آزاد کشمیر بحران حل ہوگیا، حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی معاہدے پر متفق
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
آزاد کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی وفد کے درمیان جاری کشیدگی آخرکار بات چیت کے ذریعے ختم ہوگئی۔
مظفر آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فریقین نے باضابطہ اعلان کیا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔ اس پیش رفت کو سیاسی قیادت اور عوامی نمائندوں نے نہ صرف عوامی مسائل کے حل کی طرف ایک بڑی کامیابی قرار دیا بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں امن اور استحکام کی نئی امید بھی جاگی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن رانا ثناء اللہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے جائز مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فریقین نے ایک مشترکہ لیگل ایکشن کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو ہر 15 روز بعد اجلاس منعقد کرکے مسائل اور شکایات کو براہ راست دیکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے بعد کشیدگی کے تمام اسباب ختم ہوگئے ہیں اور عوامی مسائل اب ادارہ جاتی مکینزم کے ذریعے حل ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ کچھ عناصر یہ چاہتے تھے کہ مسئلہ مزید بگڑے لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں امن قائم رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور معاہدے کے بعد کسی کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے معاہدے کو پاکستان، آزاد کشمیر اور جمہوریت کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں عوامی مسائل کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو دانشمندانہ فیصلوں اور باہمی مکالمے کے ذریعے پرامن انداز میں حل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نہ تشدد ہوا، نہ تقسیم پیدا ہوئی بلکہ باہمی احترام کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ نکالا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت عوام کی آواز سنتی ہے اور عوام مثبت انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں تو ہر مسئلے کا حل نکل آتا ہے۔
حکومتی مذاکراتی وفد کے رکن طارق فضل چوہدری نے بھی تصدیق کی کہ حتمی معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ امن کی فتح ہے اور معاہدے کے بعد مظاہرین اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں جبکہ تمام سڑکیں بھی کھل گئی ہیں۔
معاہدے کی شرائط کے مطابق یکم اور 2 اکتوبر کو جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے گا اور پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں پر انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔ یہ پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ سیاسی قیادت اور عوامی نمائندے مسائل کو حل کرنے کے لیے مکالمے اور مشاورت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال کے حل کے لیے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں رانا ثناء اللہ، طارق فضل چوہدری، احسن اقبال، سردار یوسف، امیر مقام کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ اور راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کی مسلسل کوششوں کے بعد آج کشیدگی ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نئے اعتماد اور ہم آہنگی کا آغاز ہوا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ایکشن کمیٹی اور عوامی ہے اور کہا کہ کے بعد
پڑھیں:
وکلاء ایکشن کمیٹی اجلاس، وفاقی آئینی عدالت بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف
اسلام آباد(نیوزڈیسک)27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف سامنے آگیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں پہلے وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا بعد میں بائیکاٹ کو بار ایسوسی ایشنز کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی میزبانی میں آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی میٹنگ لاہور ہائیکورٹ بار کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک، سینئیر قانون دان اعتزاز احسن، حامد خان، لطیف کھوسہ، شفقت چوہان، اشتیاق اے خان، سابق جج لاہور ہائیکورٹ شاہد جمیل اور دیگر نے شرکت کی۔
میٹنگ کے دوران شرکا نے 27ویں آئینی کے خلاف لائحہ عمل بنانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں، صدر لاہور ہائیکورٹ بار آصف نسوانہ نے اعلان کیا کہ ہر جمعرات کو ارجنٹ کیسز کے بعد مکمل عدالتی بائیکاٹ ہوگا، جنرل ہاؤس اجلاس کے بعد ریلی نکالیں گے۔
آصف نسوانہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحریک صرف ہماری نہیں بلکہ ججز کی بھی ہے کیونکہ اس ترمیم سے سب سے زیادہ متاثر ججز ہوئے ہیں، لہٰذا امید کرتے ہیں کہ ججز بھی ہڑتال کی حمایت کریں گے۔ میٹنگ کے دوران حامد خان نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور وکلاء سے کہا کہ اس عدالت کا بائیکاٹ کیا جائے۔
تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن اور منیر اے ملک نے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ بالادست ہے لیکن میں کہتا ہوں آئین بالادست ہے۔
اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ جوڈیشری سے متعلق جو ایشو اٹھے اسے دبنے نہ دیا جائے، انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے یہ لمبی ریس ہے۔ ہمیں شروع میں ہی نہیں تھک جانا چاہیے۔
چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک نے بھی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کی، جس کے بعد وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے سے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی شق میں ترمیم کر کے اسے بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ انہیں قابل قبول نہیں تھے۔ وزیر قانون کے پاس نہ 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تھا نہ 27ویں ترمیم کا مسودہ تھا اس وقت آئین پر جو حملہ کیا گیا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی وفاقی آئینی عدالت کو مسترد کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودگی میں کسی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں اور موجودہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے۔