WE News:
2025-10-06@22:05:26 GMT

چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے کی کوشش، ملزم گرفتار

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے کی کوشش، ملزم گرفتار

بھارتی سپریم کورٹ میں اس وقت ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جب ایک بزرگ شخص نے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی کی جانب جوتا پھینک دیا۔

جوتا بینچ تک نہ پہنچ سکا اور سیکیورٹی اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مذکورہ شخص کو حراست میں لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی فوج کی درندگی، سرحد پار کرنے والی 8 بکریاں ہلاک، 54 کی ٹانگیں توڑ دیں

عینی شاہدین کے مطابق، چیف جسٹس گوائی نے جیسے ہی دن کے پہلے مقدمے کی سماعت شروع کی، ایک بزرگ شخص نے نعرے لگانے شروع کیے کہ “ھارت ساناتن کی توہین برداشت نہیں کرے گا اور اسی دوران جوتا چیف جسٹس کی طرف اچھال دیا۔

Unprecedented Fascist Act.

Lawyer tries to hurls shoe at Dalit Chief Justice of India, Gavai, in Supreme Court –shouting we will not tolerate his legal actions against Sanatan Dharma — High Caste Manuvadi Hinduism!
But CJI says "These Don’t Affect Me".https://t.co/8n6qyL1KGZ

— Jawhar Sircar (@jawharsircar) October 6, 2025

تاہم پھینکا گیا جوتا اپنے ہدف تک نہ پہنچ پایا اور فوراً ہی اہلکاروں نے اسے قابو کر لیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، جوتا پھینکنے والے شخص کے پاس وہ سیکیورٹی کارڈ تھا جو سپریم کورٹ میں وکلا اور ان کے معاون عملے کو دیا جاتا ہے، کارڈ پر نام کیشور راکیش درج تھا۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق واقعے کی وجوہات کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا ہے اور سیکیورٹی ادارے ملزم سے تفتیش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارتی ہٹ دھرمی برقرار: ویمنز ورلڈ کپ کے میچ میں بھی بھارتی کپتان کا پاکستانی کپتان سے ہاتھ ملانے سے گریز

چیف جسٹس گوائی نے واقعے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے واقعات سے متاثر ہونے والے آخری شخص ہیں لہذا سماعت جاری رکھی جائے۔

انہوں نے عدالتی عملے کو مذکورہ شخص کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی کی۔

معروف قانون دان اندرا جیسنگھ نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔

مزید پڑھیں:بھارت نے اگر دوبارہ حملے کی کوشش کی تو اسکور پہلے سے بہتر ہوگا، خواجہ سعد رفیق

ان کے بقول، یہ سپریم کورٹ پر ایک واضح ذات پات پر مبنی حملہ معلوم ہوتا ہے جسے اجتماعی طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔

’چیف جسٹس نے جس وقار کے ساتھ اپنی کارروائی جاری رکھی، وہ قابلِ تعریف ہے۔‘

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چیف جسٹس گوائی حال ہی میں خجوراہو میں وشنو کے مجسمے کے حوالے سے دیے گئے ایک بیان پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں تھے۔

مزید پڑھیں: ثنا میر اور بھارتی انجم چوپڑا ایک ساتھ، ’کھیل میں نفرت پھیلانے والوں کے لیے یہ پیغام ہے‘

چیف جسٹس نے ایک عوامی مفاد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’جائیے، خود دیوتا سے کہیں کہ وہ کچھ کریں۔‘

اس بیان کے بعد مذہبی حلقوں نے اسے ’وشنو بھکتوں کے عقیدے کی توہین‘ قرار دیا تھا۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے وضاحت کی تھی کہ ان کے الفاظ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، انہوں نے کہا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ساڑھی کی صنعت بحران کا شکار

اس موقع پر سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ سوشل میڈیا ہر بات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا دیتا ہے۔

’پہلے ہم نیوٹن کا قانون پڑھتے تھے کہ ہر عمل کا برابر ردِعمل ہوتا ہے، مگر اب ہر عمل کا غیر متناسب سوشل میڈیائی ردِعمل ہوتا ہے۔‘

سینیئر وکیل کپل سبل نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ روزانہ اس کا سامنا کرتے ہیں، سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑا ہے، جسے قابو کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اندرا جیسنگھ بھارت بی آر گوائی بے لگام تشار مہتا چیف جسٹس سپریم کورٹ سوشل میڈیا قانون دان گھوڑا نیوٹن

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اندرا جیسنگھ بھارت بی آر گوائی بے لگام تشار مہتا چیف جسٹس سپریم کورٹ سوشل میڈیا گھوڑا نیوٹن سپریم کورٹ مزید پڑھیں سوشل میڈیا کرتے ہوئے چیف جسٹس کہا کہ

پڑھیں:

زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیر حراست ملزم کا انٹرویو فیئر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے وشال شاکر کی زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا اور زیر حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور ملزمان کے اعترافی بیانات جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ کسی میڈیا پرسن کو زیر حراست ملزم کا انٹرویو کرنے کی اجازت نہیں دے گا، زیر حراست ملزم کا انٹرویو اس کی عزت نفس اور مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے، زیر حراست ملزم کا انٹرویو فئیر ٹرائل کو متاثر کردیتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے افسر کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، زیر حراست ملزم کے انٹرویو کی تمام ذمہ داری تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ پر ہوگی۔عدالت نے بتایا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے کردار کو ریگولیٹ کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ناکوں اور چیک پوسٹوں پر میڈیا نمائندوں کو ساتھ کھڑا کر کے شہریوں کی تذلیل کرنا افسوس ناک ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا پورا حق ہے، میڈیا میں مقبولیت کے لیے شہریوں کی عزت اور وقار کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، شہرت کی خواہش بذات خود قابل اعتراض نہیں ہے۔

مذکورہ مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کی اور زیر حراست ملزمان کی میڈیا کے ذریعے کردار کشی اور عزت نفس مجروح کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جبکہ پولیس، ایکسائز، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ جمع کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ زیر حراست ملزمان کے انٹرویو سے نہ صرف ملزم کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ پراسیکیوشن کا کیس بھی کمزور ہوتا ہے، ایسے اقدامات سے نہ صرف قانونی اور اخلاقی سوالات جنم لیتے ہیں بلکہ فوجداری نظام انصاف کے لیے بھی تشویش ناک ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ کسی بھی فرد کا وقار ناقابل تسخیرہے جو پولیس کے دروازے پر ختم نہیں ہوسکتا، کسی ملزم کی قانونی گرفتاری اس کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کرتی، زبردستی اور تشہیر شدہ اعتراف جرم انصاف نہیں بلکہ ظلم ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کہتا ہے ہر شہری کو عزت اور قانون کے مطابق دیکھا جائے، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور عزت نفس کا خیال رکھیں۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ دوران حراست ملزمان کے انٹرویو میڈیا ٹرائل کی ایک شکل ہے، میڈیا ٹرائل کا مطلب ہے کہ کسی عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کو بے گناہ یا قصور وار ڈکلیئر کرنے کے لیے عوامی رائے قائم کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ میڈیا معاشرے کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور لائن کراس نہ کرے، میڈیا کو عدلیہ اور تفتیشی کی ڈومین سے تجاوز کر کے اوپر نہیں جانا چاہیے، میڈیا کے ذریعے ٹرائل سے نہ صرف کام خراب ہوتا ہے بلکہ ملزم کے فئیر ٹرائل پرائیویسی بھی کمپرومائز ہوتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی زیر حراست ملزم کو میڈیا تک رسائی دینے اور انٹرویو کرانے پر تفتیشی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا، اس کیس میں ایک طرف آئین میں دی گئی میڈیا کی آزادی اظہار اور دوسری طرف ملزم کے فئیر ٹرائل اور بنیادی حقوق کو بیلنس کرنا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا کہ میڈیا کو زیر التوا ٹرائل اور تحقیقات کی درست رپورٹنگ کرنے کی آزادی ہے مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہے، میڈیا کو غلط، ہتک آمیز، غیر پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مزید کہا گیا ہے کہ زیر حراست کا مطلب کسی بھی فرد کو قانونی طور پر گرفتار کرنا ہے، موجودہ کیس میں زیر حراست کا دائرہ وسیع کرتےہوئے ناکوں اور چیک پوسٹوں پر روکنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • بھارتی سپریم کورٹ میں وکیل کا چیف جسٹس پر جوتا سے حملہ
  • وکیل نے دوران سماعت بھارتی چیف جسٹس پر جوتا پھینک دیا 
  • کراچی؛ مبینہ پولیس مقابلوں میں ڈکیت ہلاک، تین زخمی حالت میں گرفتار
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام حکمرانوں کا نان نفقہ بند کر دیں گے، حافظ نعیم الرحمان
  • بھارت نے اگر دوبارہ حملے کی کوشش کی تو اسکور پہلے سے بہتر ہوگا، خواجہ سعد رفیق
  • خاتون کی نشاندہی پر موبائل فون اور پرس چھیننے والا ملزم گرفتار
  • زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویو کرنے اور اعترافی بیان میڈیا پر جاری کرنے پرپابندی عائد
  • امیر بالاج ٹیپو قتل کیس میں اہم پیشرفت، مرکزی ملزم دبئی سے گرفتار
  • امیربالاج ٹیپو قتل کیس کا مرکزی ملزم طیفی بٹ دبئی سے گرفتار