Jasarat News:
2025-11-18@21:09:25 GMT

پُر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا حملہ

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، عالمی دہشت گرد ریاست اسرائیل کی فوج نے تمام بین الاقوامی ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کر دیا ہے اور ظالم اسرائیلی فوجی اہلکار انسانی ہمدردی کے تحت غزہ میں محصور فلسطینی باشندوں کے لیے خوراک اور دوسرا امدادی سامان لے جانے والے بحری قافلے کے جہازوں میں داخل ہو گئے ہیں اور ان جہازوں پر سوار امدادی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبردار رضا کاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلہ میں شامل کشتیوں کے غزہ کے قریب پہنچنے پر ان پر سوار افراد کی حفاظت کے پیش نظر فلو ٹیلا کے منتظمین نے براہ راست ویڈیو ٹیلی کاسٹ کرنا شروع کر دی تھی تاہم اسرائیلی فوجیوں نے جہازوں اور کشتیوں پر حملہ کے فوری بعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ کیمرے بند کروا دیے اور اس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ امدادی کارکن اور رضا کار ایک ’’قانونی بحری ناکہ بندی‘‘ کی خلاف ورزی کی کوشش کر رہے تھے۔ اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام اور مسلمہ بین الاقوامی قانون، جس کی رو سے انسانی امداد کے قافلوں کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا، کی خلاف ورزی پر عالمی سطح پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اٹلی کی سب سے بڑی ورکرز یونین نے صمود فلوٹیلا کے ساتھ اسرائیلی فوج کی طرف سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف جمعہ کے روز احتجاج کے طور پر عام ہڑتال کی کال کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں اطالوی وزیر خارجہ زنتونیو تا جانی نے کہا تھا کہ ان کے اسرائیلی ہم منصب نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اسرائیلی افواج فلوٹیلا کے رضا کاروں پر کسی قسم کا تشدد نہیں کریں گی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانجیسکا البانیز اور کولمبیا کے صدر گستاد پیئرو نے مطالبہ کیا ہے کہ فلو ٹیلا کو کسی رکاوٹ اور نقصان کے بغیر آگے بڑھنے دیا جائے۔ فلوٹیلا کے ایک جہاز پر سوار امریکی خاتون رضا کار لیلیٰ مجازی نے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام کے ذریعے دنیا کو بتایا ہے ہے کہ میرے اس ویڈیو پیغام جاری کرنے کا مطلب ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے ہمیں اغواء کر لیا ہے اور ہمیں ہماری مرضی کے خلاف زبردستی اسرائیل لے جایا جا رہا ہے، لیلیٰ مجازی نے اپنے اس پیغام میں عالمی رائے عامہ پر زور دیا ہے کہ ’’میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ امریکی حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کی سرپرستی اور شراکت ختم کرے اور فلوٹیلامشن میں موجود انسانی ہمدردی کے تمام کارکنوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کا مقصد اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کا غیر انسانی اور غیر قانونی محاصرہ توڑنا، محصورین تک خوراک اور انسانی امداد پہنچانا اور غزہ کے لیے ایک انسانی راہداری قائم کرنا ہے۔ اس مشن کو بین الاقوامی سول سوسائٹی کی طرف سے منظم کیا گیا ہے۔ ’صمود‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مزاحمت اور استقامت ہے۔ اس مشن میں دنیا بھر کے انسانی حقوق کے کارکنان، ڈاکٹر، وکلا، سیاست دان، فنکار اور انسانی حقوق سے متعلق مختلف تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں۔ کم و بیش پچاس کشتیوں پر سوار چوالیس سے زائد ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان رضا کاروں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے۔ سول سوسائٹی کے زیر اہتمام یہ اپنی نوعیت کی تاریخ کی سب سے بڑی بحری مہم بتائی جاتی ہے۔ اس مہم میں شریک کشتیوں اور جہازوں نے اسپین کے شہر بار سلونا اور تیونس سمیت مختلف بندر گاہوں سے اپنا سفر شروع کا تھا اور اب اکٹھے ہو کر غزہ کی جانب بڑھتے ہوئے وہاں کی ناکہ بندی توڑنے اور وہاں محصور فلسطینی باشندوں کو خوراک، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں۔ فلوٹیلا میں ایک وفد پاکستان کی نمائندگی بھی کر رہا ہے اس پاکستانی وفد کی قیادت جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خاں کر رہے ہیں جنہوں نے فلوٹیلا کے آغاز سے اسرائیلی فوج کے اس پر حملے تک مسلسل پاکستانی عوام سے رابطہ رکھا اور گلوبل صمود فلوٹیلا کے سمندر کی لہروں پر سفر اور سرگرمیوں کے بارے میں اپنے اہل وطن اور دنیا بھر میں اردو سمجھنے والوں کو آگاہ اور باخبر رکھا۔ اس بحری قافلے میں معروف ماحولیاتی کارکن گرینا تھنبرگ، فراسیسی سیاست دان میری میسحود اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن سمیت انسانیت کا درد رکھنے والے مختلف مذاہب، مختلف ممالک اور مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والے مختلف رنگ و نسل کے متعدد اہم لوگ شامل ہیں۔ اسرائیل نے قافلہ کے شرکاء کو اپنی فوج کے ذریعے باقاعدہ حراست میں لینے سے قبل ڈرونز کی پروازوں کے ذریعے رضا کاروں کو خوفزدہ کرنے کی متعدد کوششیں کیں تاہم بحری بیڑے کے رضا کاروں نے آخر دم تک ہمت نہیں ہاری اور کوئی کمزوری دکھائے بغیر بلند حوصلوں کے ساتھ اپنی طے شدہ منزل مقصود کی جانب استقامت اور پامردی سے سفر جاری رکھا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے قافلے کے شرکاء کو گرفتار کرنے سے قبل فلوٹیلا میں شامل ’الما‘ نامی مرکزی کشتی کے جی پی ایس اور انٹرنیٹ سسٹم پر سائبر حملہ کر کے اس سے باقی دنیا کا رابطہ منقطع کر دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان کے ذریعہ گلوبل صمود فلوٹیلا اور اس کے رضا کاروں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ریاستوں کی مسلسل بے عملی نے دنیا بھر کے انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے کارکنوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ محاصرہ توڑنے کے لیے پر امن اقدامات کریں ریاستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فلوٹیلا کو محفوظ راستے کی ضمانت دیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ ریاستیں کہاں ہیں جن سے ایمنسٹی انٹرنیشنل، فلوٹیلا کے تحفظ و سلامتی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کی دعوے دار دنیا میں ان ریاستوں کا کوئی وجود ہوتا تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی ہمت ہی کیوں ہوتی؟ اب ان سب ریاستوں کی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے مکمل طور پر پرامن قافلے کو روک ہی نہیں لیا بلکہ ان رضا کاروں کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں امن اور انسانی حقوق کی ان نام نہاد علم بردار ریاستوں کو غزہ میں انسانیت کا بہتا ہوا خون کیوں نظر نہیں آتا۔ بھوک سے بلکتے بچے، ادویات اور علاج معالجہ سے محروم زخموں سے چور کراہتے ہوئے نہتے اور بے بس شہری اور بے یارو مدد گار، مظلوم، مجبور اور محصور خواتین کیوں دکھائی نہیں دیتیں کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے کہ یہ مظلومین اور محصورین مسلمان ہیں اور بے دریغ بہایا جانے والا یہ خون مسلمانوں کا ہے…؟ امریکی صدر ٹرمپ کی تمام دھمکیاں اور الٹی میٹم آخر ’حماس‘ اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں ہی کے خلاف کیوں بروئے کار آتے ہیں وہ آخر اسرائیل کو بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، بین الاقوامی قوانین کی پابندی اور بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ و سلامتی پر مجبور کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے؟؟

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گلوبل صمود فلوٹیلا بین الاقوامی اسرائیلی فوج فلوٹیلا کے رکھنے والے اور انسانی رضا کاروں کیا ہے کہ پر سوار اور بے کے لیے اور ان

پڑھیں:

صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا کر قبضہ گیروں کیلئے کھول دیا

مقبوضہ بیت المقدس (ویب ڈیسک) اسرائیلی فورسز نے ہبرون (الخلیل) کے قدیمی شہر میں کرفیو عائد کر دیا اور تاریخی ابراہیمی مسجد کو مسلم عبادت گزاروں کے لیے بند کر دیا ہے تاکہ غیر قانونی آبادکار یہودی تعطیلات منا سکیں۔

مقامی سرگرم کارکنوں کے مطابق اسرائیلی فورسز نے قدیمی شہر کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے فلسطینی شہریوں کو اپنے گھروں تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی اور انہیں حیبرون میں رشتہ داروں کے یہاں رات گزارنی پڑی۔

یہ کرفیو اسرائیل کی جانب سے ابراہیمی مسجد کے باقی حصے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے ایک عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کی کوششوں کے دوران لگایا گیا ہے۔

یہودیوں کے جشن سیرا ڈے کے موقع پر اسرائیل نے یہ اقدام اٹھایا ہے جو ہر سال ہبرون میں تاریخی یہودی موجودگی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے، تاریخی ابراہیمی مسجد 1994 میں تقسیم کی گئی تھی، اسرائیل نے مسجد کے 63 فیصد حصے کو یہودی عبادت کے لیے مختص کر دیا تھا جبکہ صرف 37 فیصد حصہ مسلمانوں کے لیے برقرار رکھا۔

اسرائیل نے مسجد کو سالانہ 10 اسلامی تعطیلات کے دوران مکمل طور پر بند کرنے کا انتظام کیا ہے جبکہ مسلمانوں کو ان کی تعطیلات کے دوران مکمل رسائی نہیں دی گئی۔

ابراہیمی مسجد ہبرون یعنی الخلیل کے قدیمی شہر میں واقع ہے جو اسرائیلی فوج کے مکمل کنٹرول میں ہے اور یہاں تقریباً 400 غیر قانونی آبادکار مقیم ہیں جن کی حفاظت کے لیے 1500 اسرائیلی فوجی موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں پر چاقو بردار شخص کا حملہ؛ ایک ہلاک اور 3 زخمی
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • غزہ میں کوئی بھی انسانی شکار کھیل سکتا ہے
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فورس پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ
  • فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی
  • سفاک اسرائیلی رژیم کی اندھی حمایت پر "جرمن چانسلر" کا اظہار فخر
  • صیہونی افواج نے تاریخی ابراہیمی مسجد کو کرفیو لگا کر قبضہ گیروں کیلئے کھول دیا
  • مغربی کنارہ: اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد کو آگ لگا دی، دیواروں پر گستاخیِ رسول جملے بھی تحریر
  • یہودیوں کا مغربی کنارے میں مسجد پر حملہ، توڑ پھوڑ، آگ لگا دی