بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت، جس کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کر رہے ہیں، اپنے قیام کے ڈیڑھ سال بعد ہی اندرونی اختلافات کا شکار نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں نہ صرف پیپلز پارٹی کے ایک صوبائی وزیر اور ایک پارلیمانی سیکرٹری نے کھل کر وزیراعلیٰ کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی نے بھی واضح کیا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو وہ اس کی حمایت کریں گے۔
رواں سال 8 فروری کے عام انتخابات میں حب سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے صوبائی وزیر میر علی حسن زہری نے وندر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پر کھل کر تنقید کی۔
یہ بھی پڑھیں: کینوس پر بلوچستان کی خوبصورت جھلکیاں
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی پالیسیوں نے پیپلز پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور کسی کارکن یا رہنما کے کام نہیں ہو رہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیراعلیٰ ن لیگ کو باور کراتے ہیں کہ وہ ان کے وزیراعلیٰ ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ خود کو ان کا وزیراعلیٰ قرار دیتے ہیں، جو ان کے بقول ’دوغلے پن‘ کی واضح مثال ہے۔
یاد رہے کہ میر علی حسن زہری نے، جو صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی بھی سمجھے جاتے ہیں، وزارت کا حلف لیتے ہی وزیراعلیٰ کے خلاف اپنے تحفظات ظاہر کیے تھے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کی نئی ایوی ایشن پالیسی صوبے میں فضائی آپریشنز میں اضافہ کرے گی؟
بعدازاں آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مداخلت سے صلح صفائی کرائی گئی تھی لیکن ان کے حالیہ بیانات نے ایک بار پھر حکومت کے اندرونی اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے ہی ایک اور رہنما اور پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ میر لیاقت لہڑی نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چمن سے گوادر تک نوجوان رُل رہے ہیں، دکاندار کرائے پورے نہیں کر پا رہے، کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔
’ٹرانسپورٹ کا شعبہ بربادی کے دہانے پر ہے، لیکن حکومت صرف دعوؤں تک محدود ہے، میں خود اسمبلی کے رکن اور وزیر ہونے کے باوجود بے بس ہوں اور عوام کے مسائل حل نہیں کر پا رہا۔ ‘
مزید پڑھیں: یورپی یونین کے تعاون سے بلوچستان میں اسکلز سینٹرز کا قیام، روزگار کے نئے امکانات
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میر لیاقت لہڑی نے شکوہ کیا کہ اسمبلی میں تقریر کے بعد انہیں انتقامی کارروائیوں اور منفی پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صوبائی حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی اس وقت وزیراعلیٰ سے نالاں دکھائی دیتی ہے۔
مری قبیلے کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ نواب خیر بخش مری کے بڑے بیٹے نواب چنگیز مری کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو وہ اس میں بھرپور ساتھ دیں گے۔
مزید پڑھیں:
صحافیوں سے گفتگو میں نواب چنگیز مری کا کہنا تھا کہ انہیں بلوچستان میں سیاست ہی نہیں کرنے دی جا رہی، وزیراعلیٰ بننا تو دور کی بات ہے۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں مخلوط حکومتوں میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں، 2013 میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت میں بھی وزارتِ اعلیٰ کے معاملے پر اختلافات کے باعث ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مستعفی ہونا پڑا تھا اور ان کی جگہ مسلم لیگ (ن) کے نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے تھے۔
تاہم 2018 میں نواب ثنا اللہ زہری کو اپنی ہی جماعت کے اندر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیں: ماہرنگ بلوچ کا بلوچستان میں سرگرم دہشتگرد تنظیموں کی مذمت سے دوٹوک انکار
جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) وجود میں آئی، اس جماعت کے قیام کے بعد جام کمال وزیراعلیٰ منتخب ہوئے لیکن وہ بھی اپنی ہی جماعت کے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی مخالفت کے باعث وزارتِ اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے رہنماؤں کے بیانات بلوچستان میں کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں،
اس پس منظر میں خاص طور پر کہ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی ڈھائی سال کے وزارتِ اعلیٰ کے فارمولے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
مزید پڑھیں:بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ
مبصرین کے مطابق اگر یہ فارمولا درست ہے تو ممکن ہے کہ یہ اختلافات آئندہ ڈھائی سال مکمل ہونے پر تبدیلی کی زمین ہموار کرنے کے لیے سامنے لائے جا رہے ہوں۔
فی الحال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اور ان کے حامی ارکان پر اعتماد ہیں کہ وہ اختلافات پر جلد قابو پا لیں گے، لیکن صوبائی وزرا اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے کھلے عام بیانات نے بلوچستان کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
اس تناظر میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ اپنی مدت پوری کر سکیں گے یا صوبے میں ایک اور سیاسی تبدیلی کے آثار قریب آ گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اختلافات بلوچستان بلوچستان عوامی پارٹی پیپلز پارٹی عدم اعتماد مخلوط حکومت مسلم لیگ ن میر سرفراز بگٹی نواب ثنا اللہ زہری نواب چنگیز مری وزیر اعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اختلافات بلوچستان بلوچستان عوامی پارٹی پیپلز پارٹی مخلوط حکومت مسلم لیگ ن میر سرفراز بگٹی نواب ثنا اللہ زہری نواب چنگیز مری وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی پیپلز پارٹی کے بلوچستان میں مخلوط حکومت بلوچستان کی مزید پڑھیں مسلم لیگ کا کہنا کے خلاف
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نےبینائی سے محروم اور عارضہ قلب کے مریضوں کے مسائل فوری حل کرنے کی ہدایت کردی
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے آنکھوں اور دل کے مریضوں کیلیے علاج کی بروقت فراہمی کی ہدایت کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے پیر کے روز خصوصی افراد، بیمار شہریوں اور پناہ گاہ میں مقیم افراد کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بلا کر انکے مسائل سنے اور متعلقہ حکام کو انکے مسائل فوری حل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
وزیر اعلیٰ نے علاج کے منتظر آنکھوں اور دل کے مریضوں کیلئے خصوصی ہدایات جاری کیں اور شہریوں کو فوری مدد کی یقین دہانی کرائی۔
وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر متعلقہ حکام کو خصوصی افراد کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی بھی ہدایت کی۔
مزید برآں ، محمد سہیل آفریدی نے پناہ گاہ سے آئے شہری کے مسئلے کا بھی فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے حل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عوامی خدمت کا مینڈیٹ ملا ہے، صوبے کے لوگوں کی خدمت ہماری اولین ترجیح ہے۔ بانی چیرمین عمران خان کے ریاستِ مدینہ ماڈل کے تحت فلاحی طرزِ حکمرانی کی راہ پر گامزن ہیں۔
دریں اثنا وزیراعلیٰ سے ایم ڈی کیٹ کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم نے بھی ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ نے طالب علم کو شاباش دی اور تعلیمی اخراجات کی مکمل سرکاری کفالت کا اعلان کیا۔ شہریوں نے وزیراعلیٰ کے فوری ایکشن پر شکریہ کا اظہار کیا۔