حزب اللہ کی جانب سے حماس کے موقف کی تائید
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
لبنانی اسلامی مزاحمت نے کہا ہے کہ قومی قانونی حقوق پر مبنی فلسطینی قومی معاہدہ وہ فریم ورک ہے، جس پر مذاکرات ہونا ضروری ہیں۔ حزب اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کے نتیجے میں غزہ کی پوری پٹی سے صہیونی دشمن کا انخلا ہونا چاہیے، فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکا جائے اور انہیں اپنے معاملات کو سنبھالنے کے قابل بنایا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان نے غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کے حماس کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں غزہ کی پوری پٹی سے صہیونی دشمن کا انخلا مکمل ہونا چاہیے۔ حزب اللہ لبنان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ حماس کے اس موقف کی حمایت کرتی ہے جو ٹرمپ منصوبے کے حوالے سے دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے ساتھ مشاورت اور ہم آہنگی سے اپنایا گیا تھا۔
حزب اللہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جارحیت کو روکنے کے لئے حماس کا پختہ موقف فلسطینی کاز کے اصولوں کے ساتھ تحریک کے عزم و تعہد کی تصدیق کرتا ہے، ہمین یقین ہے کہ فلسطینی مزاحمت عوام کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ حزب اللہ لبنان نے عرب اور اسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام، حماس اور تمام مزاحمتی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ہر سطح پر ان کی حمایت کریں۔
لبنانی اسلامی مزاحمت نے کہا ہے کہ قومی قانونی حقوق پر مبنی فلسطینی قومی معاہدہ وہ فریم ورک ہے، جس پر مذاکرات ہونا ضروری ہیں۔ حزب اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کے نتیجے میں غزہ کی پوری پٹی سے صہیونی دشمن کا انخلا ہونا چاہیے، فلسطینیوں کی نقل مکانی کو روکا جائے اور انہیں اپنے معاملات کو سنبھالنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ بیان فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی جانب سے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پر زور دیا حزب اللہ
پڑھیں:
قاہرہ میں غزہ امن مذاکرات پیر سے شروع ہوں گے، اسرائیل، حماس اور قطر کی شرکت متوقع
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر پہلا مرحلہ پیر (6 اکتوبر) سے قاہرہ میں شروع ہوگا، جہاں تکنیکی نوعیت کے مذاکرات ہوں گے۔
الجزیرہ کے مطابق ایک باخبر سفارتی ذریعے نے بتایا کہ مذاکرات کے لیے حماس کا وفد اتوار کو دوحہ سے قاہرہ روانہ ہوگا، جبکہ ایک قطری وفد بھی امن منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے شریک ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی 20 نکاتی جنگ بندی تجویز کے مطابق پہلے مرحلے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے بدلے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے تصدیق کی کہ ایک اسرائیلی وفد بھی قاہرہ جائے گا تاکہ قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور عملدرآمد کی ٹائم لائن طے کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، جو یا تو امن منصوبے کے ذریعے یا فوجی کارروائی سے مکمل کیا جائے گا۔
قبل ازیں، امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ حماس نے ان کے امن منصوبے پر زیادہ تر مثبت ردعمل دیا ہے اور امن کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
ٹرمپ نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری فوری بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ ان کے مطابق، یہ منصوبہ غزہ میں جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، اور علاقے میں ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی سمت ایک اہم قدم ہے۔