بند ہوتی صنعتیں حکومت کے لیے لمحہ فکریہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز ملکی معیشت اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک اجلاس میں متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو تمام سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں مجموعی اقتصادی صورتحال، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور جاری و مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، اقتصادی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہوگا اور ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ مثبت معاشی رجحان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت میں اعتماد کا عکاس ہے، شفافیت، بین الاقوامی معیار کے مطابق معاشی پالیسیوں کی تشکیل اور پالیسیوں پر فوری عملدرآمد کے ذریعے پاکستان کو خطے میں سرمایہ کاری کا پرکشش مرکز بنایا جائے گا۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت عوامی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے تمام مواقع کو بروئے کار لائے گی، ہماری جاری معاشی اور اقتصادی اصلاحات کی پالیسی نے معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے اور اس جدت اور شفافیت کی بدولت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی فروغ دینا ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے حالیہ مہینوں میں متعدد مواقع پر یہ دعوے کیے گئے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور معاشی اشاریوں میں بہتری نظر آرہی ہے جس کی فائدہ عام آدمی کے ساتھ کاروباری شعبے کو بھی ہو گا، لیکن زمینی حقائق وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے ان دعووں کے برعکس نظر آتے ہیں،اور حالات وواقعات سے ظاہرہوتاہے کہ دراصل وہ کچھ نہیں ہے وزیراعظم اور وزیر خزانہ جس کے دعوے کررہے ہیں،اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب ملک میں نئی سرمایہ کاری تو کجا موجودہ صنعت کار اور سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ سمیٹنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں،ملک کی سب بڑی برآمدی صنعت پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات اب محض زوال پذیر نہیں رہیں بلکہ تیزی سے تباہ ہو رہی ہیں۔ یہ اس طویل عرصے کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جنہوں نے عالمی سطح پر مسابقت بڑھانے کے بجائے صنعت کی کمزوریوں کو سبسڈی سے سہارا دینے پر زیادہ توجہ دی۔ اس حقیقت کی ایک نمایاں مثال گل احمد ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے اسٹاک ایکسچینج کو بھیجا گیا نوٹس ہے، جس میں کمپنی نے اپنے ملبوسات کی برآمدی شعبے کو بند کرنے کے فیصلے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ نوٹس میں کہا گیا کہ مسلسل آپریشنل نقصانات، بڑھتی ہوئی لاگت، پالیسی تبدیلیاں اور علاقائی مسابقت جیسے عوامل نے کمپنی کو اس فیصلے پر مجبور کیا ہے۔ کمپنی کے مطابق مسلسل چیلنجز میں شدید علاقائی مسابقت، مضبوط ایکسچینج ریٹ، حالیہ حکومتی پالیسی تبدیلیاں جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ، نامزد فیبرکس کی بڑھتی ہوئی لاگت اور توانائی کے نرخ شامل ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر لاگت کے ڈھانچے اور منافع کو بری طرح متاثر کیا، جس کے نتیجے میں آپریشنل نقصانات کا سلسلہ جاری رہا۔یہ وجوہات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اندرونی عوامل نے کمپنی کے ملبوسات برآمدی آپریشنز کی بندش میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، اور پاکستان اپنی مسابقت کھو کر بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے حریفوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔اگر یہ حقیقت بھی پالیسی سازوں کو ان کی غفلت سے نہ جگا سکے تو پھر ارباب اختیار کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اس وارننگ پر ضرور غور کرنا چاہیے، جس میں لاجسٹکس سیکٹر کی شدید کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ملک کی اعلیٰ تجارتی تنظیم کی جانب سے تیار کردہ ایک پالیسی بریف میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غیر مؤثر اور مہنگا لاجسٹکس سیکٹر برآمدات کاگلا گھونٹ رہا ہے۔ جب پاکستان کے اندر مال کی نقل و حرکت جی ڈی پی کا 15.
حکومت کی ناقص پالیسیوں اور متعلقہ حلقوں اور ماہرین کی جانب سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود سب اچھا کی گردان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ برسوں میں متعدد غیرملکی کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ شاید ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔اس بحث نے زور اس وقت پکڑا جب رواں ہفتے امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) نے پاکستان میں کمرشل اور مینوفیکچرنگ سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی اینڈ جی بچوں، خواتین اور مردوں کے لیے مختلف اشیا تیار کر تی ہے جن میں صابن، سرف، لوشنز اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں۔اس کمپنی نے پاکستان میں 1991 میں کام کرنا شروع کیا تھا جس میں ملک میں فیکٹری لگانے کے ساتھ سپلائی چین کا پورا نیٹ ورک بھی موجود تھا۔اپنا کاروبار سمیٹنے کے اس اعلان میں پی اینڈ جی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کسی تقسیم کار کمپنی کا سہارا لے گی۔پی اینڈ جی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنی عالمی حکمتِ عملی کے مطابق ترقی اور قدر میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستان میں اپنے کاروبار اور آپریشنز کا ماڈل بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔پی اینڈ جی کے مطابق اب کمپنی پاکستان میں تیسرے فریق (تھرڈ پارٹی) ڈسٹری بیوٹر ماڈل کے ذریعے صارفین کو سہولت فراہم کرے گی۔ان کے مطابق ‘اس مرحلے پر پاکستان میں اپنے آپریشنز کو تھڑد پارٹی ڈسٹری بیوٹر ماڈل میں منتقل کرنا زیادہ مؤثر ہے،اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پی اینڈ جی پاکستان اور جیلیٹ پاکستان لمیٹڈ کی فیکٹری اور تجارتی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی اور صارفین کو کمپنی کے دوسرے علاقائی آپریشنز کے ذریعے اشیا مہیا کی جائیں گی۔کمپنی کا کہنا ہے کہ جن افراد کی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی ان کو یا تو دوسرے ممالک میں کام کرنے کے مواقع دیے جائیں گے یا پھر مقامی قوانین، کمپنی کی پالیسیوں اور اصولوں کے مطابق علیحدگی (سیپریشن) پیکج دیا جائے گا۔ کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی سب سے زیادہ توجہ پاکستان میں ملازمین پر ہو گی۔گذشتہ دنوں پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کی بڑی کمپنی گُل احمد ٹیکسٹائل نے بھی ملک میں ملبوسات کی تیاری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔گل احمد ٹیکسٹائل نے پاکستان میں اپیرل یعنی ملبوسات کے شعبے کو بند کرنے کے سلسلے میں جاری ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ کمپنی نے یہ فیصلہ اس شعبے کی کارکردگی اور مستقبل کے جائزے کے بعد لیا ہے۔کمپنی کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ شعبہ بہت زیادہ محنت طلب ہے اس لیے اسے کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کی وجہ سے منافع کمانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔کمپنی کے مطابق ان مسائل میں خطے کے دوسرے ممالک سے سخت مقابلہ، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مضبوطی، حکومت کی نئی پالیسیاں (جیسے ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس میں اضافہ)، کپڑوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بجلی و گیس کے زیادہ بل شامل ہیں ۔ان سب وجوہات کی وجہ سے اس شعبے کی لاگت بڑھ گئی اور منافع کم ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں یہ کاروبار مسلسل نقصان میں جا رہا تھا۔اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں ایلی للّی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر اور یاماہا نے بھی پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر دیے تھے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اس امر سے لاعلم نہیں ہوں گے کہ ملک میں گذشتہ کئی مہینوں سے یہ چہ مگوئیاں بھی چل رہی تھیں کہ پاکستان میں بجلی و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹیکسز اور دوسرے عوامل کے سبب کمپنیاں کاروبار بند کر رہی ہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت رانا احسان اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت زیادہ ہے۔پاکستان میں حالیہ برسوں میں بلند افراطِ زر، بلند شرح سود، ڈالر کی کمی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگے خام مال کی وجہ سے جہاں عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی وہیں پر کاروباری شعبہ بھی ملک میں کاروبار پر بڑھتی ہوئی لاگت کی شکایت کرتے نظر آیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کمپنیوں کے کام بند کرنے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے آپریشنز بند کرنے کے بارے میں ملک میں معاشی اور ٹیکس امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں پیداواری لاگت کے بڑھنے کی وجہ سے اب پاکستان میں مینوفیکچرنگ قابل عمل نہیں رہی ہے۔ پیداواری لاگت میں بجلی، گیس، ٹیکس، فنانسنگ اور خام مال کی قیمتوں میں اضافے سے اب ایسی صورت حال بن چکی ہے کہ پاکستان میں پیداواری عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ جو حالات بنے ہیں اس میں اب کمپنیاں پیداوار سے زیادہ ڈسٹری بیوشن اور ٹریڈنگ پر کام کریں گی جیسے کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی مصنوعات کی پیداوار تو بند کر دیں گی تاہم یہاں صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے سپلائی کریں گی۔ پاکستان میں ٹیکس نظام اور ریٹ کو بھی کمپنیوں کے پاکستان سے نکلنے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔اکستان میں ٹیکس نظام کافی زیادہ بوجھل اور غیر منصفانہ ہو چکا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کارپوریٹ ٹیکس اتنے زیادہ اور مختلف شکلوں میں نہیں لیے جاتے جتنے پاکستان میں لیے جاتے ہیں۔یہاں ایک بڑی کمپنی کو 39 فیصد انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس کے ساتھ سپر ٹیکس، ورکرز ویلفیئر کنٹریبیوشن اور ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جو مجموعی طور پر 50 فیصد ہو جاتا ہے۔اس بھاری ٹیکس کے بعد جب کمپنی شیئر ہولڈرز کو ڈویڈنڈ (منافع میں حصہ) دیتی ہے تو اس پر بھی 15 فیصد سے 25 فیصد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے، حالانکہ یہ آمدنی پہلے ہی ٹیکس شدہ ہوتی ہے۔پاکستان میں ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بند کرنے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں نقصان ہوگا وہیں دوسری جانب ملازمتیں بھی ختم ہوں گی جس سے حکومت کیلئے مسائل پیداہونا لازمی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان میں اپنے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بڑھتی ہوئی سرمایہ کار پاکستان کی کہ پاکستان شہباز شریف کی جانب سے پی اینڈ جی کر سکتی ہے کی وجہ سے کمپنی کے شامل ہیں حکومت کی غیر ملکی کے ذریعے کے مطابق رہی ہیں کرنے کے کا کہنا میں ملک ملک میں کرنے کا کے ساتھ ہے اور رہی ہے کو بھی کیا ہے کے لیے گیا ہے ہیں کہ کام کر کہ ملک میں پی
پڑھیں:
اسٹارٹ اپس اور عالمی سرمایہ کاری کے باعث پاکستان کا ڈیجیٹل سفر نئی بلندیوں پر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کی رفتار دن بدن تیز ہو رہی ہے اور اس انقلاب کا مرکز بنیادی طور پر وہ ٹیکنالوجیکل انفرا اسٹرکچر ہے جو گزشتہ چند برسوں میں غیر معمولی رفتار سے پھیل رہا ہے۔
ملک بھر میں ڈیجیٹل ترقی کے سفر کو ماضی میں کبھی اس انداز سے منظم نہیں دیکھا گیا تھا، تاہم موجودہ دور میں حکومت کی بھرپور توجہ، سرمایہ کاری میں اضافے اور ٹیکنالوجی اسکٹر کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے پاکستان کو ایک ڈیجیٹل نیشن بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے 27ویں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ سے خطاب میں وہ تمام عوامل واضح کیے جن کی بدولت پاکستان اب عالمی ڈیجیٹل نقشے پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کا ڈیجیٹل ایکوسسٹم اب اپنے ابتدائی مرحلے سے بہت آگے نکل چکا ہے، جس میں 43 سے زیادہ سافٹ ویئر ٹیک پارکس، 400 سے زائد ٹیک کمپنیاں اور 85 کے قریب انکیوبیٹرز شامل ہیں۔
ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ تیزی سے ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہو رہا ہے، جہاں اسٹارٹ اپس اور ڈیجیٹل اسکلز کا فروغ نہ صرف مقامی سطح پر روزگار پیدا کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت کو بھی مضبوط بنا رہا ہے۔
وزیر آئی ٹی کے مطابق پاکستان میں اس وقت 4,100 سے زائد اسٹارٹ اپس کام کر رہے ہیں، جن میں سے متعدد کمپنیوں نے امریکا، برطانیہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر ممالک میں اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔ اس بین الاقوامی رسائی نے ملکی ٹیک سیکٹر کے اعتماد کو بڑھایا ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں آئی ٹی ایکسپورٹ کو نئی جہت دی ہے۔
عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستانی ماہرین، پروگرامرز اور ٹیکنالوجی ہاؤسز کی موجودگی نہ صرف ملک کے لیے مثبت رجحانات پیدا کر رہی ہے بلکہ دنیا میں پاکستان کی سافٹ پاور کو بھی تقویت پہنچا رہی ہے۔
پاکستان نے مصنوعی ذہانت (اے آئی)، اسٹارٹ اپ ٹریننگ اور ڈیجیٹل مہارتوں کے شعبے میں 4.3 ملین افراد کو تربیت دے کر خطے میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان مستقبل کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے اپنے نوجوانوں کو بھرپور طور پر تیار کر رہا ہے۔
بین الاقوامی شراکت داریوں کی بدولت عالمی کمپنیوں کا پاکستان میں اعتماد بڑھ رہا ہے، جہاں ایس آئی ایف سی کی معاونت نے سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے ہیں اور ڈیجیٹل معیشت کے اندر پائیدار ترقی کے امکانات پیدا کیے ہیں۔
شزہ فاطمہ خواجہ نے اپنی بریفنگ میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ آئی ٹی سیکٹر میں 700 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ریکارڈ کی گئی، جو اس شعبے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوگل جیسی دنیا کی بڑی ٹیک کمپنی کا پاکستان میں فعال موجود ہونا ملک کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پیش رفت اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان اب نہ صرف ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل کو اپنا چکا ہے بلکہ اسے عالمی معیار کے مطابق وسعت دینے کے لیے بھی تیار ہے۔