Jasarat News:
2025-10-06@00:13:06 GMT

یوم مزدور اور مزدور مسائل

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنائی گئی اور اس میں طے کیا گیا تھا کہ ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جائے گا اور اس روز سرکاری تعطیل ہو گی۔میں 1973 میں روزنامہ مساوات میں کام کرتی تھی اور مجھے یاد ہے کہ احفاظ اور ہماری ٹیم نے کتنے جوش و خروش سے یکم مئی کا سپلیمنٹ نکالا تھا اور شکاگو کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اگر ستر کی دہائی کے ان سالوں کے مساوات کے یکم مئی کے شماروں کے مضامین جمع کر لیے جائیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے۔ 1973 کے آئین میں مزدوروں کو درج ذیل حقوق دیے گئے ہیں۔ آئیں کے آرٹیکل 11 کے مطابق غلامی، جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کو ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن غربت اور تعلیم نہ ہونے کے باعث آج بھی بچے مختلف طرح کی مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں امیروں کے گھروں میں نوکریاں کرتی ہیں جہاں معمولی سے قصور پر ان پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ گھریلو ملازمائوں کے حقوق کے لیے کوئی قانون موجود نہیں۔ دوسری طرف ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے قانون تو بن گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت سب کارکنوں کو یونین اور ایسوسی ایشن بنانے کا حق ہے۔ آرٹیکل 18 کے مطابق ہر شہری کو کوئی بھی قانونی پیشہ یا کاروبار کا حق حاصل ہے۔ آرٹیکل 25 کے مطابق بلا امتیاز جنس قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آرٹیکل 37 e کے مطابق حالات کار کو سازگار بنایا جائے اور بچوں اور عورتوں سے ایسے کام نہ کرائے جائیں جو ان کی عمر یا جنس کے لحاظ سے موزوں نہ ہوں۔ملازمت کر ے والی عورتوں کو زچگی کے فوائد،میٹرنٹی بینفٹس دیے جائیں۔ ان کے بچوں کے لیے ڈے کئیر سینٹر بنائے جائیں اور شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے لیے جگہ کا انتظام کیا جائے۔ اس وقت غریبوں کا جو حال ہے اس کے بارے میں میر تقی میر کہہ گئے ہیں: امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر۔کہ ہم غریب ہوئے ہیں ان ہی کی دولت سے۔ اور اس عہد کے ایک شاعر فاضل جمیلی نے کہا ہے: کھونا ہے اور کیا ہمیں زنجیر کے سوا۔پانے کو اک جہان تمنا ہے سامنے۔یوم مئی پر ہمیں مزدوروں کے ساتھ کسانوں اور ہاریوں کی بھی بات کرنی چاہیے۔ جام ساقی کے بقول صنعتی مزدوروں کے لیے تو قوانین بن گئے ہیں۔ یہ اور بات کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا لیکن کسانوں اور ہاریوں کو تو اپنے مسائل کا بھی علم نہیں۔جب انہیں رات 3 بجے بلایا جاتا ہے کہ کھیتوں میں پانی لگانا ہے تو انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں نائٹ الائونس ملنا چاہیے۔ جب کٹائی کا موسم آتا ہے تو ان کی مائیں، بہنیں، بچے شب کھیتوں میں مل کر کام کرتے ہیں۔ اس زائد افرادی قوت کا انہیں کوئی صلہ نہیں ملتا۔ کھیتوں میں سانپ کاٹ لے تو کوئی طبی سہولت نہیں ملتی ، اس لیے دیہاتوں میں جا کے کام کرنا ضروری ہے۔ یوم مئی کے بارے میں اپنی بات کا اختتام میں جون ایلیا کے اس شعر پر کرتی ہوں: یہی پوچھا کیا آج میں دن بھر۔ہر انسان کو روٹی ملی کیا؟۔

مہناز رحمان گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے مطابق ا رٹیکل کے لیے

پڑھیں:

بھارت کا ناکام ’’آپریشن کرکٹ‘‘

کراچی:

‘‘پاکستان کے خلاف کسی صورت نہیں کھیلنا چاہیے، بی سی سی آئی دیش دروھی اور پیسے کا پجاری ہے، اے دیش سے کوئی مطب نہیں بس پیسہ چاہیے’’۔

ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل ایسی کئی خبریں سامنے آئیں، سابق بھارتی کرکٹرز اور سیاستدانوں تک نے پاکستان کیخلاف نہ کھیلنے کا مطالبہ کیا، عوام کی بھی یہی خواہش تھی،البتہ ماضی کے برعکس اس بار بھارتی حکومت نے کسی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ملٹی نیشن ایونٹس میں پاکستان سے کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، بورڈ نے بھی اس کی توثیق کر دی۔ 

سب کو لگا کہ اس کی وجہ 2024 سے 2031 تک کا 170 ملین ڈالر کا بھارتی براڈ کاسٹر کے ساتھ اے سی سی میڈیا رائٹس معاہدہ ہے۔ 

البتہ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ اس میں بی سی سی آئی کا شیئر بہت زیادہ نہیں ہے،-24 2023 کے مالی سال میں ہی اسے9741.7 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی تھی، پیسہ بے حساب ہے، ایشیا کپ کی آمدنی اس کیلیے مونگ پھلی کے چند دانوں جتنی ہوتی۔ 

اس نے تو ایک سال میں صرف آئی پی ایل سے ہی 5761 کروڑ روپے کمائے ہیں، پھر وہ کیوں سب کی مخالفت کے باوجود پاکستان سے میچ کھیلنے کیلیے بے چین ہو رہا تھا؟ اب سب کو اس سوال کا جواب مل چکا۔ 

جنگ میں ہارنے سے بھارتی عوام کا مورال بہت ڈاؤن ہے، وہ لوگ کرکٹ کو پوجتے ہیں ایسے میں توجہ بٹانے کا اس سے اچھا موقع کیا ملتا، انھیں یہ بھی اندازہ تھا کہ موجودہ پاکستانی ٹیم مضبوط نہیں، اسے ہرانا مشکل نہیں ہوگا لہذا ان عوامل کا استعمال بھارت نے اپنے جنگی جنون کیلیے کیا۔ 

ہاتھ نہ ملانا،محسن نقوی سے ٹرافی نہ لینا یہ سب کچھ اسی کی کڑی ہے، مجھے نیوٹرل شخصیات سے بھی پتا چلا کہ اے سی سی کی جانب سے فائنل سے قبل مسلسل 2 روز بھارتی بورڈ کے ساتھ رابطہ کر کے پوچھا گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات میں محسن نقوی فاتح ٹیم کو ٹرافی دیں گے، آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں،اس پر انھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ 

فائنل سے ایک روز قبل صدر اے سی سی کا بیان جاری ہوا جس کی اختتامی سطور میں واضح طور پر درج تھا کہ وہ فائنل دیکھیں گے اور فاتح کپتان کو ٹرافی بھی پیش کریں گے، اس پر بھی بی سی سی آئی کچھ نہ بولا۔

پھر میچ چلتا رہا تو اختتامی مراحل میں پیغام پہنچا دیا کہ ہمارے پلیئرز محسن نقوی سے کوئی ایوارڈ نہیں لیں گے،وہ بھی ڈٹ گئے اور ٹرافی اب تک بھارت کو نہیں ملی،اب بھارتی اکشے کمار یا سنی دیول کو ہیرو لے کر کوئی فلم بنا دیں جس میں ٹرافی آ کر لے جائیں۔ 

حقیقت میں ملنا آسان نہیں لگتا،اگر آپ معاملات کا جائزہ لیں تو یہ سب کچھ پاکستان کو نیچا دکھانے کیلیے بھارتی حکومت اور بورڈ کی سازش لگتی ہے،اگر پہلے ہی محسن نقوی کو اس بارے میں بتا دیا جاتا تو یقینی طور پر وہ کوئی متبادل انتظام کر لیتے۔

لیکن چونکہ بھارت یہ دکھانا چاہتا تھا کہ دیکھو ہم نے پاکستانی آفیشل سے ٹرافی نہیں لی اس لیے آخری وقت تک انتظار کیا، اسے یہ نہیں پتا تھا کہ محسن نقوی کوئی سمیر سید نہیں ہیں جنھیں چیمپئنز ٹرافی کی تقریب تقسیم انعامات میں بھی نہ بلاؤ تو کچھ نہیں ہوتا، وہ اب تک ڈٹے ہوئے ہیں کہ ٹرافی لینی ہے تو کپتان کو دبئی میں اے سی سی ہیڈکوارٹر بھیج دو۔ 

اب بھارت بھی تھوڑا خاموش ہوا ہے لیکن اندرونی طور پر یقینا سازشیں تیار کر رہا ہو گا،اس معاملے میں ہمارے لیے کئی سبق موجود ہیں، ایشین کرکٹ کونسل کی سربراہی پاکستان کو مل گئی لیکن وہاں کتنے پاکستانی ہیں؟ ایک اہم بھارتی آفیشل پل پل کی خبریں بی سی سی آئی اور جے شاہ کو دیتا رہا،ای میلز میں کیا لکھا گیا یہ سب بھی بھارتی سرکاری خبر رساں ایجنسی اور ویب سائٹس کی رپورٹس میں آیا۔ 

کم سے کم جب تک محسن نقوی سربراہ ہیں تب تک تو پاکستانی آفیشلز اے سی سی میں ہونے چاہیئں تاکہ بھارتی سہولت کاروں سے تو نجات ملے، ہر مشکل کا حل سلمان نصیر نہیں ہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے انھیں پی ایس ایل کا سربراہ بنایا گیا اور وہ اس لیگ کے سوا ہرجگہ مصروف ہیں۔

ان کی جگہ اے سی سی میں کوئی اور ایسا آفیشل لانا چاہیے جو معاملات کو سمجھتا ہو، بھارت کی کوشش ہے کہ محسن نقوی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے انھیں اے سی سی کے عہدے سے ہٹائے۔

پی سی بی کو اسے ناکام بنانے کیلیے لابنگ کرنی چاہیے، بھارتی بورڈ کے سیکریٹری سائیکیا تک غیرملکی میڈیا میں انٹرویوز دے رہے ہیں کہ پاکستان ہماری ٹرافی ساتھ لے گیا، پی سی بی میں سوائے محسن نقوی کے کیا کوئی اور وضاحت کیلیے سامنے آیا؟

کئی بڑے بھارتی کرکٹرز اس معاملے پر ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، ہمارے کتنے سابق کھلاڑی دفاع میں کھڑے ہوئے؟ کم از کم ان سابق اسٹارز سے تو بیان دلوا دیں جو بورڈ کے پے رول پر ہیں، باقی شاید کمنٹری یا دیگر وجوہات کی وجہ سے بھارت کو ناراض نہ کرنا چاہیں، آئی سی سی پر بھارتی راج ہے۔ 

بی سی سی آئی حالیہ معاملات کو نومبر کی میٹنگ میں اٹھانے کا اعلان کر چکا،اب وہ کوئی نئی سازش کرے گا، پی سی بی کو ابھی سے سدباب کرنے کیلیے اقدامات کرنے چاہیئں،اس وقت جو نفرت کا ماحول چل رہا ہے اگر 1،2 اور پاک بھارت میچز ہو جاتے تو شاید پلیئرز فیلڈ میں ہی گتھم گتھا ہوتے۔

بھارت نے اپنے پلیئرز کو بھی اتنا زہرآلود کر دیا کہ وہ ہاتھ تک نہیں ملانا چاہتے، کرکٹ ڈپلومیسی اب ماضی بن چکی، اب تو میچز دونوں ممالک کی لڑائی مزید بڑھا رہے ہیں، بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر ایسا کیا اور پلیئرز کو اپنی نفرت کی آگ بھڑکانے کیلیے ایندھن کی طرح استعمال کیا۔ 

بی سی سی آئی ہمیں تنہا کرنا چاہتا ہے ایسا کسی صورت نہیں ہونے دینا، این او سی کے معاملے کو بھی سمجھداری سے ڈیل کریں، دنیا کی بیشتر لیگز پر بھارت کا قبضہ ہو چکا، ہمارے پلیئرز کو کم ہی مواقع ملتے ہیں، ایسے میں بگ بیش نے بلایا ہے تو جانے دیں۔ 

اگر ہم دوستوں کو بھی تنگ کرنے لگے تو وہ بھی اپنے ایونٹس میں مدعو نہیں کریں گے، پھر آپ نہیں بھیجیں گے تو پی ایس ایل کیلیے کون اپنے پلیئرز کو پاکستان بھیجے گا؟

محسن نقوی بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں وہ انھیں عہدے سے ہٹانے کی سازش کرے گا، پی سی بی کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ آئی سی سی شیئر ہے آئندہ اسے کم کرنے کی کوشش بھی ہوگی،اس سے نمٹنے کی ابھی سے تیاری کریں۔ 

دوسرے نمبر پر ہمارا بورڈ پی ایس ایل سے کماتا ہے، اسے مضبوط بنائیں ہمیں اپنی کرکٹ کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ہم ایشیا کپ میں تین میچز نہ ہارتے تو اس وقت کرکٹ میں بھی آگے ہوتے، ہمیں تگڑی ٹیم تشکیل دینی چاہیے تاکہ آئندہ جنگ کی طرح کرکٹ میں بھی بھارت کو ہرا سکیں، پھر اسے شور مچانے کیلیے ٹرافی جیسے ایشوز نہیں ملیں گے، امید ہے بورڈ ایسا ہی کرے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا ناکام ’’آپریشن کرکٹ‘‘
  • NTUFاور دیگر مزدور تنظیموں کا سانحہ بلدیہ پر اجتماع
  • سندھ میں 17 سال سے پی پی حکومت‘ مسائل کے انبار لگے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • مسائل اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں بات چیت سے ہی حل کیے جا سکتے ہیں، میر واعظ
  • جس صوبے میں پیپلزپارٹی کی 17 سال سے حکومت ہے وہاں مسائل کے انبار ہیں‘تر جمان پنجاب حکومت
  • سکھر ،چھوہارا مارکیٹ میں مزدور خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دبائو کاشکار
  • شارٹ کٹ کوئی نہیں!
  • جس صوبے میں پیپلزپارٹی کی 17 سال سے حکومت ہے وہاں مسائل کے انبار ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سونے کی قیمت میں آج کوئی تبدیلی آئی یا نہیں؟