اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری سے متعلق مقدمہ جاری رکھ سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکے جانے اور سپریم کورٹ کی جانب سے اِسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیے جانے کے حوالے سے تحریری فیصلہ آ گیا ہے، لیکن فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ اس مقدمے میں پہلے آفس اعتراضات پر سماعت کرے گی، اُس کے بعد قانون کے مطابق اِس معاملے میں آگے بڑھے گی۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس طارق جہانگیری کیس میں تحریری آرڈر جاری کر دیا۔ 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا ہے، جسٹس شاہد بلال نے 5 صفحات کا اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا عبوری حکم کالعدم قرار دے دیا، ہائیکورٹ کے جج کو عبوری حکم کے ذریعے عدالتی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روکا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ
ہائیکورٹ پہلے دفتر کے اعتراضات کا فیصلہ کرے اور قانون کے مطابق کارروائی آگے بڑھائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج کو کام سے نہیں روکا جا سکتا اور اِس سلسلے میں سپریم کورٹ کے 10 رُکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست آرٹیکل 199 کی ذیلی شق ون (بی)(2) کے تحت دائر کی گئی جو معلومات کے حصول سے متعلق ہے۔ لیکن ملک اسد کیس میں کہا گیا ہے کہ کسی جج سے متعلق یہ معلومات کہ آیا وہ مقررہ تعلیمی اور دیگر معیارات پر پورا اُترتے ہیں یا نہیں، یہ صرف متعلقہ فورم پر پوچھا جا سکتا ہے نہ کہ آرٹیکل 199 کے تحت پٹیشن کے ذریعے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس طارق محمود جہانگیری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس طارق محمود جہانگیری جسٹس طارق جہانگیری میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کام سے
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں عدالتی کارروائیاں معطل، ججز عدالتوں میں کیوں نہیں آئے؟
خیبر پختونخوا بھر میں پیر کے روز عدالتی کارروائیاں معطل رہیں جب پشاور ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں کے ججز نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
ذرائع کے مطابق پیر کی صبح جب عدالتی کارروائی شروع ہونے کا وقت ہوا تو ججز عدالتوں میں آئے مگر کارروائی شروع کیے بغیر واپس چلے گئے، جس کے بعد صوبے بھر میں عدالتی امور معطل رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ میں پشتو ٹک ٹاک لائیو پر پابندی کی درخواست کیوں دائر کی گئی؟
بتایا جاتا ہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور دیگر ججز کو گزشتہ جمعے کے روز ہائی کورٹ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعے پر شدید تحفظات ہیں۔
تاہم دوپہر کے وقت چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور بار کے نمائندوں کے درمیان ملاقات کے بعد ججز نے اپنے تحفظات دور کر لیے، جس کے بعد دن 2 بجے کے بعد عدالتی کارروائیاں دوبارہ شروع ہو گئیں۔
پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے جمعے کے روز پیش آنے والے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق عدالتی احاطے میں اس نوعیت کے واقعات ناقابلِ قبول ہیں۔
بیان کے مطابق واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو ذمہ داروں کا تعین کرے گی اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کرے گی۔
جمعے کے روز پشاور ہائیکورٹ میں کیا ہوا تھا؟ذرائع کے مطابق جمعے کے روز پشاور ہائیکورٹ میں اس وقت ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی جب چارسدہ میں وکیل کے مبینہ قتل میں نامزد ایس ایچ او اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کے لیے عدالت پہنچا۔
پولیس افسر سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا، اور وکلا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس کا کیس نہیں لڑیں گے۔ تاہم ایک سینیئر وکیل شبیر حسین گگیانی عدالت میں پیش ہوئی۔
اس کے بعد وکلا اور ایس ایچ او کے ساتھیوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جو بعد ازاں تشدد میں بدل گئی۔ واقعے کے دوران عدالتی حدود میں بدنظمی پیدا ہو گئی تھی۔
ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا مؤقفپشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امین الرحمان یوسف زئی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ حالیہ واقعے کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے بار نمائندوں کو طلب کیا اور ملاقات کے دوران تمام معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بار نے ٹاؤٹ ازم کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں کچھ وکلا کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔ ’جن کی رکنیت معطل ہے وہ بار روم میں داخل نہیں ہوسکتے، تاہم اگر کسی کا لائسنس فعال ہے تو وہ عدالت میں پیش ہوسکتا ہے۔‘
امین الرحمان یوسف زئی نے مزید کہاکہ شبیر حسین گگیانی نے بار کے خلاف شکایت درج کرائی ہے جو چیف جسٹس کے علم میں لائی گئی۔ چیف جسٹس نے بار سے وضاحت طلب کی کہ آئندہ اس نوعیت کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس نے یہ تاثر ظاہر کیا کہ وکلا نے ایس ایچ او کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے دباؤ ڈالا، تاہم ہم نے واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے۔ ’ہم ہمیشہ عدالتوں کی آزادی اور وقار کے لیے کھڑے رہے ہیں اور رہیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: سزا یافتہ افراد الیکشن کمیشن یا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے، پشاور ہائیکورٹ
آخر میں صدر بار نے بتایا کہ میٹنگ میں اتفاق ہوا ہے کہ عدالتوں میں صرف وہی وکلا پیش ہو سکیں گے جن کا لائسنس درست اور فعال ہوگا، جبکہ جن کی بار رکنیت معطل ہے انہیں بار روم میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس نے بھی یقین دہانی کرائی کہ عدالتی احاطے میں غیر متعلقہ افراد کو داخل ہونے دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پشاور ہائیکورٹ پشاور ہائیکورٹ بار چیف جسٹس خیبرپختونخوا عدالتی کارروائی معطل ناخوشگوار واقعہ وی نیوز