Juraat:
2025-10-06@08:49:39 GMT

 بند ہوتی صنعتیں حکومت کے لیے لمحہ فکریہ

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

 بند ہوتی صنعتیں حکومت کے لیے لمحہ فکریہ

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ملکی معیشت اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اجلاس میں متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو تمام سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں مجموعی اقتصادی صورتحال، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور جاری و مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، اقتصادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہوگا اور ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ مثبت معاشی رجحان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت میں اعتماد کا عکاس ہے، شفافیت، بین الاقوامی معیار کے مطابق معاشی پالیسیوں کی تشکیل اور پالیسیوں پر فوری عملدرآمد کے ذریعے پاکستان کو خطے میں سرمایہ کاری کا پرکشش مرکز بنایا جائے گا۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت عوامی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے تمام مواقع کو بروئے کار لائے گی، ہماری جاری معاشی اور اقتصادی اصلاحات کی پالیسی نے معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے اور اس جدت اور شفافیت کی بدولت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی فروغ دینا ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے حالیہ مہینوں میں متعدد مواقع پر یہ دعوے کیے گئے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور معاشی اشاریوں میں بہتری نظر آرہی ہے جس کی فائدہ عام آدمی کے ساتھ کاروباری شعبے کو بھی ہو گا، لیکن زمینی حقائق وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے ان دعووں کے برعکس نظر آتے ہیں،اور حالات وواقعات سے ظاہرہوتاہے کہ دراصل وہ کچھ نہیں ہے وزیراعظم اور وزیر خزانہ جس کے دعوے کررہے ہیں،اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب ملک میں نئی سرمایہ کاری تو کجا موجودہ صنعت کار اور سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ سمیٹنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں،ملک کی سب بڑی برآمدی صنعت پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات اب محض زوال پذیر نہیں رہیں بلکہ تیزی سے تباہ ہو رہی ہیں۔ یہ اس طویل عرصے کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جنہوں نے عالمی سطح پر مسابقت بڑھانے کے بجائے صنعت کی کمزوریوں کو سبسڈی سے سہارا دینے پر زیادہ توجہ دی۔ اس حقیقت کی ایک نمایاں مثال گل احمد ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے اسٹاک ایکسچینج کو بھیجا گیا نوٹس ہے، جس میں کمپنی نے اپنے ملبوسات کی برآمدی شعبے کو بند کرنے کے فیصلے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ نوٹس میں کہا گیا کہ مسلسل آپریشنل نقصانات، بڑھتی ہوئی لاگت، پالیسی تبدیلیاں اور علاقائی مسابقت جیسے عوامل نے کمپنی کو اس فیصلے پر مجبور کیا ہے۔ کمپنی کے مطابق مسلسل چیلنجز میں شدید علاقائی مسابقت، مضبوط ایکسچینج ریٹ، حالیہ حکومتی پالیسی تبدیلیاں جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ، نامزد فیبرکس کی بڑھتی ہوئی لاگت اور توانائی کے نرخ شامل ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر لاگت کے ڈھانچے اور منافع کو بری طرح متاثر کیا، جس کے نتیجے میں آپریشنل نقصانات کا سلسلہ جاری رہا۔یہ وجوہات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اندرونی عوامل نے کمپنی کے ملبوسات برآمدی آپریشنز کی بندش میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، اور پاکستان اپنی مسابقت کھو کر بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے حریفوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔اگر یہ حقیقت بھی پالیسی سازوں کو ان کی غفلت سے نہ جگا سکے تو پھر ارباب اختیار کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اس وارننگ پر ضرور غور کرنا چاہیے، جس میں لاجسٹکس سیکٹر کی شدید کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ملک کی اعلیٰ تجارتی تنظیم کی جانب سے تیار کردہ ایک پالیسی بریف میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غیر مؤثر اور مہنگا لاجسٹکس سیکٹر برآمدات کاگلا گھونٹ رہا ہے۔ جب پاکستان کے اندر مال کی نقل و حرکت جی ڈی پی کا 15.

6 فیصد کھا جاتی ہو جو ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے تو ہماری برآمدی شپمنٹس عالمی منڈی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی نقصان میں چلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عالمی بینک کے لاجسٹکس پرفارمنس انڈیکس سے ہی باہر ہو گیا ہے، جبکہ بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش مسلسل اوپر جا رہے ہیں۔کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم، جو تجارت کے گیٹ وے سمجھے جاتے ہیں، اپنی گنجائش کے صرف ایک تہائی پر کام کر رہے ہیں، اور یہاں کنٹینرز ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں دوگنی مدت تک پھنسے رہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی مسابقتی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔یہ اسلیے یہ حیران کن نہیں کہ ہماری برآمدات ان خطے کے ممالک کے ہاتھوں شکست کھا رہی ہیں جنہوں نے مؤثر بندرگاہوں، ریل نیٹ ورکس اور مربوط سپلائی چینز پر سرمایہ کاری کی ہے۔ دوسری طرف ہمارے پالیسی ساز ابیرون ملک کام یا کاروبار کرنے والے لوگوں کی جانب سے بھیجے گئے زرمبادلہ یعنی ترسیلات زر میں اضافے پر ہی مطمئن ہیں۔ اسلام آباد کو توقع ہے کہ اس سال بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ریکارڈ 43 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، جو موجودہ کھاتے کو سہارا دیں گی حالانکہ برآمدات لڑکھڑا رہی ہیں۔ مگر صرف ترسیلات زر پر بھروسہ کرنا خود فریبی ہے۔ یہ آمدنی وقتی طور پر خساروں کو کم کر سکتی ہے اور ساختی کمزوریوں کو چھپا سکتی ہے، لیکن یہ نہ تو کارخانے کھڑی کر سکتی ہے، نہ ہی بندرگاہیں ٹھیک کر سکتی ہے اور نہ برآمدات کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ جو ملک جو اپنی معیشت کا انحصار بجائے اپنی صنعتوں کی برآمدات کے بجائے صرف ترسیلات زر پر کرے تو دراصل وہ اپنے معاشی مستقبل پر خود ہی مہرِ فنا لگا رہا ہوتاہے۔وزارتِ خزانہ نے حال ہی میں ایک سسٹین ایبل فنانسنگ فریم ورک (ایس ایف ایف) متعارف کرایا ہے جس کا مقصد گرین، بلیو اور سوشَل انسٹرومنٹس کے ذریعے فنڈز اکٹھا کرنا ہے۔ یہ فریم ورک بیرونی طور پر توثیق شدہ ہے اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق تیار کیا گیا ہے جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان تیزی سے بڑھتے ہوئے پائیدار سرمایہ کاری کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے، لیکن اسے مناسب تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔گرین یا سوشَل بانڈز کی کشش کا تعین صرف لیبل سے نہیں ہوتا۔ ان کی قیمت اور خریداری کا انحصار مسلسل حکومتی بنیادی اصولوں پر رہے گا جن میں کریڈٹ ریٹنگز، قرضوں کی پائیداری اور مجموعی معاشی استحکام شامل ہیں۔ اگر مالیاتی نظم و ضبط پر مبنی کوئی قابلِ اعتماد حکمتِ عملی نہ ہو تو گرین کا لیبل پاکستان کی سرمائے کی لاگت میں کوئی نمایاں فرق نہیں ڈال سکے گا۔یہ فریم ورک جس میدان میں مفید ثابت ہوسکتا ہے وہ ارادے کا اظہار کرنے اور نظم و ضبط پیدا کرنے میں ہے۔ اہل شعبوں کا تعین کرنے اور دوسروں کو خارج کرنے سے یہ وسائل کی تقسیم کی رہنمائی کرسکتا ہے اور سخت نگرانی اور رپورٹنگ کے معیارات نافذ کرسکتا ہے، اگر اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو ایس ایف ایف آہستہ آہستہ سرمایہ کاروں کے ساتھ پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اصل امتحان عمل درآمد میں ہے لیکن ایسے فریم ورکس پر عمل درآمد کرنے کا پاکستان کا ادارہ جاتی ریکارڈ زیادہ سے زیادہ غیر تسلی بخش رہا ہے اور ایک بار کھو جانے والے اعتماد کو بحال کرنا مشکل ہوتا ہے۔

حکومت کی ناقص پالیسیوں اور متعلقہ حلقوں اور ماہرین کی جانب سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود سب اچھا کی گردان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ برسوں میں متعدد غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔اس بحث نے زور اس وقت پکڑا جب رواں ہفتے امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) نے پاکستان میں کمرشل اور مینوفیکچرنگ سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی اینڈ جی بچوں، خواتین اور مردوں کے لیے مختلف اشیا تیار کر تی ہے جن میں صابن، سرف، لوشنز اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں۔اس کمپنی نے پاکستان میں 1991 میں کام کرنا شروع کیا تھا جس میں ملک میں فیکٹری لگانے کے ساتھ سپلائی چین کا پورا نیٹ ورک بھی موجود تھا۔اپنا کاروبار سمیٹنے کے اس اعلان میں پی اینڈ جی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی تقسیم کار کمپنی کا سہارا لے گی۔پی اینڈ جی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی عالمی حکمتِ عملی کے مطابق ترقی اور قدر میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے کاروبار اور آپریشنز کا ماڈل بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔پی اینڈ جی کے مطابق اب کمپنی پاکستان میں تیسرے فریق (تھرڈ پارٹی) ڈسٹری بیوٹر ماڈل کے ذریعے صارفین کو سہولت فراہم کرے گی۔ان کے مطابق ‘اس مرحلے پر پاکستان میں اپنے آپریشنز کو تھڑد پارٹی ڈسٹری بیوٹر ماڈل میں منتقل کرنا زیادہ مؤثر ہے،اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پی اینڈ جی پاکستان اور جیلیٹ پاکستان لمیٹڈ کی فیکٹری اور تجارتی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی اور صارفین کو کمپنی کے دوسرے علاقائی آپریشنز کے ذریعے اشیا مہیا کی جائیں گی۔کمپنی کا کہنا ہے کہ جن افراد کی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی ان کو یا تو دوسرے ممالک میں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں گے یا پھر مقامی قوانین، کمپنی کی پالیسیوں اور اصولوں کے مطابق علیحدگی (سیپریشن) پیکج دیا جائے گا۔ کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان میں ملازمین پر ہو گی۔گذشتہ دنوں پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کی بڑی کمپنی گُل احمد ٹیکسٹائل نے بھی ملک میں ملبوسات کی تیاری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔گل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان میں اپیرل یعنی ملبوسات کے شعبے کو بند کرنے کے سلسلے میں جاری ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ کمپنی نے یہ فیصلہ اس شعبے کی کارکردگی اور مستقبل کے جائزے کے بعد لیا ہے۔کمپنی کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ شعبہ بہت زیادہ محنت طلب ہے اس لیے اسے کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے منافع کمانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔کمپنی کے مطابق ان مسائل میں خطے کے دوسرے ممالک سے سخت مقابلہ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مضبوطی، حکومت کی نئی پالیسیاں (جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ)، کپڑوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی و گیس کے زیادہ بل شامل ہیں ۔ان سب وجوہات کی وجہ سے اس شعبے کی لاگت بڑھ گئی اور منافع کم ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں یہ کاروبار مسلسل نقصان میں جا رہا تھا۔اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں ایلی للّی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر اور یاماہا نے بھی پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر دیے تھے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اس امر سے لاعلم نہیں ہوں گے کہ ملک میں گذشتہ کئی مہینوں سے یہ چہ مگوئیاں بھی چل رہی تھیں کہ پاکستان میں بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسز اور دوسرے عوامل کے سبب کمپنیاں کاروبار بند کر رہی ہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔پاکستان میں حالیہ برسوں  میں بلند افراطِ زر، بلند شرح سود، ڈالر کی کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے خام مال کی وجہ سے جہاں عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی وہیں پر کاروباری شعبہ بھی ملک میں کاروبار پر بڑھتی ہوئی لاگت کی شکایت کرتے نظر آیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیوں کے کام بند کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے آپریشنز بند کرنے کے بارے میں ملک میں معاشی اور ٹیکس امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت کے بڑھنے کی وجہ سے اب پاکستان میں مینوفیکچرنگ قابل عمل نہیں رہی ہے۔ پیداواری لاگت میں بجلی، گیس، ٹیکس، فنانسنگ اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے اب ایسی صورت حال بن چکی ہے کہ پاکستان میں پیداواری عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ جو حالات بنے ہیں اس میں اب کمپنیاں پیداوار سے زیادہ ڈسٹری بیوشن اور ٹریڈنگ پر کام کریں گی جیسے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی مصنوعات کی پیداوار تو بند کر دیں گی تاہم یہاں صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے سپلائی کریں گی۔ پاکستان میں ٹیکس نظام اور ریٹ کو بھی کمپنیوں کے پاکستان سے نکلنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔اکستان میں ٹیکس نظام کافی زیادہ بوجھل اور غیر منصفانہ ہو چکا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کارپوریٹ ٹیکس اتنے زیادہ اور مختلف شکلوں میں نہیں لیے جاتے جتنے پاکستان میں لیے جاتے ہیں۔یہاں ایک بڑی کمپنی کو 39 فیصد انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس کے ساتھ سپر ٹیکس، ورکرز ویلفیئر کنٹریبیوشن اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جو مجموعی طور پر 50 فیصد ہو جاتا ہے۔اس بھاری ٹیکس کے بعد جب کمپنی شیئر ہولڈرز کو ڈویڈنڈ (منافع میں حصہ) دیتی ہے تو اس پر بھی 15 فیصد سے 25 فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے، حالانکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ہوتی ہے۔پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا وہیں دوسری جانب ملازمتیں بھی ختم ہوں گی جس سے حکومت کیلئے مسائل پیداہونا لازمی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پاکستان میں اپنے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بڑھتی ہوئی سرمایہ کار پاکستان کی کہ پاکستان شہباز شریف کی جانب سے پی اینڈ جی کر سکتی ہے کی وجہ سے کمپنی کے شامل ہیں حکومت کی غیر ملکی کے ذریعے کے مطابق رہی ہیں کرنے کے کا کہنا میں ملک ملک میں کرنے کا کے ساتھ ہے اور رہی ہے کو بھی کیا ہے کے لیے گیا ہے ہیں کہ کام کر کہ ملک میں پی

پڑھیں:

سپریم کورٹ؛ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، واضح کرنے کی کیا ضرورت، آئینی بینچ



اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، اس کو اور کیا واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے وقفے کے بعد دلائل دیے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس کی شق 99 ڈی میں ترمیم پر باقی ہائی کورٹس سے فیصلہ ہوچکا ہے؟

مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ترمیم خارج کر دی ہے جبکہ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہیں، آج کی تاریخ میں بینکوں پر سپر ٹیکس 10 فیصد ملا کر 53 فیصد بن جاتا ہے، فی الحال بینکوں پر ٹیکس لگا ہے اور ترمیم میں تمام سیکٹرز کا نام ہے۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ اچھے ہوں، برے ہوں یا چور ہوں لیکن معیشت کا پہیہ ان سے ہی چل رہا ہے، اس صورتحال کے بعد لوگ افریقا کے مختلف ممالک میں اپنی فیکٹریاں شفٹ کر گئے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تھنک ٹینکس نہیں ہیں۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ عدالتیں ٹیکس پیئر کو ریلیف نہیں دیں گی تو وہ ہاتھ ملائیں گے تو وہ نقصان کس کا ہوگا، ہائی کورٹس سے ہماری اپیلیں ڈرافٹ میں مسئلہ ہونے کی وجہ سے منظور ہوئیں۔

سپر ٹیکس کیسز کی سماعت کے دوران پارلیمنٹ اور آئین کی اہمیت کا ذکر ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پارلیمنٹ سے ہی بنتا ہے۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ سے زیادہ آئین کی پاور ہے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کی پاور ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 4 سی میں اضافی ٹیکس کے حوالے سے واضح نہیں لکھا، اگر اضافی ٹیکس بارے لکھا ہوتا تو آپ کو مسئلہ نہ ہوتا۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ جی یہ الفاظ لکھے ہوتے تو معاملہ واضح ہوتا، میں نے اپنے دور میں سپر ٹیکس نہیں لگنے دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس دیے کہ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، اس کو اور کیا واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

وکیل فروغ نسیم نے دلائل میں کہا کہ جب ایڈیشن ہوگا تو سپر ٹیکس لگے گا، مجھے کوئی ڈکشنری دکھا دیں جس میں لکھا ہو سپر ٹیکس کا مطلب اضافی ٹیکس ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے تو کیا دکھائیں، انکم کی تعریف لکھی ہے تو ضرورت ہی نہیں ہے سپر ٹیکس کا مطلب لکھنا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ لکھا ہوا ہے کہ سپر ٹیکس الگ ٹیکس ہے تو یہ ڈبل ٹیکس تو نہ ہوا ناں۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ انٹری 55، 56 اور 58 میں سپر ٹیکس الگ آزاد ٹیکس ہے، اب جب ٹیکس الگ لکھیں گے نہیں تو آزاد نہیں ہے، آئندہ ہفتے سے سپر ٹیکس کیسز کی سماعت کا وقت کیا رکھیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت بعد میں رکھیں گے، پہلے سپر ٹیکس کی سماعت ہوگی۔

وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ میں آئندہ ہفتے سے آئینی دلائل دوں گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ ہے اور ابھی تک اس کیس میں آئینی بات ہی نہیں ہوئی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس کیسز کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم دلائل جاری رکھیں گے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیش سے بگڑتے تعلقات، بھارتی ’بنارسی ساڑھیوں‘ کا کاروبار متاثر
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ لمحہ فکریہ!
  • پی ٹی آئی دور حکومت کی 131ملین روپے کی مالی بے ضابطگی سامنے آگئی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے سگریٹ بنانے والی کمپنی فلپ مورس کی ڈی لسٹ کرنے کی درخواست منظور کر لی
  • سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کیلئے ٹیکس پالیسی کو ایڈمنسٹریشن سے الگ کرنا ہو گا: وزیر خزانہ
  • سپریم کورٹ؛ سپر ٹیکس کا مطلب ہی اضافی ٹیکس ہے، واضح کرنے کی کیا ضرورت، آئینی بینچ
  • پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے؛ وزیراعظم
  • ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں، وزیر خزانہ
  • حکومت کا کرپٹو کرنسی کے انتظام اور تحفظ کیلئے بڑا قدم ,وفاقی کابینہ نے ’ سٹریٹیجک ڈیجٹیل والٹ کمپنی‘ بنانے کی منظوری دیدی