صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251002-03-7
اے ابن آدم یہ لوٹ مار کا حکومتی نظام پورے ملک میں بڑی شان وشوکت سے چل رہا ہے، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس لوٹ مار پر فخر کرتا ہے مرکز سے لے کر چاروں صوبوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہمارے حکمران تو سیلاب کو بھی اپنے لیے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے یہ وہ لوگ ہیں جو صرف سیلاب زدہ علاقے کے دورہ بھی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کرتے ہیں، حکومت برطانیہ کا 30 لاکھ پائونڈ امداد کا اعلان حکومت نے عالمی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کردی ہے۔ سنگاپور امداد کے لیے 50 ہزار ڈالر دے گا۔ کاش ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تو ہمیں دوسرے ممالک سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں اپنے عروج پر ہیں، غیر ضروری اخراجات بھی اربوں میں ہیں، کون سی ایسی مراعات ہے جو حکمران طبقہ وصول نہیں کرتا، غریب عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے والے حکمران اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے ٹیکس لگاتے رہتے ہیں اگر صرف بجلی کے بل کے ٹیکس دیکھ لیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ کراچی میں کمرشل بلوں میں ایک ہزار کا بھتا لگا ہوا ہوتا ہے اس کے علاوہ کے ایم سی کے 150 روپے الگ آتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کا کہ اُس نے بجلی کے بلوں میں موجود کے ایم سی چارجز پر عدالت میں مقدمہ کردیا ہے۔ میری جماعت اسلامی سے اپیل ہے کہ کراچی میں جو بجلی کے کمرشل بل موصول ہوتے ہیں ان میں موجود 1000 جو فکس چارجز کے نام سے یہ مافیا وصول کررہی ہے اس پر بھی مقدمہ کیا جائے، کرپشن کے خلاف آواز حق صرف جماعت اسلامی ہی بلند کرتی ہے۔ کراچی کے تاجروں نے کے ایم سی ٹیکس اور اس میں مزید اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اب کراچی کے عوام ماہانہ 285 کروڑ روپے میونسپل ٹیکس ادا کریں گے۔ لیکن کراچی کی عوام اور تاجروں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جارہے۔
پریس کانفرنس میں تاجروں نے برسات کے موقع پر مرتضیٰ وہاب اور وزیراعلیٰ سندھ کے رویے کو انتہائی ظالمانہ اور سنگدلانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بارش کی پیشگی اطلاعات کے باوجود میئر کراچی نے عوام اور تاجروں کو بارش سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ تاجروں نے کہا کہ کیماڑی سے سہراب گوٹھ تک گلشن اقبال سے سعدی ٹائون اور لانڈھی تک مارکیٹوں اور آبادیوں میں 5 سے 10 فٹ تک پانی داخل ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں اور عوام کا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا جس سے ان کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ابن آدم کہتا ہے یہ نقصان کیا بلدیہ ادا کرے گی۔ قارئین اس حوالے سے بڑی اہم خبر میری نظر سے گزری، یہ خبر کراچی کی نہیں ہے مگر ایک بڑا سچ ضرور ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔ عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کررہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے۔
عدالت عالیہ نے 4 اور عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔ جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتادیں جو وہ کام کررہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ ابن آدم سچ بولنے پر جسٹس محسن کیانی صاحب کو سلام پیش کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت بھی حکومت کی زبان بولتی ہے۔ حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اداروں میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہی، ہر ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتی ہے، ٹھیکے من پسند لوگوں کو ملتے ہیں جس کام کے پیسے ٹھیکے دار کو دیے جاتے ہیں وہ سب حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کاغذات میں کام کردیا جاتا ہے اور مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے، برسوں سے لوٹ مار کا یہ نظام سرکاری اداروں میں پھل پھول رہا ہے، افسران اور ٹھیکے دار راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں، پھر من پسند افسران اپنے سیاسی آقائوں کو ان کا حصہ باعزت طریقے سے دے کر آتے ہیں تا کہ ان کی کرسی مضبوط تر ہوجائے۔
ایک بہت بڑی ناانصافی محکمہ تعلیم میں ہورہی ہے وہ استاد جو آئی بی اے کے امتحان میں اور قابلیت کی بنیاد پر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے ان کی کوئی پنشن نہیں، تنخواہ ایک کلرک کے برابر جبکہ نااہل پرانے استاد جو آج 19 اور 20 گریڈ تک پہنچ گئے ان کو آج بھی لکھنے اور بولنے کی تمیز نہیں ہے۔ ایک نسل برباد کرکے رکھ دی ان کی تنخواہیں لاکھوں میں پنشن نہایت پرکشش جب چاہتے ہیں چھٹی کرلیتے ہیں سارا دن سیاسی گفتگو اور چائے پی کر گھر چلے جاتے ہیں جبکہ وہ استاد جو آئی بی اے سے امتحان پاس کرکے خالص میرٹ پر بھرتی ہوئے ہیں نہ تو وہ چھٹی کرسکتے ہیں۔ نہ ان کی گھر کے قریب پوسٹنگ وغیرہ ہوسکتی ہے، ان استادوں میں خواتین استاد بھی شامل ہیں جو دور دراز کا سفر طے کرکے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے آتی ہیں، آدھی سے زیادہ تنخواہ تو ان کی کرایہ میں لگ جاتی ہے۔ ابن آدم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان سب کی تنخواہوں میں 100 فی صد فوری اضافے کا اعلان کریں ساتھ ان کو پنشن کی سہولت بھی دی جائے، ایک مسئلہ اور نظر سے گزرہ ہے کہ جب نئے استادوں کے پرانے واجبات مطلب تنخواہ کا Arrear جب اے جی سندھ جاتا ہے تو محکمہ تعلیم والے اس پر ان سے اپنا کمیشن طلب کرتے ہیں، نام استعمال کرتے ہیں، اے جی سندھ کے دفتر کا، ہوسکتا ہے مل کر دونوں طرف کمیشن کھایا جاتا ہو کیونکہ بغیر رشوت کے تو کوئی ممکن ہی نہیں ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ میں حکومت کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا سسٹم چل رہا ہے اس کی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے فارم 47 کے ذریعے ان لوگوں کو مسلط کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی اور سندھ کی تباہی کی سب سے زیادہ ذمے دار ہیں اور یہ دونوں آج بھی وفاق کا حصہ ہیں۔ 20 سال گزر گئے K4 منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ تین حکومتیں گزر گئیں گرین لائن پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ریڈ لائن منصوبہ اہل کراچی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ 15 سال سے پی ایف سی ایوارڈ نہیں جاری کیا گیا۔ سندھ حکومت 15 سال میں کراچی کے 3360 ارب روپے کھا چکی ہے جس میں وفاق کا حصہ بھی شامل ہے۔ سندھ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھتی صرف مال بنانے کے لیے اہل کراچی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور 40 وڈیروں کا دوسرا نام ہے۔ مرتضیٰ وہاب اہل کراچی کے ترجمان بننے کے بجائے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے کہا کہ کراچی کے جاتے ہیں لوٹ مار کے لیے ایم سی کا حصہ رہا ہے
پڑھیں:
سندھ کی تقسیم کا معاملہ ایک بار پھر سر اٹھانے لگا، ایم کیو ایم کیا چاہتی ہے؟
سندھ کی تقسیم کا معاملہ پاکستان کی سیاست میں ایک حساس موضوع رہا ہے جو اب ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کوئی کیک نہیں جو بانٹ دیا جائے، پیپلز پارٹی کا مصطفیٰ کمال کے بیان پر ردعمل
وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرآپ ایم کیو ایم کی بات نہیں سنتے ہیں تو سندھ میں صوبہ بنے گا کیونکہ آپ حالات ایسے بنارہے ہیں اور لوگوں کو محرومیوں کا سامنا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے مسائل اور ثقافت میں بڑا فرق ہے۔ ان کے مطابق، شہری علاقوں کے مسائل پر صوبائی حکومت کی جانب سے مناسب توجہ نہیں دی جاتی اور ایک نئے صوبے سے بہتر انتظامی کنٹرول، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شہری علاقوں کے لوگوں کو زیادہ نمائندگی مل سکے گی۔
سندھ کی تقسیم کی سخت مخالفت صوبے کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ صوبوں کی تقسیم کسی کے حق میں نہیں ہے ویسے تو عام آدمی یا ورکرز کے لیے یہ اچھا لگے گا جیسے قوم پرست نتظیموں نے سندھ کی علیحدگی کے نعرے لگائے تھے۔
مزید پڑھیے: ’دودھ دینے والی گائے، کہیں مر ہی نہ جائے‘: مصطفیٰ کمال کی شہری علاقوں کی محرومیوں‘ پر گفتگو
انہوں نے کہا کہ اس سے سندھ علیحدہ تو نہیں ہوا ایسے ہی مہاجر صوبے کا نعرہ لگا کر شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے کچھ لوگوں کو سبز باغ دیکھا دیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں اور اگر ہوا ایسا تو حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔
رفعت سعید کا کہنا ہے کہ اس ملک میں سیاست کی صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامی بنیاد پر بھی صوبہ بنانے کو صوبے کی تقسیم سمجھا جاتا ہے اور صوبے کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کی جا رہی سب مرنے مارنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بات چیت کی سیاست نہیں رہی جب مکالمہ ہوا کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرزا جواد بیگ ہوا کرتے تھے جنہوں نے کہا تھا کہ انتظامی طور پر پاکستان کے 32 صوبے بنا دو تو کہ مسائل حل ہو سکیں، بات کی جاتی ہے پنجاب کی تو وہاں زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہے وہاں بھی بات سب کرتے ہیں لیکن اس وقت عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کی لوکل باڈیز کے حوالے سے مجوزہ ترمیم پر مزید مشاورت کی جائےگی، وزیراعظم
ایم کیو ایم پاکستان کے حوالے سے رفعت سعید کا کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ مطمئن تھے کہ ان کی بات رکھی جائے گی لیکن ان کی باتوں کو جگہ نہ مل سکی، ہو سکتا ہے انہیں 28 ویں ترمیم میں کوئی آسرا دیا جائے۔
رفعت سعید نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو بات کہے گی اس کو ماننی ہوگی اور ویسے بھی اب یہ تقسیم ہوچکی ہے اور پہلے جیسی ایم کیو ایم نہیں رہی اور نہ ہی اسے ماضی والی ایم کیو ایم بننے دیا جائے گا۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حمید سومرو نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبے کے معاملات 70 کی دہائی میں شروع ہوئے ممتاز علی بھٹو کے دور میں وہ بھی لسانی بنیاد پر اس وقت یہ آواز سامنے آئی کہ شہری علاقوں کو الگ حیثیت دی جائے اس کے بعد پھر ایم کیو ایم سے نقشے بھی برآمد ہوئے اور مطالبات بھی سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے کو مہاجر کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور جیسے پیپلز پارٹی سندھ کارڈ کھیلتی ہے ویسے ایم کیو ایم مہاجر کارڈ کھیلتی ہے کیوں کہ یہ لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ایم کیو ایم پنجاب کا اجلاس، بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان
ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم سیاسی ہمدردیاں حاصل کر رہی ہے اس وقت مسائل حل نہ ہونے کے باعث لوگوں میں احساس محرومی ہے اور یہ اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ بننا اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ آئین کے مطابق متعلقہ صوبے کی اسمبلی ایک تہائی اکثریت سے بل پاس کرے گی، اس کے بنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی کارڈ ہے جو ہر صوبے میں مختلف اوقات میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن سوائے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا۔
تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی ناقص اور گورننس بدترین ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کی ترقی کو رکی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے تاجر اور عوام کبھی فیلڈ مارشل کو تو کبھی چیف جسٹس آف پاکستان کو پکارتے ہیں اور کراچی کے انتظامی معاملات سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم پاکستان سے اپیل کی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: نئے صوبے 3 ٹیلی فون کی مار ہیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو فون کریں اور ترمیم کرالیں، حافظ نعیم
عتیق میر کے مطابق کراچی الگ صوبہ نہ بھی بنائیں لیکن اس کا انتظامی ڈھانچہ سندھ سے الگ ہونا چاہیے تا کہ کراچی کے عوام و تاجر کراچی اور ملک کے لیے مل کر کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کا پورا ڈھانچہ درہم برہم ہے جبکہ میئر کراچی جو پیپلز پارٹی کے ہیں اور ان کا تعلق بھی کراچی سے ہے ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔
عتیق میر نے کہا کہ اگر لفظ صوبہ پیپلز پارٹی کو گراں گزرتا ہے تو صوبہ بھلے نہ بنے لیکن اس کے معاملات الگ ہوں جو صرف اور صرف کراچی کے لیے ہوں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم ایم کیو ایم اور مسئلہ کراچی پیپلز پارٹی علیحدگی پسند جماعتیں مسئلہ کراچی