صدر استحکام پاکستان پارٹی اور وفاقی وزیر عبدالعلیم خان نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی بیان بازی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی بیانات کی بجائے اپنے صوبوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کریں ۔ سندھ اور پنجاب میں منتخب وزرائے اعلیٰ موجود ہیں، بہتر ہو گا کہ جہاں مینڈیٹ ملا ہے وہاں کام کیا جائے۔عبدالعلیم خان نے کہا کہ لوگوں کو سیاسی بیان بازی نہیں بلکہ اپنے بنیادی مسائل کا حل چاہیے ۔امید ہے کہ بیان بازی کاسلسلہ اب بند ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو شہریوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہو گی۔ امید ہے پیپلزپارٹی کی جانب سے وفاقی حکومت کی حمایت جاری رہے گی۔صدر آئی پی پی نے کہا ملک و قوم کا استحکام اور نظام کا تسلسل اصل ترجیح ہے۔ قومی مسائل کے حل کے لئے باہمی افہام و تفہیم سے چلنا ہوگا ۔ الزام تراشی کرنا جمہوریت یا عوام کی کوئی خدمت نہیں ۔ سیاسی پختگی اور حالات کا تقاضا ہے کہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں، ہم پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں استحکام کے خواہاں ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

سیاسی بیان بازی : پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی سے واک آؤٹ، ن لیگی قیادت سے معافی کا مطالبہ

اسلام آباد:

پیپلز پارٹی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آؤٹ کرتے ہوئے ن لیگی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہماری قیادت کے خلاف بیان بازی پر معافی مانگے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کا اسمبلی کا اجلاس چیئرمین کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیریں رحمان نے کہا کہ ملک میں سیلاب اور آفت آئی ہوئ ہے، سندھ اور پنجاب کے لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، پی پی پی کی قیادت کی طرف سے کہنا چاہوں گی کہ ہم لوگوں کو تقویت دینے کے بجائے  کمزور کررہے ہیں، پنجاب حکومت اور سندھ حکومت میں الفاظ کی جنگ کا اثر وفاقی حکومت پر پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کارڈ پلے ہوکر ریڈ لائن کراس ہورہی ہے، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کے بارے میں باتیں کرنا نامناسب ہے، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہے، بلاول بھٹو نے بس اتنا کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو استعمال کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے مگر لوگوں کی تذلیل کرکے حکومتی اتحاد نہیں چلا کرتے، معافی مانگ کر کسی کی عزت نفس میں کمی نہیں ہوتی۔

شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کلائمیٹ جسٹس کی بات کی ہے، جنوبی پنجاب سیلاب سے تباہ ہوا ہے، فصلیں تباہ ہوچکی ہیں مگر جو الفاظ ادا کیے گئے مجھے انہیں دہراتے ہوئے شرم آرہی ہے، اگر ہماری قیادت سے معافی نہیں مانگی گئی تو ہمیں گرانٹڈ نہیں لیا جائے۔ ان الفاظ کے بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر کسی کے الفاظ سے دل آزاری ہوئی ہے تو بطور سیاسی کارکن مجھے دکھ ہے، صدر زرداری بزرگ سیاست دان ہیں وہ صلح جوئی کا کردار ادا کریں گے، اپوزیشن خوش نہ ہو کوشش کریں کے کہ دوستوں کو منا کر واپس لے آئیں۔

قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے ہدایت دی کہ سینیٹر خلیل طاہر سندھو، سینیٹر افنان اللہ، سینیٹر انوشہ رحمان جائیں اپوزیشن کو منا کر لے آئیں۔

تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں مقابلہ چل رہا ہے، امداد متاثرین تک تو نہیں پہنچی، شاید ان کی اپنی جیبوں تک پہنچی ہے، مقابلہ چل رہا ہے کس نے کتنی پریس کانفرنسز کیں، کتنی تصویریں بنوائیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اس ملک میں سب سے زیادہ حکمرانی کی، یہ لوگ ڈھٹائی سے مقابلہ کررہے ہیں کہ کس نے قوم کو کم دھوکا دیا اور قوم تکلیف میں تڑپ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے بچے آج بھی کھلے آسمان تلے بھوکے سو رہے ہیں اس کے باوجود دونوں جماعتیں بضد ہیں کہ انہیں ٹرافی دی جائے، میں پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں، بے حسی، نااہلی، لالچ کی ٹرافی دیتا ہوں، پنجاب میں 5700 گاؤں آج بھی زیر آب ہیں، ان دیہات میں کسانوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں، مویشی مرگئے۔ لوگ بے یقینی کا شکار ہیں اور 1 کروڑ 80 لاکھ لوگ بری طرح متاثر ہیں، 22 ہزار مربع کلومیٹر کی زمین متاثر ہوئی ہے، 60فیصد چاول، 30فیصد کپاس کی فصل تباہ ہوچکی ہے، اس نقصان کے باعث 3ارب ڈالرکی درآمدات کرنا پڑے گی، حالات دیکھیں اور یہ لوگ ایوان سے واک آؤٹ کررہے ہیں۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کپاس کی کمی کا اثر ٹیکسٹائل اور اس سے ملحقہ صنعتوں کو بھی پڑے گا، حکومت کا ردعمل صرف دکھاوا ہے، جتنی بھی امداد دی جارہی ہے وہ کرپشن کی نذر ہورہی ہے، حکومت اور اتحادی جماعتیں آپس میں کھیل رہی ہیں، سیلاب قدرتی ہے لیکن تباہی کے ذمہ دار حکومت اور ان کے اتحادی ہیں، پاسکو ختم کردیا گیا اس کی وجہ سے سیلابی موسم شروع ہونے سے پہلے ہی گندم کے ذخیرے ختم ہوگئے۔ پی ڈی ایم ایز کو فنڈز نہیں دئیے گئے۔

ان جملوں کے ساتھ ہی ایوان میں پی ٹی آئی اور ن لیگی سینیٹرز کے مابین نوک جھونک شروع ہوگئی۔ پی ٹی آئی سینیٹرز چیئرمین ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہم بھی کسی کو نہیں بولنے نہیں دیں گے، آپ کے پارلیمانی لیڈر کو 15 منٹ بولنے دیا گیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلیک میلنگ نہیں چلنے دیں گے ایک تو آپ غلط بات کریں، غلط اعداد و شمار دیں تو ایسے نہیں چلے گا۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے کہا کہ جب تک ہمارے پارلیمانی لیڈر کو بولنے نہیں دیا جاتا ہم نہیں جائیں گے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جب تک آپ نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے میں ان کو بولنے نہیں دوں گا۔

پی ٹی آئی سینیٹرز کے احتجاج پر علی ظفر کو بولنے کا دوبارہ موقع دے دیا گیا سینیٹر علی ظفر نے دوبارہ بولنا شروع کردیا۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کو سیاست سے پاک کیا جائے، راوی کے کنارے پر روڈا بنایا گیا جس کی اجازت پنجاب حکومت نے دی، ہماری معیشت وینٹی لینٹر پر ہے اور حکومت تصویریں بنانے میں مصروف ہے۔

ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ تو کیا کرے حکومت، بتائیں ناں!

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ اس پر قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس کے لیے کیا شوکت ترین کو دوبارہ لائیں؟

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب قدرتی آفت تھی اور قدرتی آفت کے سامنے انسانی تدبیریں نہیں چلتیں، آج دنیا میں ہماری سنی جارہی ہے، آج امریکا ہماری بات سن رہا ہے، آپ کا تو فون بھی کوئی نہیں اٹھاتا تھا، ایمل ولی کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی ہے وزیراعظم نے انھیں اپنے دوروں سے متعلق سارا بتایا ہے، پی ایم نے سعودی عرب امریکا اور اقوام متحدہ کے دورے کا انھیں بتایا، ایمل ولی نے کہا مجھے ان حقائق کا نہیں علم تھا اگر علم ہوتا تو یہ بات نہ کرتا، ایمل ولی آجائیں ایوان میں تو ان کو موجودگی میں بات کریں گے تو مناسب ہوگا۔

سینیٹر عمر فاروق نے کہا کہ وزیر مملکت نے جس زبان میں بات کی وہ ایک وزیر کو زیب نہیں دیتی، ایمل ولی خان کو جو لاج ایلوکیٹ کیا گیا وہ سب کو پتا ہے، شہباز شریف صاحب سے پوچھیں انہوں نے ایمل ولی خان کو کس طرح لاج میں رہنے کی اجازت دی ہے

سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ خاران میں قاضی کی عدالت کو آگ لگائی گئی ہے، پریزائیڈنگ افسر کو ان کی گاڑی سمیت اٹھایا گیا ہے یہ ریاست کا ایک ستون ہے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے جمعرات اور جمعہ کو ہم بات کریں گے۔

پی ٹی آئی کا بھی واک آؤٹ

اس دوران سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کورم کی نشاندہی کردی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینٹر سیف اللہ ابڑو میں شدید تلخ کلامی ہوئی اور دونوں جانب سے سخت جملوں کا تبادلہ کیا گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ جب سے ایوان میں آئے ہیں یہی کررہے ہیں، آپ بیٹھ جائیں اس پر سیف اللہ ابڑو بھڑک گئے اور کہا کہ آپ انگلی نیچے کرکے بات کریں۔ پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے دوبارہ کورم کی نشاندہی اس دوران پی ٹی آئی ارکان بھی ایوان سے واک آوٹ کرگئے۔

متعلقہ مضامین

  • نواز شریف پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں جاری بیان بازی پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
  • سیاسی بیان بازی : پیپلز پارٹی کا سینیٹ اور قومی اسمبلی سے واک آؤٹ، ن لیگی قیادت سے معافی کا مطالبہ
  • سیاسی بیان بازی : پیپلز پارٹی کا سینیٹ سے واک آ ئوٹ ، لیگی قیادت سے معافی کا مطالبہ
  • سیاستدان سیاسی بیانات کے بجائے اپنے صوبوں کی ترقی پر توجہ دیں: عبدالعلیم خان
  • سیاسی لڑائی بعد میں لڑیں گے ابھی پنجاب کے سیلاب متاثرین کی مدد ضروری ہے، ترجمان پیپلزپارٹی
  • سندھ میں 17 سال سے پی پی حکومت‘ مسائل کے انبار لگے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • جس صوبے میں پیپلزپارٹی کی 17 سال سے حکومت ہے وہاں مسائل کے انبار ہیں‘تر جمان پنجاب حکومت
  • ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے
  • جس صوبے میں پیپلزپارٹی کی 17 سال سے حکومت ہے وہاں مسائل کے انبار ہیں، عظمیٰ بخاری