پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی میں قائم ورچوئل سنٹر فار چائلڈ سیفٹی نے گمشدہ بچوں اور خصوصی افراد کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیا۔ تفصیلات کے مطابق فلاحی اداروں کا ڈیٹا ’میرا پیارا‘ ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک کرنے کے نتیجے میں اب تک 430 سے زائد گمشدہ بچے، خصوصی افراد اور لاوارث شہری اپنے اہلخانہ اور سرپرستوں کے حوالے کئے گئے ہیں۔ یہ افراد طویل عرصے سے مختلف فلاحی اداروں اور شیلٹر ہومز میں مقیم تھے۔ سیف سٹی کی میرا پیارا ٹیم نے صوبہ بھر کے ایدھی سنٹرز، چائلڈ پروٹیکشن بیوروز اور دیگر فلاحی اداروں کا دورہ کر کے گمشدہ افراد کے انٹرویوز اور ویڈیوز تیار کیں۔ ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر مخصوص علاقوں میں چلایا گیا جس کے نتیجے میں اہلخانہ نے اپنے پیاروں کو پہچان کر فوری طور پر سیف سٹی ٹیم سے رابطہ کیا۔ شناخت اور قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد یہ افراد والدین اور سرپرستوں کے سپرد کر دیے گئے۔ اب تک مختلف فلاحی اداروں کے 1400 سے زائد لاوارث اور گمشدہ افراد کا مکمل ریکارڈ ’میرا پیارا‘ سسٹم میں شامل کیا جا چکا ہے۔ اس جدید نظام میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس  کے ذریعے فیشل ریکاگنیشن اور ڈیٹا میچنگ جیسی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جن کی بدولت گمشدہ افراد کی شناخت ممکن ہو رہی ہے ترجمان پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے مطابق میرا پیارا ٹیم دن رات کوششوں کے ذریعے گمشدہ اور لاوارث بچوں کو تلاش کر کے ان کے والدین اور سرپرستوں کے سپرد کر رہی ہے۔ اگر کسی شہری کو کوئی گمشدہ یا لاوارث بچہ یا شخص ملے تو فوری طور پر پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کریں اور نمبر 3 ڈائل کر کے اطلاع دیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: فلاحی اداروں میرا پیارا

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیلِ نو کر دی گئی ہے۔ان تبدیلیوں کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے جج جسٹس عامر فاروق کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں شامل کر لیا گیا ہے۔تین اہم قانونی اداروں میں سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچز بنانے اور مقدمات مقرر کرنے کی ذمے دار ہے جب کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کرتی ہے۔ان اداروں کی تشکیل نو 27ویں ترمیم کے مطابق ضروری تھی۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد ان اداروں کو نئے قواعد کے مطابق دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق عدالت عظمیٰ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس جمال مندوخیل کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن نامزد کیا ہے۔اب سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین میں چیف جسٹس آف پاکستان، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہوں گے۔ترمیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان یا وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سینئر ترین جج کرے گا، اور اس صورت میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ہی اس کے سربراہ رہیں گے۔مزید یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی جسٹس جمال مندوخیل کو شامل کر لیا گیا ہے اب یہ کمیٹی چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل ہو گی۔اسی طرح وفاقی آئینی عدالت کے دوسرے سینئر جج جسٹس عامر فاروق کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت نے مشترکہ طور پر جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نمائندے احسن بھون، قومی اسمبلی کے 2 ارکان، سینیٹ کے 2 ارکان اور ایک خاتون یا غیر مسلم رکن (جسے اسپیکر نامزد کریں گے) شامل ہوں گے۔پریس ریلیز کے مطابق یہ ادارے اب نئے آئینی ڈھانچے کے تحت احتساب، عدالتی تعیناتیوں اور عدالتی انتظامی امور میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔یہ تبدیلیاں اس پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا بڑا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے، اس ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا ہے، جس پر اپوزیشن اور کئی قانونی ماہرین نے تنقید کی ہے۔بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے بھی ترمیم، خصوصاً وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل، ججوں کے تقرر، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ترتیب، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے اور صدر اور عسکری قیادت کو دیے گئے استثنا پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔آئی سی جے کے مطابق اس ترمیم کے بعد عدالت عظمیٰ بنیادی طور پر اپیل کا فورم رہ جائے گی اور آئینی تشریح کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائے گا۔
آئی سی جے نے مزید کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے جج کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مقرر کریں گے جبکہ مستقبل کی تعیناتیاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر ہوں گی، لیکن ترمیم میں تعیناتی کے معیار یا اصول واضح نہیں کیے گئے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو
  • نوابشاہ ،والدین میں تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فیسوں پر تشویش
  • ٹام کروز کا 45 سالہ انتظار ختم، بالآخر پہلا آسکر مل گیا
  • ٹام کروز کا 45 سالہ انتظار ختم، بالآخر پہلا آسکر مل گیا
  • پاکستان پر دو بڑے سائبر حملے ناکام بنائے جانے کا انکشاف
  • بھارتی اداکارہ میرا وسودیون کا اپنی تیسری طلاق کا اعلان
  • خواجہ آصف کی بات درست نہیں، میرا کوئی مدرسہ غیر قانونی نہیں، وزیر ریلوے حنیف عباسی
  • ایرانی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون کرنیوالے اسرائیلی شہری شمعون ازرزر کے ایک سال پر محیط رابطے بے نقاب
  • ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، جماعت اسلامی
  • میرا نام کلیک بیٹ نہ بنائیں: نورا فتیحی کا ڈرگ سنڈیکیٹ سے منسوب الزامات پر شدید ردعمل