بند کرو!!‘‘ یہ الفاظ محض ایک ہجوم کا احتجاج نہیں بلکہ انسانیت کی اجتماعی روح کی پکار ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو کسی ایک قوم، نسل یا خطے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کے دلوں میں گونجتی ہے۔ یہ وہی پکار ہے جو کبھی ویتنام کے گھنے جنگلوں میں زخمی درختوں اور اجڑی بستیوں سے بلند ہوئی تھی۔ یہ وہی صدا ہے جو عراق کی مٹی سے اٹھتی تھی جب معصوم بچّے ’’تباہی کے ہتھیار‘‘ کے جھوٹے بہانے پر قربان کیے جا رہے تھے۔ یہ وہی نوحہ ہے جو افغانستان کے پہاڑوں سے بلند ہوا جب انسانیت کو دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلا گیا۔ اور آج یہ پکار غزہ کی تنگ گلیوں سے، شہید بچّوں کے خون آلود کھلونوں سے، اور بے کس ماں کے سینے سے اٹھنے والی آہوں سے دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہ احتجاج ایک اجتماعی ضمیر کی بازگشت ہے جو ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا خود ظلم کا حصہ بن جانا ہے۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بار بار یہ سچائی سکھاتے ہیں کہ ظلم وقتی طور پر غالب آ سکتا ہے، مگر اس کی جڑوں میں کھوکھلا پن ہوتا ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر قائم نظام بظاہر مضبوط دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ ریت کے گھروندے ہوتے ہیں جنہیں ایک چھوٹی سی لہر بھی بہا لے جاتی ہے۔
فرعون کے محلات بھی ظلم و غرور کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ وہ دریائے نیل کے کنارے اپنی طاقت کے مظاہرے کرتا اور خود کو ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کہتا، لیکن ایک دن وہی دریا اس کی بغاوت کو نگل گیا۔ نمرود کے ایوان بھی آسمان کو چھونے کی آرزو میں تھے، مگر ایک حقیر مچھر نے اس کی طاقت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ رومیوں اور تاتاریوں کی شان و شوکت بھی ظلم کے بوجھ تلے ڈھیر ہو گئی۔ آج اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے لیے بھی یہی سبق ہے۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی، ایٹمی ہتھیار اور سیاسی لابی ان کے اقتدار کو دائمی بنا دیں گے، لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ ظلم کی عمر تاریخ کے کسی بھی دور میں طویل نہیں رہی۔
ظلم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اس کا انجام ایک دن زوال ہے۔ جب کہ حق اور انصاف کی کرنیں، چاہے کمزور ہی کیوں نہ لگیں، ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ فلسطینی بچّوں کے ننھے ننھے ہاتھ جو آسمان کی طرف اٹھتے ہیں، وہ محض دعا نہیں بلکہ انسانیت کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ اور یہ ضمانت تاریخ کا اٹل اصول ہے کہ ظلم مٹ جائے گا اور انصاف باقی رہے گا۔ یہ لمحہ صرف فلسطین یا غزہ کا لمحہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا امتحان ہے۔ یہ پکار ’’بمباری بند کرو!‘‘ ایک عہد ہے جو انسانیت کو یاد دلاتا ہے کہ ظلم کی طاقت وقتی ہے اور انصاف کی روشنی دائمی۔ آج اگر دنیا نے اس صدا کو نہ سنا تو کل تاریخ اپنے فیصلے صادر کر دے گی، اور اس فیصلے میں ظالموں کے ساتھ ساتھ خاموش رہنے والے بھی مجرم شمار ہوں گے۔
فوجی اہلکاروں کی بغاوت دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم کا بوجھ کتنا ہی میٹھے الفاظ اور سیاسی جوازوں میں لپیٹ دیا جائے، آخرکار وہی بوجھ ظالم کے ساتھیوں کے کندھوں پر بھی بھاری ہونے لگتا ہے۔ وہ جو کل تک خاموش تماشائی تھے، آج زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی شہادت ہے کہ: ظلم کے ساتھی بھی کبھی ضمیر کی خلش سے لرز اٹھتے ہیں۔ طاقتور کی زبان سے بھی اعترافِ جرم ممکن ہے۔ انسانیت کی اصل قوت عوام کے اجتماعی ضمیر میں چھپی ہے، نہ کہ ایٹمی ہتھیاروں اور بارودی انباروں میں۔
یہ صدائیں دراصل اس سچائی کی بازگشت ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اپنے شہریوں کے دل و دماغ پر پہرے بٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ واشنگٹن کے ایوانوں میں ابھرتی یہ آوازیں محض شور نہیں بلکہ تاریخ کے نئے موڑ کی علامت ہیں۔ جب ظلم کے ایوانوں کے اندر سے سوالات اٹھنے لگیں تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حقیقت اپنی راہ بنا رہی ہے۔ یہ آوازیں بیک وقت ایک سوال، ایک چیلنج اور ایک نوید ہیں۔ سوال اس نظام کے لیے جو اپنے آپ کو انصاف کا علمبردار کہتا ہے مگر ظلم کا سہولت کار ہے۔ چیلنج ان طاقتوں کے لیے جو یہ سمجھتی ہیں کہ فوجی طاقت اور سرمایہ ہی ہمیشہ دنیا کو جھکائے رکھیں گے۔ نوید انسانیت کے لیے کہ اگر یہ صدائیں سنی گئیں تو وہ دن دور نہیں جب ظلم کے اندھیروں کو انصاف کی روشنی چیر ڈالے گی۔
اگر دنیا نے اس پکار کو نظر انداز کیا تو کل یہ طوفان صرف غزہ کے مکانوں کو نہیں، بلکہ عالمی امن کے ایوانوں کو بھی بہا لے جائے گا۔ ظلم کا لاوا جب پھٹتا ہے تو وہ کسی ایک قوم یا خطے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ پکار سنی گئی، اگر انسانیت نے اس آواز کو اپنی آواز بنا لیا، تو یہی لمحہ تاریخ کا سنگ میل بن سکتا ہے۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں سے دنیا ظلم کے اندھیروں سے نکل کر انصاف اور روشنی کے سفر پر گامزن ہو سکتی ہے۔ ظالم چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ دکھائی دے، اس کے زوال کا دن مقرر ہے۔ لیکن مظلوم کی صدا، چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ لگے، ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ یہی صدا آج واشنگٹن کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہے، اور یہی صدا آنے والے کل میں تاریخ کے اوراق پر روشن سچائی کے طور پر ثبت ہوگی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ہے کہ ظلم تاریخ کے کتنا ہی کیوں نہ ہیں کہ ظلم کے کے لیے رہی ہے ظلم کا
پڑھیں:
آئینی ترمیم کیخلاف آزاد عدلیہ کے حامیوں سے مل کر احتجاج کرینگے، تحریک تحفظ آئین پاکستان
اسلام آباد:تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بند کمروں کی پالیسی منظور نہیں، آئینی ترمیم کے خلاف سب مل کر احتجاج کریں، آزاد عدلیہ پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ضلعی کچہری کے باہر خودکش دھماکے کے معاملے میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے وفد کی کچہری آمد ہوئی۔ وفد میں محمود خان اچکزئی، علامہ راجہ ناصر عباس، اسد قیصر، مصطفی نواز کھوکھر وفد شامل تھے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے وفد نے وکلاء کے ساتھ اظہار افسوس کیا، دھماکے کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ کچہری شہدا کیلئے کسی بھی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا، زخمی بھی اپنا علاج خود کروا رہے ہیں، کچہری کے باہر سیکیورٹی کے انتظامات بھی جوں کے توں ہیں، جو مرضی پالیسی ہو پارلیمان کے سامنے پالیسی ڈسکس ہونی چاہیے بند کمروں میں پالسیی نہیں بننی چاہیے کہ اس کا نقصان پاکستان کے لوگوں کو ہو، 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے احتجاج کریں گے، آزاد عدلیہ پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس اپنی وکلا برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آئے تھے، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ شہریوں کو تحفظ دے، حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کیسز بنانے میں مصروف ہے، خود کش حملے کے بعد کوئی حکومتی عہدے دار جوڈیشل کمپلیکس نہیں آیا، شہدا اور متاثرین کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے۔
انہوں ںے کہا کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے، انصاف کا نظام ختم ہو جائے تو عوام کے پاس کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ جہاں انصاف کا نظام ختم ہو جائے وہاں جنگل کا قانون بن جاتا ہے، ہم 26 ویں اور 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے، جمعہ کو ہم 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف یوم سیاہ منائیں گے سب کی ذمہ داری ہے کہ انصاف کے نظام کے لیے آواز بلند کریں۔
انہوں ںے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کے خلاف گھناؤنا پروپیگنڈا شروع کیا گیا ہے، سیاست میں اتنی گراوٹ نہیں ہونی چاہیے، ہم سیاست کی بے توقیری نہیں چاہتے، الزام تراشی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہم کسی صورت بھی اپنے حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 1973ء کے آئین کو عملی شکل میں بحال کرنے کا عہد کیا ہوا ہے، ہمیں توقعات تھی کہ پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کو قربان کر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی، ہمیں نواز شریف سے بھی توقعات تھیں لیکن نواز شریف نے بھی اپنے بھائی اور بیٹی کی وجہ سے کمپرومائز کیا، آئین اور قانون کی بالادستی 1973ء آئین کے تحت ہی ہوگی۔