دہلی دھماکے کی تفتیش میں تیزی سے کشمیری ڈاکٹروں میں خوف و بے چینی میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
ایک سینیئر پروفیسر کے مطابق کلاس ورک معمول کے مطابق جاری ہے، مگر میڈیا خاص کر سوشل میڈیا پر کشمیری ڈاکٹروں کے بارے میں گردی کررہی منفی خبروں سے ہم سب پریشان ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لال قلعہ کار دھماکے کی تفتیش جوں جو تیز ہو رہی ہے، وادی کشمیر کے ڈاکٹروں میں خوف اور بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔ سرینگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) اور ایس ایم ایچ ایس (SMHS) اسپتال میں مریضوں اور تیمارداروں کی بھیڑ لگی ہے، مگر ڈاکٹروں کے چہروں پر تشویش کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں۔ کئی ڈاکٹروں کو تحقیقاتی ایجنسیز نے پوچھ گچھ کے لئے طلب کیا ہے۔ سفید کوٹ پہنے ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرنے میں مشغول ہیں، پروفیسر اور طلبہ اپنی کلاسوں میں جا رہے ہیں، مگر ماحول میں ایک انجانا خوف صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تفتیشی ایجنسیاں دہلی دھماکے کے سلسلے میں چھاپے مار رہی ہیں اور کئی جگہوں پر تفتیش جاری ہے۔
10 نومبر کو جموں و کشمیر پولیس نے سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں دو کشمیری ڈاکٹرس کولگام کے عادل احمد راتھر اور پلوامہ کے ڈاکٹر مزمل شکیل گنائی بھی شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ ایک بین ریاستی اور بین الاقوامی نیٹ ورک ہے جس کا تعلق جیش محمد اور انصار غزوۃ الہند جیسی عسکری تنظیموں سے تھا۔ اسی شام دہلی کے لال قلعہ کے قریب کار دھماکہ ہوا میں 13 شہری ہلاک ہوئے۔ دھماکے میں تباہ ہوئی کار مبینہ طور پر پلوامہ کے ڈاکٹر عمر نبی چلا رہے تھے۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے وادی کشمیر میں بڑی کارروائی شروع کی اور سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا۔ جی ایم سی، سرینگر کے کئی ڈاکٹروں کو بھی پوچھ کچھ کے لیے طلب کی گیا اور اس معاملے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔
نومبر 2023ء میں نوکری سے برطرف کئے گئے میڈیسن کے سابق اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نثار الحسن کو بھی این آئی اے نے فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی سے حراست میں لیا، جیسا کہ ان کی اہلیہ ڈاکٹر ثریا نے بتایا۔ ڈاکٹر عمر نبی اور ڈاکٹر عادل احمد، جی ایم سی کے سابق طلبہ ہیں جبکہ ڈاکٹر مزمل نے جموں کے اے ایس کامس کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر عمر نبی نے الفلاح یونیورسٹی جانے سے قبل ایس ایم ایچ ایس اور جی ایم سی اننت ناگ میں سینیئر ریزیڈنٹ کے طور پر کام کیا تھا اور کئی پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی رہنمائی بھی کی تھی۔
دہلی دھماکے کے بعد کئی ڈاکٹروں کی حراست اور ان سے پوچھ گچھ نے طبی شعبہ سے وابستہ پیشہ وار افراد میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ ہسپتال کے سینیئر اور جونیئر ڈاکٹروں نے تسلیم کیا کہ خوف تو ہے، مگر کام کاج معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ ایک سینیئر پروفیسر کے مطابق کلاس ورک معمول کے مطابق جاری ہے، مگر میڈیا خاص کر سوشل میڈیا پر کشمیری ڈاکٹروں کے بارے میں گردی کر رہی منفی خبروں سے ہم سب پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھماکہ افسوسناک ہے مگر پوری میڈیکل برادری کو اس کے ساتھ جوڑنا ناانصافی ہے۔ کالج کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق کئی ایسے ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ کی گئی جو ماضی میں ان گرفتار شدہ ڈاکٹروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں یا کسی پیشہ ورانہ تعلق میں رہے ہیں۔
ایک اور سینیئر کنسلٹنٹ نے کہا کہ جی ایم سی سرینگر سے سینکڑوں ڈاکٹر فارغ ہو کر ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں، اگر چند افراد کی تفتیش ہو رہی ہے تو اس بنیاد پر پوری برادری پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی گزشتہ روز ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا تھا اور آج جموں میں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ پوری کشمیری قوم کو دہشتگرد قرار دینا صحیح نہیں۔ دریں اثناء جب تفتیشی ایجنسیاں دہلی دھماکے اور مبینہ نیٹ ورک کے بارے میں مزید تفصیلات تلاش کر رہی ہیں، جی ایم سی کے وارڈز، او پی ڈی اور راہداریوں میں مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کا رش بدستور جاری ہے اور طبی و نیم طبی عملہ بھی اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دہلی دھماکے ڈاکٹروں کے جی ایم سی کے مطابق رہے ہیں جاری ہے رہی ہے
پڑھیں:
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی، 2009 پوائنٹس کا اضافہ
پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں کاروباری ہفتے کے چوتھے روز تیزی دیکھی جارہی ہے۔ کاروبار کے دوران بازار حصص کے 100 انڈیکس میں 2009 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد 100 انڈیکس ایک لاکھ 60 ہزار 193 پر آگیا۔ آج اب تک کاروبار کے دوران 100 انڈیکس ایک لاکھ 58 ہزار 971 پوائنٹس کی نچلی سطح تک آیا جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار 379 کی بلندی تک بھی گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز کاروبار کے اختتام پر 100 انڈیکس ایک لاکھ 58 ہزار 183 پوائنٹس پر بند ہوا تھا۔