Juraat:
2025-11-19@22:46:30 GMT

ملتان سلطانز اور پی سی بی میں دراڑیں مزید گہری

اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT

ملتان سلطانز اور پی سی بی میں دراڑیں مزید گہری

ویلیوایشن میں نظرانداز کرنے پر کرکٹ بورڈ کیخلاف قانونی کارروائی کی دھمکی
ہمارے قانونی خط کا کوئی جواب نہیں، ای میلز کا کوئی جواب نہیں،مالک علی ترین

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی فرنچائز ملتان سلطانز اور ملک کے کرکٹ بورڈ کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہوگئی ہیں، فرنچائز کے مالک علی خان ترین نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے فرنچائز کی ویلیوایشن اور تجدید (ری نیوول) کا لیٹر فراہم نہ کرنے پر قانونی کارروائی کی دھمکی دیدی ہے۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ ماہ دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں اْس وقت اضافہ ہوا تھا، جب علی ترین نے عوامی طور پر پی ایس ایل انتظامیہ پر بدانتظامی، مخصوص معلومات کے لیک ہونے، اور ویلیوایشن میں عدم شفافیت کے الزامات لگائے تھے۔گزشتہ ہفتے پی ایس ایل نے 2 نئی فرنچائز ٹیموں کا اعلان کیا تھا جن کیلئے جلد ہی ملکیتی حقوق کی فروخت کا ٹینڈر عمل شروع ہونے والا ہے، جبکہ موجودہ ٹیموں اور دیگر کمرشل اثاثوں کی آزادانہ ویلیوایشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔علی ترین نے ایک بار پھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیااور کہا کہ چوں کہ پی سی بی ہم سے بات نہیں کر رہا، اس لیے ہمیں یہ یہاں کہنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے لکھا کہ گزشتہ ایک ماہ میں ہم نے پی ایس ایل مینجمنٹ کو کئی ای میلز بھیجی ہیں، جن میں اپنی ویلیوایشن اور ری نیوول لیٹر کا مطالبہ کیا ہے (جو ہر دوسری ٹیم کو مل چکا ہے)، لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔انہوں نے لکھا کہ ہمارے قانونی خط کا کوئی جواب نہیں، ای میلز کا کوئی جواب نہیں، چیئرمین کو بھیجے گئے میرے خط کا بھی کوئی جواب نہیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر فرنچائزز کے نمائندوں نے بھی پوچھا ہے کہ ملتان کو ویلیوایشن اور تجدید کے عمل میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا تاہم وہاں بھی کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ترین نے کہا کہ جو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب بند دروازوں کے پیچھے کیوں نہیں ہو رہا، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ پی ایس ایل مینجمنٹ ہم سے بات کرنے سے انکار کر رہی ہے۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اگر پی سی بی کی طرف سے یہ ’گوسٹنگ‘ (جان بوجھ کر نظر انداز کرنا) جاری رہا تو وہ قانونی کارروائی کریں گے، اگرچہ یہ وہ آخری چیز ہے جو فرنچائز کرنا چاہے گی۔ترین کے مطابق، یہ پوری صورتحال بالکل غیر ضروری ہے، اور اسے چائے بسکٹ پر ہی آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا، لیکن کمزور آنا ہی آسان کاموں کو مشکل بنا دیتا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عقل غالب آئے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے لیگ کی ویلیوایشن مکمل ہونے کے بعد پی سی بی نے کہا تھا کہ نئے فرنچائز فیسوں کی عکاسی کرنے والے ری نیوول آفر لیٹرز تمام قواعد کی پابندی کرنے والی فرنچائزز کو باقاعدہ بھجوا دیے گئے ہیں، اور انہیں مقررہ مدت میں اپنا فیصلہ دینے کا کہا گیا ہے۔بیان میں کہا گیا تھا کہ شفافیت کو یقینی بنانے اور بہتر سمجھ فراہم کرنے کے لیے، پی سی بی نے فرنچائز نمائندوں اور آزادانہ ویلیوایٹر کے درمیان اجتماعی اور انفرادی ملاقاتوں کا بھی اہتمام کیا ہے۔یہ سیشنز فرنچائزز کو ویلیوایشن کے طریقہ کار کا جائزہ لینے اور اپنے سوالات پوچھنے کا موقع دیں گے۔گزشتہ ماہ ترین نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کے طور پر پی سی بی کو ایک تجویز بھی دی تھی، جس کا مقصد بہتر گورننس، شفافیت اور شراکت داری کے ذریعے پی ایس ایل کو مضبوط کرنا تھا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کا کوئی جواب نہیں ہے انہوں نے پی ایس ایل پی سی بی کہا کہ

پڑھیں:

کیا نظام بدل گیا ہے؟

27ویں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ملک کا نظام حکومت مضبوط ہوا یا کمزور۔ آئینی ترامیم حکومتیں اپنے اقتدار کو مضبوط اور نظام کو استحکام دینے کے لیے کرتی ہیں۔ آئینی ترامیم کبھی اپوزیشن نہیں کرتی۔ کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکا ر ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پا س سادہ اکثریت ہو تو آپ حکومت بنا لیتے ہیں۔ اس لیے دو تہائی کے ساتھ اپوزیشن میں ہونا نا ممکن ہے۔ اس لیے آئین میں ترمیم کرنا اور قانون سازی کرنا بنیادی طو رپر حکومت کا ہی استحقاق ہے۔ حکومت چاہے تو اپوزیشن کو شامل کر سکتی ہے۔ اس کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن زیادہ مواقع پر حکومت نے خود ہی آئین سازی اور قانون سازی کی ہے۔

قانون سازی آسان کام ہے۔ اس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ حکومت سادہ اکثریت پر ہی بنتی ہے۔ اگر مخلوط حکومت ہو تو قانون سازی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آپ کو اتحادیوں کو منانا ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پاس خود سادہ اکثریت موجود ہو تو پھر قانون سازی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آئین میں ترمیم کے کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنا فطری نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اپوزیشن اس سے دور ہی رہتی ہے۔

اب موجود ترامیم کو دیکھیں۔ دوستوں کی رائے کہ اس ترمیم سے ملک میں نظام حکومت ہی بدل دیا گیا ہے۔ آئین کی بنیادی شکل ہی بدل دی گئی ہے۔ مجھے ان کی یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ کیا ملک میں آئینی معاملات دیکھنے کے لیے ایک الگ آئینی عدالت کے قیام سے ملک کے آئین کی شکل ہی بدل گئی ہے؟ کیا آئینی عدالت کے قیام سے نظام حکومت کی بنیادی شکل ہی بدل گئی ہے؟ آئینی عدالت میں بھی جج ہی لگائے گئے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

عدلیہ یہ کام ججز کے ذریعے کرتی ہے۔ اب 27ویں ترمیم کے بعد ملک کے آئین کی تشریح کاکام عدلیہ ہی کرے گا۔ جج ہی یہ کام کریں گے۔ نہ تو حکومت نے آئین کی تشریح کے راستے بند کیے ہیں۔ نہ ہی یہ کام ججز سے لے کر کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ تو تب ہوتا جب آئین کی تشریح کا کام عدلیہ سے لے کر کسی اور کو دے دیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ عدلیہ میں نئی عدالتوں کا قیام کوئی نیا کام نہیں ہے۔

کیا آئینی عدالت کے قیام سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، اگر کوئی خاص جج ہی آئینی کیس سنیں گے تو عدلیہ آزاد ہے، اگر وہ کیس نہ سنیں تو عدلیہ آزاد نہیں ہے۔ سب جج برابرہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ جج کا نام سن کر ہمیں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ معاشرہ میں سیاسی تقسیم ہونا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن نظام انصاف میں سیاسی تقسیم کوئی اچھی بات نہیں۔ نظام انصاف کو بہر حال غیر سیاسی اور غیر جانبدار ہوناچاہیے۔ اس لیے آج تنازعہ یہ نظر آرہا ہے کہ اب مخصوص جج آئینی معاملات کیوں نہیں سن سکیں گے۔ کیا آئینی عدالت الگ بننے سے عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے؟ تو اس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے۔ عدلیہ میں کام کی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کے مقدمات کی سپریم کورٹ میں باری ہی نہیں آرہی۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات زیر التو ہیں۔ ججز آئینی معاملات میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی۔ آج کی ترمیم ان مسائل کی وجہ سے بھی کی گئی ہے۔ میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عدلیہ کا سیاسی ایجنڈا نظر نہیں آرہا تھا؟ کیا عدلیہ کے چند ججز کی خاص سیاسی سوچ پوری عدلیہ پر غالب نظر ہوتی نظر نہیں آرہی تھی؟ معاملات غیرجانبدار نہیں رہے تھے۔

دوسرا مسئلہ ججز کے تبادلے کا ہے۔ کیا جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے سے عدلیہ کی غیر جانبد اری ختم ہو جاتی ہے؟ یہ کیا منطق ہے کہ اگر جج صاحب ایک ہا ئی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ چلے جائیں گے تو ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔کیس تو ملک کے عام آدمی کا سننا ہے۔ انصاف تو عام آدمی کو دینا ہے۔ اب عام آدمی کا تعلق کس صوبے سے ہے، یہ کیوں اہم ہے۔ ایک ہائی کورٹ میں ہی جج کے فرائض دینا ہی کیوں عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ تبادلہ ایک روٹین کا عمل ہے۔ فوج کے بڑے افسران کے تبادلے ہوتے ہیں۔

افسر شاہی میں تبادلے ہوتے ہیں۔ تبادلے کو انتقامی کارروائی کب سے سمجھا جانے لگا ہے، خاص جگہ پر فرائض دینے سے آپ آزاد ہیں۔ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاص کیس سنیں گے تو آزاد ہیں۔ ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ خاس بنچ میں ہونگے تو آزاد ہیں ورنہ آزاد نہیں ہیں۔ یہ منطق کوئی قابل فہم نہیں ہے۔ ایک تبادلے کے اختیار سے نہ تو عدلیہ کی آزادی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی ملک میں عدالتی نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ وہی نظام ہے۔ پھر جج کے تبادلے کا نظام اٹھارویں ترمیم سے پہلے آئین میں موجود تھا۔ دوبارہ آگیا ہے۔ اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب ججز کے استعفوں کی بھی بات کر لیں۔ ابھی تک استعفے کم آئے ہیں۔ توقع سے کم آئے ہیں۔ جو آئے ہیں ان کی وجوہات الگ ہیں۔ وہ صرف 27ویں ترمیم کی وجہ سے نہیں آئے ہیں۔

اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان ججز کی رائے ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ ان کے فیصلے ان کی سوچ کے عکا س رہے ہیں۔ اب ان کے استفعوں کو بھی ان کی اسی سوچ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا اور استعفیٰ آئیں گے؟ حکومت کہہ رہی ہے کہ نہیں آئیں گے۔

عام رائے ہے کہ آئیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ استعفوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ زیادہ استعفیٰ آئیں۔ اس لیے معاملا ت رک گئے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ورنہ استعفے تو اکٹھے ہی آنے چاہیے تھے۔ ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ کتنے استعفے آئیں تو بات بن جائے گی۔ میں کہتا ہوں اگر استعفوں کا عدلیہ کے تناظر میں دیکھنا ہے تو سب کو دینے ہوںگے ورنہ سیاسی تقسیم کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ہم خیال ججز کے تناظر میں ہی دیکھے جائیں گے۔ ابھی تک جتنے آئے ہیں، وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔ اسی لیے کسی تحریک کا کوئی ماحول نظر نہیں آرہا۔ بات سمجھیں۔ لوگ اتنے بیوقوف نہیں کہ چند استعفوں کے جھانسے میں آجائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ایس ایل کی نئی فرنچائزز کے ناموں پر اتفاق کرلیا گیا
  • ملتان سلطانز نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف عدالت جانے کا عندیہ دے دیا
  • دیپیکا پڈوکون نے کئی بڑی فلموں کی پیشکش قبول نہ کرنے کی وجہ بتا دی
  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • سرینگر دھماکے میں بہت سے سوالات لا جواب ہیں اسلئے مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے، محبوبہ مفتی
  • عوام نے اعتماد کیا ہے، اب کارکردگی سے جواب دینا ہو گا; نو منتخب وزیر اعظم آزاد کشمیر فیصل ممتاز راٹھور
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب
  • میرے دل میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں، طلحہ انجم کا بھارتی پرچم لہرانے پر تنقید کا جواب  
  • ’چھپانے کو کچھ نہیں‘ ٹرمپ کا ریپبلکنز کو ایپسٹین فائلز جاری کرنے کے لیے ووٹ دینے کا مطالبہ