آزاد کشمیر میں پر تشدد احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بعد از خرابیٔ بسیار، آخر کار وزیر اعظم کو آزاد جموں و کشمیر میں جاری احتجاج کی نزاکت کا احساس ہو گیا ہے اور انہوں نے پر تشدد واقعات میں دوطرفہ جانی و مالی نقصان کے بعد ہدایت جاری کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین سے غیر ضروری سختی نہ برتیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش اور سخت نوٹس لیتے ہوئے شہریوں سے پر امن رہنے کی زور دار اپیل کی اور کہا ہے کہ ان کا ہر جائز مطالبہ تسلیم کیا جائے گا۔ جمعرات کو وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، تاہم مظاہرین امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی جذبات کا احترام یقینی بنائیں اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی سے اجتناب برتیں۔ حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ وزیر اعظم نے مظاہروں کے دوران ہونے والے ناخوشگوار واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم نے احتجاجی مظاہروں سے متاثرہ خاندانوں تک فوری امداد پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ مزید براں وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ مذاکراتی کمیٹی مسائل کا فوری اور دیر پا حل نکالے۔ وزیر اعظم نے ایکشن کمیٹی کے اراکین اور قیادت سے اپیل کی حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے تعاون کیا جائے، کمیٹی اپنی سفارشات اور مجوزہ حل بلاتاخیر وزیر اعظم آفس کو بھجوائے گی تاکہ مسائل کے فوری تدارک کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ وزیر اعظم نے وطن واپسی پر مذاکرات کے عمل کی نگرانی کا اعلان کر دیا۔ ادھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال چوتھے روز بھی جاری رہی اور مظاہرین کی ایک بڑی تعداد مظفر آباد کے لال چوک میں ان افراد کی میتوں کے ہمراہ موجود رہی جو ایکشن کمیٹی کے مطابق احتجاج کے دوران مبینہ طور پر سیکورٹی اداروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ احتجاج کے چوتھے روز بھی کشمیر کے مختلف مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں جب کہ پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کر لیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ تب تک میتوں کی تدفین نہیں کریں گے جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے۔ اس سے قبل مظفر آباد میں کم از کم دو افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کی غرض سے وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی مظفر آباد پہنچ گئی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ طارق فضل چودھری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستانی اعلیٰ سطح کے وفد کے مظفر آباد میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے باضابطہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ حکومتی وفد میں شامل وفاقی وزراء میں امیر مقام، طارق فضل چودھری، راناثناء اللہ، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، سردار یوسف، احسن اقبال اور مسعود شامل ہیں۔ وفاقی وزراء اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ آزاد جموں و کشمیر میں احتجاج اور خرابی کی یہ صورت حال اچانک پیدا نہیں ہو گئی۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے عوام کے حقوق اور علاقے کی گورننس کی صورتحال کی بہتری کے لیے کافی عرصہ سے مطالبات پیش کیے جا رہے تھے مگر حکومت انہیں سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں تھی جس پر ایکشن کمیٹی نے 29 ستمبر سے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال اور پہیہ جام کی کال دے دی جس کے پہلے ہی روز دارالحکومت مظفر آباد کے اہم تجارتی مرکز لوئر پلیٹ میں نیلم سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان گولی لگنے سے جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا۔ جس پر لوگوں میں اشتعال پھیلنا لازمی تھا چنانچہ مشتعل مظاہرین نے مرحوم نوجوان کی میت اٹھا کر احتجاج شروع کر دیا۔ نوجوان کے قتل کا الزام مسلم کانفرنس کے رہنما ثاقب مجید پر عائد کیا گیا اور مرحوم نوجوان کی تدفین کو ثاقب مجید کے خلاف مقدمہ کے اندراج سے مشروط کر دیا۔ مسلم کانفرنس کے رہنما ثاقب مجید نے بھی نوجوان کو اپنے گارڈز کی گولی لگنے سے انکار نہیں کیا بلکہ یہ موقف اختیار کیا کہ مظاہرین نے ان کی گاڑیوں اور محافظوں پر پتھرائو کیا اور گولی بھی چلائی جس کے جواب میں ان کے محافظوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی اور نوجوان اس فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہو گیا۔ ثاقب مجید کا بیان درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال اہم ہے کہ جب لوگ مشتعل تھے تو ثاقب مجید اور ان کے محافظوں کو ان کے قریب جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے محافظوں کی فائرنگ سے ہی نوجواں جاں بحق ہوا تو اس کے قتل کا مقدمہ درج ہونا توعین قانون اور انصاف کا تقاضا ہے جس سے انتظامیہ گریزاں اور انکاری ہے۔ انتظامیہ کے اسی رویہ کی وجہ اور ریاست کی رٹ کو ہر صورت برقرار رکھنے کے دعوئوں کے درمیان تین پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد کی جانیں جانے اور سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں اس قدر جانی نقصان کے باوجود ارباب اقتدار، بیورو کریسی اور پولیس حکام اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور دھونس اور ڈنڈے کے زور پر معاملات پر قابو پانے پر بضد ہیں چنانچہ اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب کے باہر عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہرہ کے بعد کارکنوں کی گرفتاری کے لیے کلب کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے دھاوا بول دیا۔ کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ کی اور وہاں موجود صحافیوں اور کلب کے کارکنوں پر لاٹھیاں برسائیں اور ملازمین کو بلاوجہ گرفتار کر لیا۔ اس پولیس گردی کے خلاف ملک بھر کے صحافی اور صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں ملک بھر کے پریس کلبوں میں جمعہ کے روز احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور کلیوں کی عمارتوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ صحافی برادری نے اس پولیس گردی کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے واقعہ میں ملوث پولیس حکام اور اہلکاروں کی برطرفی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے جو بھاری بھر کم مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے ارکان میں سے بھی بعض نے ماحول کی کشیدگی کم کرنے کے بجائے ایکشن کمیٹی کے ارکان اور مظاہرین کو دشمن کے آلۂ کار اور امن دشمن کے القابات دے کر جلتی پر تیل ڈالنے کا فریضہ ادا کیا ہے جب کہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ تشدد سے معاملات سلجھتے نہیں الجھتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومتی ذمے داران کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ تشدد معاملات بگاڑنے کا باعث ہے تو پھر حکومت کی جانب سے اس کا سلسلہ جاری کیوں رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات ہوں یا دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں کے، ہمارے حکمران انہیں احتجاج کی راہ پر جانے سے پہلے ان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے بروقت معاملات کو سلجھا کر ملک و قوم کا سرمایا منفی کاموں پر استعمال ہونے سے بچانے اور دوطرفہ جانی و مالی نقصان کو روکنے پر وقت سے پہلے توجہ کیوں نہیں دیتی؟؟
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عوامی ایکشن کمیٹی کے مذاکراتی کمیٹی کے درمیان اور ان کے لیے ہو گیا
پڑھیں:
وکلاء ایکشن کمیٹی اجلاس، وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف
27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف سامنے آگیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں پہلے وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا بعد میں بائیکاٹ کو بار ایسوسی ایشنز کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی میزبانی میں آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی میٹنگ لاہور ہائیکورٹ بار کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک، سینئیر قانون دان اعتزاز احسن، حامد خان، لطیف کھوسہ، شفقت چوہان، اشتیاق اے خان، سابق جج لاہور ہائیکورٹ شاہد جمیل اور دیگر نے شرکت کی۔
میٹنگ کے دوران شرکا نے 27ویں آئینی کے خلاف لائحہ عمل بنانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں، صدر لاہور ہائیکورٹ بار آصف نسوانہ نے اعلان کیا کہ ہر جمعرات کو ارجنٹ کیسز کے بعد مکمل عدالتی بائیکاٹ ہوگا، جنرل ہاؤس اجلاس کے بعد ریلی نکالیں گے۔
آصف نسوانہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحریک صرف ہماری نہیں بلکہ ججز کی بھی ہے کیونکہ اس ترمیم سے سب سے زیادہ متاثر ججز ہوئے ہیں، لہٰذا امید کرتے ہیں کہ ججز بھی ہڑتال کی حمایت کریں گے۔ میٹنگ کے دوران حامد خان نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور وکلاء سے کہا کہ اس عدالت کا بائیکاٹ کیا جائے۔
تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن اور منیر اے ملک نے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ بالادست ہے لیکن میں کہتا ہوں آئین بالادست ہے۔
اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ جوڈیشری سے متعلق جو ایشو اٹھے اسے دبنے نہ دیا جائے، انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے یہ لمبی ریس ہے۔ ہمیں شروع میں ہی نہیں تھک جانا چاہیے۔
چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک نے بھی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کی، جس کے بعد وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے سے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی شق میں ترمیم کر کے اسے بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ انہیں قابل قبول نہیں تھے۔ وزیر قانون کے پاس نہ 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تھا نہ 27ویں ترمیم کا مسودہ تھا اس وقت آئین پر جو حملہ کیا گیا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی وفاقی آئینی عدالت کو مسترد کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودگی میں کسی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں اور موجودہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے۔