عوامی جمہوریہ چین قیام سے سپر پاور تک کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیشرفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ تحریر: سید اسد عباس
میری نظر میں کالم کو واضح، مدلل اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیئے، اگر کسی بھی کالم میں یہ خصوصیات نہیں ہیں تو وہ الفاظ کا انبار ہے، جو سوشل میڈیا کی دنیا میں ذہن پر ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ کسی بھی سیاسی واقعہ، خبر کے بارے میں جب کچھ لکھا جائے تو اس میں ایسی بات ضرور ہونی چاہیئے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرے۔ حال دل! یہ ہے کہ انسانی معاشرے کے متعدد مسائل نگاہوں کے سامنے کسی عفریت کی صورت میں آتے ہیں، دماغ ان کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم کرتا ہے اور پھر ایک بڑا عفریت چھوٹے عفریت کی جگہ لے لیتا ہے۔ ان مسائل میں سے مسئلہ فلسطین ، امت مسلمہ کے عوام کی بے بسی، مسلم حکمرانوں کی بے حسی ایسی حقیقتیں ہیں، جن کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ تقریباً بیس لاکھ انسان گذشتہ دو برس سے آگ، خون، بھوک، پیاس، بیماری اور جبری نقل مکانی کی لپیٹ میں ہیں اور دنیا ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔
دل تو چاہتا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے پر لکھوں، آٹھ مسلم ممالک کی اس معاہدے کے حوالے سے تجاویز کو زیر غور لاؤں، پاکستان میں ٹرمپ کے بیان کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل اس امن منصوبے کے حامی ہیں، اس پر پیدا ہونے والی بے چینی پر غور کروں، مگر دماغ کہتا ہے کہ جو قوم اپنے آئین کی حفاظت نہیں کرسکتی، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گی۔؟ کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں غزہ پر بے چینی کا کام ان اقوام پر چھوڑ دینا چاہیئے، جو کچھ کرسکنے کی حیثیت میں ہیں۔ شائد ہمارا دشمن بھی یہی سوچتا ہو کہ کھاتے قرض لے کر ہیں، اپنے ملک کی سکیورٹی سنبھالی نہیں جاتی اور چلے ہیں دنیا کے مسائل حل کرنے۔ بہرحال جیسے بھی ہو، مظلوم کی حمایت نہیں رکنی چاہیئے اور یہ حمایت بصیرت کی بنیاد پر ہو، عادت کے تحت نہیں۔ حمایت مظلوم کا رسم ہونا بھی برا نہیں ہے، تاہم اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ حمایت آپ کے اخلاق کو تو بہتر بناتی ہے، تاہم اس سے مظلوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
میں آج فلسطین، مسلم امہ، مسلم حکمران، صمود فلوٹیلا پر کچھ نہیں لکھ رہا، جو الفاظ ادا کیے، ان کو شقشقیہ سمجھ کر درگرز فرمائیں۔ میرا آج کا موضوع معاشروں میں انقلاب اور ان کے اسباب و اہداف ہیں۔ اس تحریر کا سبب پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے "دی نیوز" کی چند روز قبل کی اشاعت میں بیسویں صدی کے انقلابوں کے حوالے سے شائع ہونے والا ایک کالم ہے۔ کالم نویس لکھتے ہیں: "بیسویں صدی کو انقلابوں کا دور کہا جاتا ہے، جس کا آغاز 1917ء کی روسی بالشویک انقلاب سے ہوا اور بعد ازاں مارکسزم سے متاثر کئی ممالک میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اسی صدی میں سامراجی نظام کے خاتمے سے کئی ایشیائی و افریقی ریاستیں آزاد ہوئیں، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، تاہم عوامی جمہوریہ چین کا قیام ان سب میں ایک بڑا واقعہ ہے۔
روسی انقلاب نے سوویت یونین کو جنم دیا، جو نصف صدی تک دنیا کی ایک سپر پاور رہا، مگر 1991ء میں ختم ہوگیا۔ کیوبا کا انقلاب علامتی حیثیت ضرور رکھتا ہے، مگر آج اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1979ء کا ایرانی انقلاب ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے مذہب کو تبدیلی کی قوت کے طور پر پیش کیا اور آیت اللہ خمینی کی واپسی نے مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو نئی جان بخشی۔" وہ مزید لکھتے ہیں: "چین کی انقلابی جدوجہد ماؤ کی قیادت میں کسانوں اور مسلح مزاحمت پر مبنی تھی۔ صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس ملک نے 19ویں صدی میں زوال کا سامنا کیا، لیکن 1949ء کے بعد آزادی اور خود مختاری حاصل کی۔ مغربی ناقدین ماؤ اور کمیونسٹ پارٹی کو آمریت اور انتہاء پسندی کا الزام دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی انقلابی اقدامات نے صدیوں کی ذلت کے بعد چین کو ایک مضبوط قوم بنایا اور اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی۔
زرعی اصلاحات اور محنت کش صنعت کاری سے معیشت میں تیزی آئی اور 1960ء کی دہائی میں 3.
میں اس موضوع پر ایک عرصے سے سوچ رہا ہوں، چین میں بر سر اقتدار جماعت کو دیکھا جائے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کی مخالف جماعت ہے، چین کا مقابلہ اسی قوت سے ہے، تاہم چین نے گذشتہ 76 برسوں میں اس خاموشی سے کام کیا کہ اب کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔ 90 کی دہائی کی بات ہے، میں سی این این کی نشریات باقاعدہ طور پر دیکھا کرتا تھا، امریکی نشریاتی ادارہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، چین میں جمہور مخالف اقدامات کے حوالے سے باقاعدہ ڈاکومنٹریز پیش کرتا تھا۔ امریکیوں کو اندازہ تھا کہ چین مستحکم ہو رہا ہے، تاہم دوسری بڑی معیشت یا فوجی قوت بن رہا ہے، یہ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ممکن ہے مغرب یہ سمجھتا ہو کہ چین اگر کچھ بن بھی جائے، وہ تنہا ہمارے عالمی تسلط کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کا انقلاب یا فکر نظریاتی توسیع کے بجائے قومی استعداد کے فروغ پر مرکوز ہے۔
ممکن ہے کہ بعض مغربی دانشور یہ سمجھتے ہوں کہ چین آج نہیں تو کل ضرور ہمارے مقابل آکھڑا ہوگا، تاہم ان کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی ہو یا پھر چین کا نظام کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے بروقت حرکت میں آیا ہو۔ بہرحال یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیش رفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ باقی باتیں پھر کسی تحریر میں۔(ان شاء اللہ)
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایک الگ ریاست تائیوان چین ہانک کانگ دوسری بڑی کے معاملے سب سے بڑا دنیا کی چین نے کے لیے
پڑھیں:
گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
اسلام ٹائمز: گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے کہ ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ
دنیا آج کئی بحرانوں کی زد میں ہے۔ جنگیں، معاشی ابتری، بھوک اور بے روزگاری جیسے مسائل تو ہیں ہی، مگر سب سے بڑا بحران وہ ہے جسے ماہرینِ سائنس اور عالمی ادارے صدی کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں: ماحولیاتی تبدیلی۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، برف کے پہاڑوں کا پگھلنا، سمندروں کا بڑھتا ہوا شور اور جنگلات کی کٹائی نے زمین کو ایک ایسے خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں انسانی بقا خطرے میں ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے رہنما کانفرنسوں میں تقریریں تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات کم نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایک کم سن لڑکی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ لڑکی ہے سویڈن کی گریٹا تھن برگ، جو صنفِ نازک کے باوجود ایک مردِ آہن کی مانند ڈٹ کر دنیا کی طاقتوں کو للکارتی ہے۔
گریٹا ٹنٹن ایلینورا ارنمَن تھن برگ ۳ جنوری 2003ء کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک فنکار گھرانے سے ہے۔ والدہ ملینا ارنمَن عالمی شہرت یافتہ اوپیرا سنگر ہیں اور والد سوانتے تھن برگ ایک اداکار۔ فنونِ لطیفہ سے جڑے اس گھرانے نے گریٹا کی شخصیت میں اعتماد اور اظہار کی قوت پیدا کی، مگر ان کی اصل پہچان فن نہیں بلکہ ماحولیات سے جڑی فکر بنی۔ گریٹا صرف آٹھ برس کی تھیں جب انہوں نے اسکول میں گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پڑھا۔ وہ کئی دن اس سوچ میں گم رہیں کہ اگر دنیا اسی طرح تباہ ہوتی رہی تو مستقبل کی نسلوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوال ان کے ذہن میں بیٹھ گیا اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔
انہیں ایسپرگر سنڈروم (Asperger Syndrome) لاحق ہے، جو آٹزم اسپیکٹرم کی ایک کیفیت ہے۔ عموماً لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں، مگر گریٹا اسے اپنی طاقت قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کیفیت انہیں غیر معمولی توجہ اور استقامت عطا کرتی ہے۔ 20018ء میں گریٹا صرف پندرہ سال کی تھیں جب انہوں نے اسکول چھوڑ کر سویڈش پارلیمنٹ کے باہر احتجاج شروع کیا۔ ان کے ہاتھ میں ایک تختی تھی جس پر لکھا تھا: ’’Skolstrejk för klimatet‘‘ (یعنی: ماحولیاتی تبدیلی کے لیے اسکول سٹرائیک)۔ شروع میں وہ اکیلی تھیں، مگر ان کی خاموش بیٹھک نے میڈیا اور عوام کی توجہ کھینچ لی۔
رفتہ رفتہ یہ احتجاج دنیا بھر میں پھیل گیا۔ لاکھوں طلبہ ہر جمعہ اسکول چھوڑ کر سڑکوں پر نکلنے لگے اور ماحولیات کے تحفظ کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس تحریک کو ’’Fridays for Future‘‘ کا نام ملا۔ گریٹا کی تحریک نے انہیں عالمی رہنما بنا دیا۔ وہ یورپی پارلیمان، ورلڈ اکنامک فورم، اور اقوامِ متحدہ جیسے بڑے فورمز پر مدعو کی گئیں۔ ستمبر 2019ء میں نیویارک میں منعقدہ ’’Climate Action Summit‘‘ میں ان کی تقریر نے دنیا کو ہلا دیا۔ ان کا جملہ ’’How dare you‘‘ آج بھی ماحولیاتی تحریک کا استعارہ ہے۔ گریٹا نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ اپنی وقتی آسائشوں کے لیے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو برباد کر رہے ہو۔
2019ء میں ٹائم میگزین نے گریٹا کو ’’Person of the Year‘‘ قرار دیا۔ وہ سب سے کم عمر شخصیت تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ ان کی تقاریر کا مجموعہ ’’No One Is Too Small to Make a Difference‘‘ شائع ہوا، جو دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ ان پر دستاویزی فلم ’’I Am Greta‘‘ (2020ء) ریلیز ہوئی، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔ جہاں گریٹا کو بے پناہ حمایت ملی، وہیں انہیں سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ برازیل کے صدر جائر بولسونارو نے انہیں ’’brat‘‘ کہا، اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان کا مذاق اڑایا لیکن گریٹا نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ کہتی ہیں: ’’میں چاہتی ہوں لوگ مجھے نہیں، بلکہ سچائی کو سنیں۔‘‘
گریٹا نے اپنی آواز صرف ماحولیاتی مسائل تک محدود نہیں رکھی بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے لیے بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے یوکرین جنگ پر متاثرین کی حمایت کی اور فلسطین میں جاری انسانی بحران پر بھی بارہا احتجاج کیا۔ ان کے مطابق، انسانی بقا اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے مسائل ہیں۔ اکتوبر 2025ء میں گریٹا تھن برگ ایک مرتبہ پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ وہ ایک بین الاقوامی قافلے ’’Global Sumud Flotilla‘‘ کا حصہ تھیں، جس میں تقریباً 40 کشتیوں پر 500 سے زائد کارکن، وکلاء اور سیاسی رہنما سوار تھے۔ اس قافلے کا مقصد غزہ کی محصور آبادی کے لیے انسانی امداد پہنچانا تھا۔
تاہم اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں ان کشتیوں کو گھیر لیا اور انہیں اشدود بندرگاہ کی طرف موڑنے پر مجبور کیا۔ اس دوران گریٹا سمیت درجنوں کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا کہ ’’گریٹا اور ان کے ساتھی محفوظ ہیں‘‘ مگر دنیا بھر میں اس کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گریٹا کی جدوجہد محض ماحولیات تک محدود نہیں بلکہ وہ ہر اس جدوجہد میں شامل ہوتی ہیں جہاں انسانیت کو دبایا جاتا ہے۔ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ان کی ہمت اور اصول پسندی کو واضح کرتا ہے۔
گریٹا تھن برگ آج کروڑوں نوجوانوں کے لیے امید کی علامت ہیں۔ ان کا پیغام سادہ ہے: ’’کوئی بھی شخص اتنا چھوٹا نہیں کہ فرق نہ ڈال سکے۔‘‘ یہی پیغام دنیا کے ہر اس نوجوان کو حوصلہ دیتا ہے جو مایوس ہے کہ وہ تنہا کیا بدل سکتا ہے۔ گریٹا نے عملی طور پر دکھا دیا کہ ایک پندرہ سالہ بچی اکیلی بیٹھ کر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کر سکتی ہے۔ گریٹا تھن برگ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں۔
گریٹا تھن برگ صنفِ نازک میں مردِ آہن ہیں، جو اپنے عزم اور استقامت سے دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کو للکارتی ہیں۔ چاہے ماحولیات کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلوم عوام کا درد، گریٹا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچائی اور حوصلہ سب سے بڑی طاقت ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل طاقت دولت، اسلحہ یا حکومت میں نہیں، بلکہ اصول پسندی اور جرات میں ہے۔ آج اگر دنیا کو بچانا ہے تو ہمیں گریٹا کی طرح سچ بولنے اور عمل کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔