افغان وزیر خارجہ امیر متقی کا اگلے ہفتے دورہ ِبھارت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنادیا گیا ہے جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔
یہ استثنا اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماو ¿ں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔
اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ”روایتی دوستی“ کو دہرایا۔اس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔
ویب ڈیسک
Faiz alam babar
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں سے متعلق تجاویز پیش کی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلوی وزارت خارجہ اور تجارت نے اپنی خود مختار سینکشنز ریگولیشنز 2011 میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جو افغانستان پالیسیوں سے متعلق ہے۔
ان تجاویز میں شامل ہے کہ طالبان سے منسلک اشخاص یا اداروں کو پابندی کے دائرے میں لانے کے نئے معیار بنائے جائیں اور افغانستان کو اسلحہ یا اسلحے سے متعلق خدمات فراہم کرنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
مزید یہ کہ صرف اسلحہ فروخت ہی نہیں بلکہ اسلحے کی مینٹیننس، کسٹم ورکس یا تربیتی خدمات دینا بھی ممنوع قرار دیا جائے۔
طالبان حکومت سے متعلق یہ اقدام اس بات کی واضح علامت ہے کہ آسٹریلیا طالبان حکومت کو پوری طرح جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان پر سیاسی دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
علاوہ ازیں ان پابندیوں کے نفاذ سے طالبان کو غیر قانونی ذرائع سے اسلحہ حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں جو ان کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیتوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔
واضح رہے کہ طالبان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر سفارتی علیحدگی کا سامنا کر رہے ہیں اور ایسے اقدامات ان کی مالی اور عملی صلاحیتوں کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔