سادگی اور کفایت شعاری کیسے ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ غربت کا خاتمہ کرکے دکھائیں گے اور سادگی و کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وسائل عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی و معاشی استحکام کے لیے باہمی اتحاد کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ شہباز شریف سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ عوام کے جذبات سے کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہیں معلوم ہے کہ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کی حکومت نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اس لیے انہوں نے عوام کو خوشخبری سنائی ہے کہ وہ غربت کا خاتمہ کرکے دکھائیں گے۔ یہ کام وہ کیسے کریں گے، اس کا طریقہ بھی انہوں نے بتادیا ہے تا کہ عوام ان کی نیت پر شک نہ کریں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ یعنی ان کی حکومت سادگی و کفایت شعاری کو اپنائے گی۔ یہ سادگی و کفایت شکاری کیا ہے؟ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ یوٹیلیٹی اسٹورز اور مفادِ عامہ کے دیگر ادارے بند کردیں۔ درجہ چہارم کے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے نکال دیں، سرکاری ملازمین کی پنشن بند کردیں یا ریٹائرمنٹ کی عمر گھٹادیں۔ سادگی و کفایت شعاری کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ عرش سے فرش پر آئے اور وہی سادگی و طرزِ زندگی اپنائے جو عوام کا ہے۔ اور اپنی ساری دولت عوامی بہبود کے لیے وقف کردے۔
دیکھا جائے تو سارے انسان انسانیت کے حوالے سے برابر ہیں۔ ان کی ضروریات بھی ایک جیسی ہیں۔ سب کو روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم، بیماری کی صورت میں علاج اور امن وامان چاہیے۔ جو شخص مسند ِ انصاف پر بیٹھا ہے اور اٹھائیس لاکھ روپے ماہانہ مشاہرہ وصول کرنے کے علاوہ ہر قسم کی مراعات اور پروٹوکول سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی ضروریات بھی روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور امن وامان ہی ہے جبکہ ایک مزدور جو چالیس ہزار روپے ماہانہ وصول کرتا ہے یا ایک سرکاری ملازم جو ساٹھ ستر ہزار ماہانہ تنخواہ لیتا ہے ان سب کی بنیادی ضرورتیں وہی ہیں جو اٹھائیس لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والے ایک جج کی ہیں۔ پھر اس کی تنخواہ اور ایک عام آدمی کی تنخواہ میں یہ ہولناک فرق کیوں؟ اس میں شبہ نہیں کہ مسند ِ انصاف پر بیٹھنے والے فرد کی ذمے داری نازک ہے اور اس کا منصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کی تنخواہ زیادہ ہو، اسے زیادہ مراعات دی جائیں، اس کی سیکورٹی کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے مقابلے میں 23 کروڑ عوام کو کیڑے مکوڑے بنادیا جائے، ان کے حقوق کی نفی کردی جائے اور ان کی انسانی ضرورتوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔ جو شخص مسند انصاف پر بیٹھا ہے وہ خود بھی اس بات کا جائزہ لے کہ وہ ایک مفلوک الحال اور انتہائی مقروض ملک میں جو تنخواہ اور مراعات اور پروٹوکول لے رہا ہے وہ قرین ِ انصاف ہے؟ جبکہ وہ جو ذمے داری ادا کررہا ہے اس کا معیار نہایت شرمناک ہے اور عالمی رینکنگ میں اس کا درجہ 129 واں ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر، ادیب، کالم نگار اور دانشور جناب عرفان صدیقی حال ہی میں ڈنمارک کا دورہ کرکے آئے ہیں انہوں نے عدالت عظمیٰ ڈنمارک کا احوال لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈنمارک کی اس بڑی عدالت کا جج سائیکل پر اپنے دفتر آتا ہے اور اپنی چائے خود بناتا ہے۔ پوری عدالت ہر قسم کے کرّوفر سے بے نیاز ہے لیکن انصاف کی فراہمی میں وہ دنیا میں سرفہرست ہے۔
بات صرف عدلیہ کی نہیں کہ وہ ہوش ربا تنخواہیں اور مراعات وصول کررہی ہے اور انصاف کرنے کے بجائے ظلم و ناانصافی کے نظام کی معاون بنی ہوئی ہے بلکہ پوری حکمران اشرافیہ اسی روش پر گامزن ہے۔ پارلیمنٹ جو عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور جس کے ارکان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں انہوں نے بھی اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ سمیت اپنی تنخواہیں چھے سو فی صد تک بڑھالی ہیں۔ کیا
انہیں نہیں معلوم کہ ملک کی حالت کیا ہے اور وہ کتنے سنگین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے؟ بیوروکریٹس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی تنخواہیں بڑھالیتے ہیں اور اسے موثر بہ ماضی کرکے کروڑوں روپے بطور واجبات وصول کرلیتے ہیں۔ جبکہ پورا ملک بیڈ گورننس کا شاہکار بنا ہوا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جو ہولناک تباہی ہوئی اس نے بیوروکریسی کی نااہلی ثابت کردی ہے، متعلقہ محکموں میں سے کسی نے بھی اس تباہی کو روکنے میں اپنی ذمے داری محسوس نہیں کی اور تباہی کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ حد یہ ہے کہ دریائوں کے قدرتی راستے میں ہائوسنگ سوسائٹیاں قائم کردی گئیں اور اس کے عوض اربوں روپے کھرے کرلیے گئے، جب سیلاب آیا تو دریا اپنے قدرتی راستوں پر بہہ نکلے اور مکانات دس دس فٹ پانی میں ڈوب گئے۔ اس طرح لوگ اپنے زندگی بھر کے اثاثے سے محروم ہوگئے۔ یہ بیڈ گورننس کی نہایت شرمناک مثال ہے جس کی ذمے داری حکومت اور اس کی پروردہ بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کے وزیر، مشیر اور معاونین لاکھوں روپے تنخواہیں اور شاہانہ مراعات وصول کررہے ہیں لیکن کارکردگی صفر سے بھی نیچے ہے۔ جناب شہباز شریف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا ہے کہ وہ غربت کا خاتمہ کرکے دم لیں گے لیکن عالمی بینک کی رپورٹ یہ ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران غربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے پہلے ایک عالمی سروے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 30 فی صد سے زیادہ افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اب بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ اب کی دفعہ شہباز حکومت نے عالمی امداد کی اپیل بھی نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس اپیل کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوگا۔ عالمی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عالمی امداد بھی کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دعویٰ
کہ وہ غربت کا خاتمہ کرکے دکھائیں گے عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ آخر ان کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ قوم کو سنگھائیں گے اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اگر غور کیا جائے تو ایسا ممکن ہے۔ بلاشبہ سادگی اور کفایت شعاری کے ذریعے غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے حکمران اشرافیہ کو عرش سے فرش پر آنا ہوگا اور وہی اسٹائل اپنانا ہوگا جو مغربی ملکوں کی حکومتوں نے اپنا رکھا ہے جہاں حکمرانوں اور عوام کے وسائل کے درمیان کوئی عدم توازن نہیں۔ حکمرانوں کو قومی خزانے سے جو مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں ایک معمولی سے فرق کے ساتھ عوام کو بھی وہی سب کچھ حاصل ہے انہیں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج سمیت تمام ضروری سہولتیں میسر ہیں، اگر لوگ بیروزگار ہیں تو انہیں بیروزگاری الائونس بھی دیا جاتا ہے اس کے لیے امیر اور کاروباری طبقہ ٹیکس پوری دیانتداری سے ادا کرتا ہے اور یہ ٹیکس پوری ذمے داری کے ساتھ عوام کی بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی سادگی کا یہ عالم ہے کہ ایک وزیراعظم اپنے منصب سے سبکدوش ہوتا ہے تو وہ سائیکل کے کیریئر پہ اپنا بریف کیس رکھ کر سائیکل پر سوار خوشی خوشی اپنے گھر چلا جاتا ہے اسے کوئی سیکورٹی گارڈ فراہم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی عوام سے اس کی جان کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے، ہمارے حکمران (جن میں جج، جرنیل اور بیوروکریٹس، سرمایہ دار اور بڑے بڑے صنعت کار سبھی شامل ہیں) ہوش ربا تنخواہوں، مراعات اور سہولتوں کے جزیرے میں محصور ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ انہیں اس جزیرے سے نکل کر دیکھنا ہوگا کہ دنیا کس رُخ پر جارہی ہے اور ترقی یافتہ قومیں کس طرح اپنے معاملات کو چلا رہی ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری ’’زبانی جمع خرچ‘‘ کا نام نہیں، عملی اقدامات سے عبارت ہے، جس دن ہمارے حکمرانوں نے فی الواقع سادگی اور کفایت شعاری اپنالی اُس دن پاکستان میں انقلاب آجائے گا، ایک خوشگوار اور حیرت انگیز انقلاب جو پوری دنیا کو ششدر کردے گا۔
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ وہ غربت کا خاتمہ کرکے شہباز شریف مراعات اور انہوں نے ہے کہ وہ یہ ہے کہ نہیں کہ جاتا ہے ہیں اور عوام کی اور ان کے لیے اور اس ہے اور
پڑھیں:
نیتن یاہو نے اسلامی ممالک کے 20 نکات ٹرمپ سے کیسے تبدیل کروائے؟ نصرت جاوید کے انکشافات
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیلی وزیراعظم اسلامی ممالک غزہ امن منصوبہ نصرت جاوید نیتن یاہو وی نیوز