فرحان غنی کے خلاف مقدمہ دہشتگردی کا نہیں بنتا، تفتیشی افسر متعلقہ عدالت سے رجوع کریں، فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت کے روبرو ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی و دیگر کے خلاف سرکاری ملازمین پر تشدد کےکیس کی سماعت ہوئی جس نے تفتیشی افسر کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
حکم نامے کے مطابق تفتیشی افسر کی جانب سے زیر دفعہ 497 بی ٹو کے تحت درخواست دائر کی گئی، تفتیشی افسر کے مطابق گواہان کا بیان شکایت کنندہ کے بیان کے متضاد ہیں۔ تفتیشی افسر نے ملزمان کو دفعہ 497 بی ٹو کے تحت ضمانت پر رہا کیا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق عدالت نے گزشتہ سماعت پر گواہان کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ گواہان دستیاب نہیں یا نہیں مل سکے، مدعی کے وکیل بھی دوران سماعت غیر حاضر رہے، فریقین نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ انسداد دہشتگردی کی دفعات کا عنصر نہیں ملا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق وکلا کا کہنا ہے کہ تنازع کے نتیجے میں عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہوا، وکلا کے مطابق الزامات کے تحت انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت جرم نہیں بنتا اور تفتیشی افسر نے 29 اگست کو مدعی مقدمہ کا دفعہ 162 کا بیان رکارڈ کیا۔
وکلا نے کہا کہ کیس کے گواہان نے اپنے بیان میں ملزمان کے نام نہیں بتائے، گواہان کے بیان انسداد دہشتگردی قوانین کے بنیادی اجزاکو سپورٹ نہیں کرتے اور عینی شاہدین نےبیان میں مدعی مقدمہ کےاسلحہ کے استعمال کےدعوےکی حمایت نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ استغاثا کے گواہان کے مطابق ملزمان نے کام میں رکاوٹ ڈالی۔
تحریری حکم نامے کے مطابق استغاثا کے گواہان نے بیان میں جائے وقوعہ پر فائرنگ کا نہیں بتایا، مدعی مقدمہ اور استغاثاکے گواہان کے بیانات پر یہ مقدمہ دہشتگردی کا نہیں بنتا، تفتیشی افسر معمول کے مطابق متعلقہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسداد دہشتگردی عدالت فرحان غنی کراچی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسداد دہشتگردی عدالت کراچی حکم نامے کے مطابق انسداد دہشتگردی تفتیشی افسر کے گواہان کے تحت
پڑھیں:
عمران خان کو سزا سنانے والے جج کیخلاف پروپیگنڈا، ملزم کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد:بانی پی ٹی آئی عمران خان کو سزا سنانے والے جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں درج مقدمہ کے اخراج کی درخواست مسترد کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق عدالت نے محکمہ اینٹی کرپشن خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر صدیق انجم کی درخواست مسترد کی ہے اور جسٹس انعام امین منہاس کی عدالت نے تین صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار صدیق انجم پر الزام ہے کہ اس نے دیگر شریک ملزمان کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی، مہم احمد صدیق دلاور اور ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے اور ہراساں کرنے کیلئے تھی، احمد صدیق دلاور کے چچا پر بے جا الزامات بھی لگائے گئے، درخواست گزار وکیل کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن بنوں میں مقدمہ کے اندراج کی وجہ سے درخواست گزار کو نشانہ بنایاگیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل اوراحمد صدیق دلاور کے وکیل نے درخواست گزار کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قراردیا، عدالت کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے میں شکایت پر باقاعدہ انکوائری کے بعد مقدمہ درج کیا گیا، عدالت کو بتایا گیا کہ چالان بھی متعلقہ عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے اور ٹرائل کورٹ میں کیس زیر سماعت یے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ درخواست گزار صدیق انجم کے خلاف احمد صدیق دلاور نے ایف آئی اے میں شکایت درج کروائی، شکایت پر ایف آئی اے نے انکوائری کرکے شواہد اکٹھے کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا، درخواست گزار صدیق انجم نے صرف اپنی حد تک اخراج مقدمہ کی درخواست دی، مقدمہ میں دیگر سات ملزمان بھی ہیں اور کسی ایک کی حد تک مقدمہ خارج نہیں کیا جاسکتا، مقدمہ کا چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جا چکا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار اگر سمجھتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے تو ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواست دائر کرسکتاہے، درخواست گزار کی جانب سے اخراج مقدمہ کی درخواست کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے، عدالت درخواست خارج کرتی ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس بابر ستار کی عدالت نے کیس میں حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو ٹرائل سے روک رکھا تھا، جسٹس بابر ستار کی عدالت کا سنگل بنچ ختم کیے جانے کے بعد یہ کیس جسٹس انعام امین منہاس کی عدالت منتقل کیا گیا تھا۔