Islam Times:
2025-11-22@21:51:45 GMT

طوفان الاقصیٰ آپریشن کیسے ایک پیشگی حملہ تھا!

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

طوفان الاقصیٰ آپریشن کیسے ایک پیشگی حملہ تھا!

اسلام ٹائمز: یہ آپریشن فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے رہنما شہید یحییٰ سنوار کی رہنمائی، سرپرستی اور قیادت میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کی خبر دنیا نے سنی، اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی شروع کی، حزب اللہ نے فلسطینی مجاہدین حمایت میں اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کی دست بوسی کرتا ہوں جو اسرائیل کیخلاف نبردآزما ہیں۔ لیکن سعودی عرب، اردن اور مصر سمیت عربی اور اسلامی ممالک نے اسے حماس کی غلطی قرار دیا۔ اس کامیاب آپریشن کو دوسرا سال مکمل ہونے پر اس دوران سیاسی و عسکری پیشرفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

اس کے علاوہ ٹرمپ امن منصوبے کیصورت میں مذاکراتی عمل کی نئی شرائط اور ٹرمپ پلان کے ساتھ حماس کے ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے ابھارا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور اس سے آگے مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے نتیجہ خیز اور مفید تھا یا نہیں؟۔ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دو سال کی جنگ کے بعد غزہ کے 70000 سے زیادہ شہری شہید، 200000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور غزہ کا 90% سے زیادہ علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے اہم حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ، ایک اور زاویے سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں شامل ہوئی تھی، ستمبر 2024 میں شدید ترین حملوں کا نشانہ بنی، جس کی انتہا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ یہاں تک کہ آپریشن طوفان الاقصی کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024 کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط، حزب اللہ کیخلاف اسرائیلی امریکی حملوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن 7 اکتوبر کے متعلق یہ سب غلط اندازے ہیں، ان کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کارروائی صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھی اور حماس نے یہ اقدام خود کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لئے انجام دیا۔ یہ بات مزاحمت اسلامی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں مزاحمت اسلامی کو صیہونی حکومت اور عالمی شیطانی طاقتوں کی طرف سے کس پیمانے پر اور کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مشکل حالات درپیش ہونگے۔ 

اسی لئے حماس نے دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی اور محاصرے برداشت کرنے کے بعد مکمل طور پر خاتمے کی بجائے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک تمام تر مصائب کے باوجود مسئلہ فلسطین کو دوبارہ توجہ کے مرکز بنانے کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان بن چکی ہیں، بلکہ بہت سی حکومتیں، حتیٰ کہ یورپ میں، جو صیہونی حکومت کے روایتی حلیف ہیں، وہ بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔

7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسرا، فوجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔

طوفان الاقصیٰ سے پہلے صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے کیساتھ نمٹانے کے لیے صفر لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق، مہلک آلات ستمبر 2023 میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل لبنان میں بھیجے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن مہینوں سے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تب بھی یہ مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی۔

مہلک وائرلیس آلات کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی جو واقعہ طوفان الاقصیٰ کے بعد پیش آنے سے سامنے آئی۔ ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمت پر مبنی جنگ برسوں پہلے شروع ہو چکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، لیکن اس کا انتخاب مزاحمت نے خود کیا۔ فرق یہ تھا کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمت کا محور مکمل طور پر اچانک حملوں کا شکار ہوتا اور اسے پچھلے دو سالوں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمت کا محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے، جس نے انہیں ایک لمحہ بھی سکون نہیں دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آپریشن طوفان الاقصی صیہونی حکومت کے صیہونی حکومت ا سے زیادہ حزب اللہ حماس کی تھی اور کے ساتھ سے پہلے کے لیے اور اس کے بعد غزہ کے

پڑھیں:

میں کیسے چپ رہوں؟

بہت سوچا کہ بس اپنا منہ بند رکھوں ، خاموش رہوں مگر پھر خیال آیا کہ کسی بھی عمل پر چپ رہنا بھی تو اس عمل پر نیم رضا مندی ہی سمجھی جاتی ہے ، میں بھلا اپنی اقدار و روایات اور تہذیب وتمدن کو کیسے ترک کر سکتا ہوں۔ 

مجھے بار بار میرا ماضی کچو کے لگاتا ہے کہ جس منظر نامہ میں اب تم زندہ ہو ، خود کو مردہ ہی سمجھو کیونکہ اصل زندگی تو وہی تھی جو تمہارا ماضی تھا اپنے کمرہ میں بند جب گھنٹوں تصورات کی دنیا میں گم رہتا ہوں تو ایک جاندار مووی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 

میں بچپن سے لڑکپن اور شباب کے بعد اب اس حال پر نظر ڈالتا ہوں تو نسیم سحری کے پْر لطف جھونکے میرا استقبال کرنے لگتے ہیں، صبح کا منظر ، بابا کی گرجدار آواز ، بیٹا اٹھو، نماز فجر کا وقت ہوا چاہتا ہے ، امی جی کا وہ نیم گرم پانی سے ہمیں وضو کرانا ، سر پر ہلکی سفید ٹوپی پہنے ہم بھی بابا کی انگلی پکڑے مسجد کی جانب چل پڑتے۔ 

کم سن اتنے تھے کہ ابھی نماز پوری نہیں آتی تھی مگر پھر بھی نمازیوں کی صف میں بابا کے ساتھ کہیں دبک کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے ، واپسی پر امی لکڑی کی آگ پر پراٹھے اور وہ بھی خالص دیسی گھی میں پکا کر کھلاتیں۔

مکھن کی ڈلی، شہد اور دودھ کا گرما گرم گلاس ہمارا روز کا معمول ہوا کرتا تھا ، سرکاری اسکول اور ایک جیسا ملیشیاکا کالا سوٹ سب کا یونیفارم ہوا کرتا تھا ، استاد ذی وقار خود سرکنڈے سے قلم گھڑتے اور تختی پر خوشخط لکھنا سکھاتے تھے۔ 

اسکول سے کالج اورکالج سے یونیورسٹی تک کا سفر انتہائی آسانی اور ذوق و شوق سے گزر گیا۔ بچپن اور لڑکپن میں ہم بچے بچیاں اکٹھے کھیل کود میں مصروف رہتے ، بہن بھائی کا سا پیار ہوا کرتا تھا، یوں فحاشی، بے حیائی اور بے غیرتی نہ تھی جو آج عام ہو چکی ہے۔ 

ہمارے بچپن کی لڑکیاں جو اب تین چار یا اس سے بھی زیادہ بچوں کی مائیں بن چکی ہیں کہیں سر راہ یا کسی تقریب میں مل جائیں تو بہنوں جیسا رویہ ہوتا ہے ان کا ، خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، یہ تھا تیقن، بھروسہ اور اعتماد جو آج تک قائم ہے۔

زندگی ایک سفر کی مانند چلتی رہتی ہے مگر اپنی حسین یادیں چھوڑ جاتی ہے یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو واحد تفریح، اطلاعات اور تازہ ترین خبروں کا ذریعہ تھا ، بابا علی الصبح نماز فجر اور قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت کے بعد ریڈیو پاکستان پر ممتاز نعت خواں جناب محمد اعظم چشتی کی آواز میں نعت رسول مقبول سننے کی سعادت حاصل کرتے اور پھر بی بی سی کا شہرہ آفاق پروگرام "سیربین" سنتے ۔

65 کی جنگ ستمبر کے دوران میں لگ بھگ پانچ برس کا تھا مگر وہ جنوں وہ جذبہ وہ عزم اور ولولہ یاد ہے ملکہ ترنم کے گائے ہوئے ملی نغمات نے پاک فوج کا مورال بلند کیا ، "اے وطن کے سجیلے جوانو" میرے نغمے تمہارے لیے ہیں" اور نسیم بیگم کے گائے ہوئے اس گیت نے تو سماں ہی باندھ دیا تھا کہ

اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

جب ہم جواں سال تھے تو ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کی پہلی آواز بن کر ابھرے ، خواتین میں پہلی آواز ڈیرہ کی خاتون ذی وقار سیدہ آمنہ نقوی کی تھی ، یہ وہ دور تھا جب ریڈیو پر ہر حرف اور ہر لفظ کے تلفظ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ 

لوگ ریڈیو سے اپنی گھڑیوں کا وقت ملایا کرتے تھے ، کمپیئرنگ ، اناؤنسمنٹ،ڈرامہ ، دینی و سماجی پروگرام سب کچھ بڑا ہی معیاری ہوا کرتا تھا کیونکہ اس دور کے ریڈیو پروڈیوسر ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے۔ 

بہت قابل ، ذہین و فطین، مکمل پروفیشنل ، میں اگر اس دور کے ریڈیو پروگراموں اور پروڈیوسرز کی اہلیت و صلاحیت پر بات کروں تو کم از کم دس تصانیف رقم کر سکتا ہوں۔ اس دور کے موسیقار، گلوکار، کمپوزر، گیت نگار اور ہر فیلڈ کا عملہ اوصاف اورفن میں اپنی مثال آپ تھا۔ پھر ٹیلی وژن کا دور آیا۔ 

بڑے بڑے کمال مہارت رکھنے والے پروڈیوسرز نے ٹی وی کی زلفیں سنواریں، وارث، پیاس، تنہائیاں، ففٹی ففٹی، اندھیرا اجالا اور ایسے بے شمار ٹی وی ڈراموں نے برصغیر میں دھوم مچا دی، یہ ڈرامے جب ٹیلی کاسٹ ہوتے تو ہمسایہ ممالک میں بھی بازار بند ہو جایا کرتے تھے۔

ہماری فلم انڈسٹری بھی مثالی فلمیں بناتی رہی،اداکار اداکاری کا حق ہی ادا کر دیتے تھے ، فلمسٹار محمد علی ، وحید مراد، ندیم، مصطفی قریشی اور ایسے ہی عظیم فنکار طالش ، علاؤالدین ، ڈراموں میں قوی خان، عابد علی ، فردوس جمال ، محمد شفیع ، معین اختر ، عمر شریف ، ننھا، کمال احمد رضوی ، اطہر شاہ خان اورلہری جیسے لیجنڈز پھر زمانہ پیدا نہ کر سکا۔ 

امن و امان کی صورتحال ایسی کہ رات گئے تک لوگ آزادانہ گھومتے پھرتے، محافل و مجالس عروج پر تھیں کہ اچانک ایسی زہریلی ہوا چلی کہ سب کچھ غارت ہو گیا ، ہم ماضی کو ڈھونڈتے اور پکارتے رہ گئے مگر وہ تو شاید کوسوں دور ہم سے روٹھ کرکہیں دوسرے جہاں جا چکا تھا۔ 

آج ایک عمر رسیدہ بابے سے ملاقات ہوئی، اوڑھنی لپیٹے گلیوں کی خاک چھانتا پھر رہا تھا ہم اسے قریبی ڈھابے پر لے گئے' چائے کا ایک کپ پیش کیااور پھر خوب گپ شپ رہی 'دوران گفتگو وہ اور میں جی کھول کر روئے ، کیسے چپ رہا جاسکتا ہے۔

یہ بدامنی، یہ نفرتیں اور کدورتیں، یہ مظلوم لوگوں کا خون نا حق، آئے روز رہزنی ، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں ، اداروں میں نکمے ، رشوت خور اور لالچی لوگوں کی بھرمار، بازاروں میں اشیاء خورونوش کے خود ساختہ نرخ، ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اوررہی سہی کسر بھتہ خوری اور سود خوری نے پوری کر دی ہے۔ 

کس کس بات کا رونا روئیں، اس سردی میں ننگے پیر، دریدہ پیرہن لوگ دو وقت نان جویں تک کو ترستے نظر آتے ہیں، دم گھٹتا ہے اس ماحول میں، اس زہریلی ہوا میں سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے ، بابے نے کہا ارے صاحب ! ہم تو واللہ اپنے ماضی میں ہی ابھی تک زندہ ہیں۔ 

حال کو تو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔ حال کے آئینے میں مستقبل کو سوچتے ہیں تو وہ بھی کوئی اچھا نظر نہیں آتا ، وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے سچے دین مبین اسلام سے ہٹ کر دیگر مذاہب کے لوگوں کی عادات و اطوار اپنا چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میں کیسے چپ رہوں؟
  • ایرانی ہیکرز نے صیہونی فوجی صنعت کے سینئر انجینئرز کی ذاتی تفصیلات شائع کر دیں، اسرائیلی میڈیا
  • حماس نے اسرائیل کو خبردار کر دیا، جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رہی تو غزہ میں کارروائیاں بڑھائی جائیں گی
  • اسرائیلی حملے میں رہنما کی شہادت؛ حماس نے غزہ جنگ بندی ختم کرنے کا عندیہ دیدیا
  • ڈیڑھ برس میں وہ کام کئے جو دہائیوں میں نہ ہو سکے، سیلاب، پیشگی اقدامات ضروری: مریم نواز
  • حیدرآباد،ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر تجاوزات کیخلاف آپریشن
  • خیرپور میں ڈاکوئوں کے خلاف کریک ڈائون، پناہ گاہیں نذر آتش کردی گئیں
  • خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی آپریشن، بھارتی آلہ کار 13 خوارج مار دیے گئے
  • صیہونی فورسز کی غزہ میں فضائی جارحیت جاری، خواتین، بچوں سمیت مزید 28 فلسطینی شہید
  • پاک بحریہ ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے پرعزم،  بحیرہ عرب میں مشترکہ آپریشن، 130 ملین ڈالر کی منشیات پکڑ لی