ایرانی ڈرون ٹیکنالوجی اسرائیل کے لئے درد سر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے ایک حصے میں کیل لسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ جنگ میں بھی ایران نے ابھی تک اپنے اسٹیلتھ ڈرونز کا وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا اور اپنے کلاسک ڈرونز کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا ہے، جدید ڈرونز کو مستقبل میں اور وسیع تر محاذ آرائی کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ صہیونی ذرائع نے ماہرین کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ایران لاگت کے لحاظ سے سب سے سستے ڈرون تیار کرتا ہے۔ صیہونی ذرائع آخر میں تسلیم کرتے ہیں کہ لیکن یہ سب ہمارے تخمینے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ ایران جنگ میں کس حد تک اسٹیلتھ ٹیکنالوجی استعمال کی ہے یا اس حد تک کم کیوں کی ہے، ہم جنگ کے اگلے راؤنڈ میں اس تبدیلی کو دیکھ سکیں گے، ایرانی فی الحال خاموش ہیں، لیکن وہ اب بھی ایک ہوشیار اور خطرناک دشمن ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
صہیونی حکومت ابھی تک ایران کے نظر نہ آنیوالے اور راڈار سے بچ کر جانے والے ڈرونز کے معمہ کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ یہ ایک سرخی ہے، جسے کیلکلسٹ اخبار نے اپنی رپورٹ کے لئے منتخب کیا ہے، صیہونی اخبار ایرانی ڈرونز کو ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے، لیکن اسرائیل اسے حل کرنے سے قاصر ہے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران نے 2011 میں امریکی اسٹیلتھ اور راڈار گریز ٹیکنالوجی حاصل کی اور وہ حملہ آور اور جاسوسی ڈرونز کی کم از کم پانچ خطرناک کاپیاں تیار کرنے میں کامیاب رہا، جن میں سے کچھ کو ایرانیوں نے 2018 کے اوائل میں اسرائیل کے خلاف استعمال کیا تھا۔
عبرانی میڈیا کے مطابق دو قوتیں مشرق وسطیٰ میں جنگ کے دوران اسٹیلتھ ڈرون استعمال کر رہی ہیں، جن میں سے ایک اسرائیلی فوج ہے، اسرائیلی فوج کے پاس درجنوں ایف 35 طیارے ہیں، لیکن دوسری قوت ایران ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کے اسٹیلتھ طیاروں کے بارے میں بات کی جائے۔ ایرانیوں نے اپنی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کہاں سے حاصل کی؟ انہوں نے اسے براہ راست اس کی اصل فیکٹری کے گوداموں سے ہی حاصل کیا ہے۔ 4 دسمبر 2011 کو ایک امریکی آر کیو 170 سینٹینل ڈرون، جو افغانستان میں آپریشنل تجربات کر رہا تھا، راستے سے بھٹک گیا، ڈرون نے ایران کے اوپر اڑان بھری، سرحد عبور کی، تقریبا 250 کلومیٹر کا سفر طے کیا اور کاشمر میں ایک اڈے کے قریب اتار لیا گیا۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ایرانی اور مغربی رپورٹس کے مطابق پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے ایک الیکٹرانک جیمنگ آپریشن شروع کیا تھا، جس نے ڈرون کو اپنے آپریٹرز کی رینج سے نکال کر ان سے الگ کر دیا اور آر ٹی بی پروٹوکول کو متحرک کر دیا، جس کا مطلب تھا کہ وہ اب خود بخود اپنے اڈے پر واپس نہیں آسکے گا۔ پاسداران انقلاب کو معلوم تھا کہ یہ جنگی پرندہ نیویگیشن کے لیے زمین پر لگے اینٹینا کا استعمال کر رہا ہے، اس لیے انہوں نے اپنے ٹرانسمیٹر کو چالو کیا، اس طرح اسٹیلتھ ڈرون کو کنٹرول میں لیکر خود اتار لیا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے تلخی سے اعتراف کیا ہے کہ بدقسمتی سے ایران کی جدید غیر ملکی ٹیکنالوجی کی ریورس انجینئرنگ ایک طویل اور متاثر کن تاریخ کی حامل ہے۔
عبرانی میڈیا کے مطابق یہی وجہ ہے کہ دشمن یعنی ایران نے اسٹیلتھ فائٹر بنانے کا طریقہ سیکھا، اور آج اس نے ان کی ایک بڑی تعداد تیار کر لی ہے، پہلا جسے "شاہد-171 سیمرغ" کہا جاتا ہے، یہ امریکی سینٹینل ڈرون کی عین نقل تھی۔ دوسرا فوٹروس ایک طویل فاصلے تک پرواز کرنیوالا بغیر پائلٹ جاسوس طیارہ ہے، جو مانیٹرنگ، سرویلنس کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ریڈار گریز ہے، اس کے ذریعے حاصل ہونیوالا ڈیٹا 3D آوٹ پٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مشن کا ریڈیس 2200 کلومیٹر ہے، جو مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کی جاسوسی کے لیے کافی ہے۔
شاہد 171 ریورس انجینئرنگ کی ابتدائی ترتیب تھی، جس کا استعمال ایران نے اپنے مشن کے لئے موزوں جنگی پرندوں کے لئے شروع کیا تھا۔ اب تک ان ڈرونز کی دو سیریز کی نشاندہی کی جا چکی ہے، جن میں مختلف پروپلشن، صلاحیتوں اور کردار کے ساتھ چار اضافی ماڈل شامل ہیں۔ پہلی سیریز اصل کنٹرول سے 40 فیصد چھوٹی ہے، جس کی لمبائی 7.
شاہد ڈرون اپنے فیوزلیج کے نیچے چار آپٹیک گائیڈڈ میزائل یا کروز بم لے جا سکتا ہے، اور ریکارڈ میں ایک چھوٹے سے اندرونی بم ٹوکری کے ساتھ ایک ترتیب بھی دکھائی گئی ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ مشن رینج (وہ حد جس سے یہ اڑ سکتا ہے، حملہ کرسکتا ہے اور واپس آسکتا ہے) 500 کلومیٹر ہے، جو نسبتا مختصر رینج ہے۔ امکان ہے کہ یہ اس کے مواصلاتی بنیادی ڈھانچے کی کارکردگی پر منحصر ہوگا۔ شاہد 191 مکمل طور پر خودکار نہیں ہے اور اسرائیلی زک طیارے کی طرح ریموٹ سے چلایا جاتا ہے۔ اس کا ہم نسل شاہد 181، جاسوسی مشنوں کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور ایندھن کی بچت کرنے والے پسٹن انجن سے لیس ہے جو دوگنا رینج فراہم کرتا ہے۔
ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مارچ 2021 میں اس قسم کے دو ایرانی اسٹیلتھ جنگی پرندے اسرائیل بھیجے گئے تھے۔ حملہ آوروں کے راستے کے تجزیے سے پتہ چلا کہ وہ مغربی کنارے کی طرف جا رہے تھے، اور ان کے ملبے میں پستول، گولیاں اور پروپیگنڈا سامان کی کھیپ موجود تھی۔ یہ ایک تھیٹر آپریشن اور انوکھی تھیٹر پرفارمنس تھی۔ دونوں ماڈلز میں ایک دلچسپ خصوصیت ہے، جو انہیں جنگ میں بڑی لچک کا حامل بنا دیتی ہے، وہ یہ کہ انہیں گاڑیوں سے لانچ کیا جاتا ہے، ایک پک اپ ٹرک اپنے کارگو ایریا میں کیریئر کے ساتھ تیز رفتاری سے چلتا ہے اور ڈرون ہوائی اڈے کے رن وے یا ٹرانسپورٹ میزائل کے بغیر بھی اڑان بھرتا ہے، اس کے لئے صرف ایک سیدھی سڑک کی ضرورت ہے۔
یہ کیسے اترتا ہے؟ کوئی بھی پکی سڑک اس کام کے لئے موزوں اور کافی ہوسکتی ہے۔ بھاری پہیوں کے بجائے شاہد 191 اور 181 ڈرونز میں پیچھے ہٹنے کے قابل سلائڈ ہے۔ اب آئیے دوسری سیریز کی طرف چلتے ہیں، جو اصل اسٹیلتھ ڈرون کا اپ گریڈ ورژن ہے۔ اس سیریز کا پہلا ماڈل شاہد 161 ہے، جو ایک اسٹیلتھ خودکش ڈرون ہے، جو سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم کے علاوہ آپٹیکل سینسر سے لیس ہے، جو اسے اپنی منزل تک لے جاتا ہے، اس کا کیمرہ حرکت پذیر اہداف کا پتہ لگانے اور دشمن کو مشغول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو اسے مسابقتی فائدہ دیتا ہے اور خصوصی آپریشنز کے لئے موزوں بناتا ہے۔
لیکن اس کے حملے کی حد 300 کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایران کے قریب بحری جہازوں کو دھمکی دینے کے لئے تیار کیا گیا ہو، جو کیمرے سے بھی واضح ہے۔ شاہد 161 کا ایک اور جوڑی دار بھی ہے، جس کے پاس پسٹن انجن ہے، جسے ٹائپ 141 کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ڈرون کو جاسوسی اور نگرانی کا جنگی پرندہ قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ ایک چھوٹا بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی رینج 1300 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور ہمارے پائلٹوں نے جنگ میں بھی اس کا سامنا کیا ہے۔ یہاں ہم اس مشکل سوال کی طرف آتے ہیں کہ خودکش ڈرون اس جنگ میں سب سے موثر ہتھیار ہیں، جنہوں نے ہمارے فوجی بیسز، ایک ہوائی اڈے اور یہاں تک کہ تل ابیب کے قلب اور سب سے مشہور قیصریہ پارک پر بھی حملہ کیا ہے۔
اپنی رپورٹ کے ایک اور حصے میں کیل لسٹ نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ جنگ میں بھی ایران نے ابھی تک اپنے اسٹیلتھ ڈرونز کا وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا اور اپنے کلاسک ڈرونز کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا ہے، جدید ڈرونز کو مستقبل میں اور وسیع تر محاذ آرائی کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ صہیونی ذرائع نے ماہرین کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ ایران لاگت کے لحاظ سے سب سے سستے ڈرون تیار کرتا ہے۔ صیہونی ذرائع آخر میں تسلیم کرتے ہیں کہ لیکن یہ سب ہمارے تخمینے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ ایران جنگ میں کس حد تک اسٹیلتھ ٹیکنالوجی استعمال کی ہے یا اس حد تک کم کیوں کی ہے، ہم جنگ کے اگلے راؤنڈ میں اس تبدیلی کو دیکھ سکیں گے، ایرانی فی الحال خاموش ہیں، لیکن وہ اب بھی ایک ہوشیار اور خطرناک دشمن ہیں، جو جنگی مساوات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسٹیلتھ ڈرون ہے کہ ایران ایران نے کے مطابق نہیں ہے تیار کر ڈرون کو کے ساتھ جاتا ہے ہیں کہ کیا ہے ہے اور کے لئے
پڑھیں:
کوئٹہ، ایرانی قونصل خانے میں سید حسن نصراللہ کی برسی پر "شہید استقامت کانفرنس" منعقد
کانفرنس میں بلوچستان کی مختلف شیعہ اور سنی سیاسی، ادبی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کیں اور سید حسن نصراللہ کی شخصیت، عالم اسلام کو درپیش مسائل اور امت اسلامیہ کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے شہید سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر کوئٹہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے میں "شہید استقامت" کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں بلوچستان کے جید علمائے کرام اور دیگر معتبرین نے شرکت کیں۔ تقریب میں امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی، الحدیث کے عالم دین مولانا انوار الحق حقانی، ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ ولایت حسین جعفری، جماعت اسلامی کے قاری عطاء الرحمان اور بی این پی کے غلام نبی مری سمیت بلوچستان کی مختلف شیعہ اور سنی سیاسی، ادبی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کیں اور سید حسن نصراللہ کی شخصیت، عالم اسلام کو درپیش مسائل اور امت اسلامیہ کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر "نصراللہ کی درسگاہ" کتاب کے اردو ترجمے کی بھی رونمائی ہوئی۔ ایران کے قونصل جنرل حسن کریمی اور ایران کے خانہ فرہنگ کے سربراہ سید ابوالحسن میری نے مہمانوں کا استقبال کیا۔