حماس کےحملے نے اسرائیلی عوام کا سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد توڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس تباہ کن واقعے نے اسرائیل کے داخلی اور خارجی محاذوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ غیر ملکی امور کے تجزیہ کاروں کا متفقہ خیال ہے کہ ان حملوں نے اسرائیل کو دو بنیادی طریقوں سے بدل ڈالا ہے، مگر ایک کلیدی مسئلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے بڑی تبدیلی اسرائیل کے سلامتی کے پرانے تصور کی مکمل تباہی ہے۔ یہ نظریہ برسوں سے قائم تھا کہ حماس کو معاشی ترغیبات اور محاصرے کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، لیکن سرحد پر موجود جدید ترین ٹیکنالوجی، مضبوط باڑ اور انٹیلی جنس سسٹم کی ناکامی نے اس تصور کو پاش پاش کر دیا۔ اس دفاعی ناکامی نے اسرائیلی عوام کا اپنی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد توڑ دیا ہے اور اب اسرائیلی پالیسی کا مقصد حماس کو محض قابو میں رکھنا نہیں، بلکہ اس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔دوسری اہم تبدیلی اسرائیل کے اندرونی سیاسی منظر نامے میں آئی ہے۔ اگرچہ حملے کے بعد قومی یکجہتی کی فضا قائم ہوئی، لیکن یہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سیکورٹی حکام کو عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے اور بڑے احتجاجی مظاہرے حکومت کے خلاف سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کی تمام تر توجہ داخلی جھگڑوں سے ہٹ کر قومی سلامتی اور یرغمالیوں کی واپسی پر مرکوز ہو گئی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے اسرائیل
پڑھیں:
مصرمیں امن منصوبہ مذاکرات : حماس نے کئی شرائط رکھ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-01-22
قاہرہ/واشنگٹن /لندن/ پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔جس میں حماس نے اہم رہنماؤں اورہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سمیت کئی شرائط رکھ دیں ہیں۔مصری اور قطری ثالث فریقین سے ملاقاتیں کرکے امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فریقین کے درمیان غزہ میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ہزاروںفلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حماس نے مجوزہ منصوبے کے بعض حصوں پر اتفاق کیا تھا مگر غیر مسلح کیے جانے جیسے مطالبے پر ردعمل نہیں دیا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت خالد الحیہ کر رہے ہیں جنھیں اسرائیل نے دوحہ میں نشانہ بنانے کی ناکام کی کوشش کی تھی۔الحیہ غزہ کے باہر حماس کے سب سے سینئر رہنما ہیں۔الحیہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کے نائب تھے جو 2024 ء میں قابض اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے تھے۔یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں جس کا مقصد2 سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔فلسطینی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات کئی دن جاری رہ سکتے ہیں، مزید کہنا تھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ قابض قوت کی نیت اپنی جارحیت جاری رکھنے کی ہے۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے جاری غزہ امن مذاکرات کی براہ راست خود نگرانی کروں گا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے پر “تیزی سے آگے بڑھیں” اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد کو اسی ہفتے مکمل کرلیا جائے تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا پہلے مرحلے سے ان کی مراد کیا ہے؟ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود واپسی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اس پہلے مرحلے کے دوران فریقین غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں سمیت 28 مرہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے لیے بھی بات چیت کریں گے۔علاوہ ازیں یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود پیمانے پر واپسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔قبل ازیں حماس نے غزہ امن منصوبے پر مذاکرات کے لیے قاہرہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کرنے آئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق حماس یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیںتاہم اسرائیل نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ نیتن یاہو کی اتحادی جماعتیں بھی معاہدے کے خلاف ہیں۔خیال رہے کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اتنے منفی‘‘ نہ ہوں۔ نیتن یاہو نے حماس کے جواب کو مسترد کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ٹرمپ نے اسے مثبت قرار دیا۔ اسرائیلی آرمی چیف ایال ضمیر نے اسرائیلی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں آپریشنل صورتحال میں تبدیلی ہورہی ہے، سیاسی کوشش کامیاب نہ ہوئی توہم لڑائی میں واپس آجائیں گے۔ایال ضمیر نے کہا کہ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں حقیقت بدل رہا ہے۔مزید برآں اسرائیل کے خلاف کئی ملکوں میں احتجاج کیا گیا، برطانیہ، فرانس،ا سپین، پرتگال، اٹلی، بنگلا دیش سمیت کئی ملکوں میں عوام سڑکوں پر آگئے۔اسپین میں 10 ہزار سے زاید افراد نے اسرائیل کیخلاف مارچ کیا، مظاہرین نے فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کیا، پیرس میں ہزاروں افراد نے احتجاج اور شدید نعرے بازی کی، غزہ میں بمباری فوری رکوانے کا مطالبہ کیا۔قبل ازیں غزہ پر اسرائیل کے 131فضائی حملے میں مزید94فلسطینی شہیدہوگئے ۔اسرائیلی وزارت دفاع نے آج 7اکتوبر کو غزہ جنگ کے 2 سالوں میں ہونے والے فوجی جانی نقصان کیاعداد و شمار جاری کردیے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ہلاک فوجیوں میں سیتقریباً 42 فیصد کی عمریں 21 سال سے کم تھیں۔اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہلاک اسرائیلیوں کا تعلق فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اورکارپورلز سے ہے۔اسرائیلی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ریاست اپنے کندھوں پرغزہ جنگ کی بھاری قیمت اٹھا رہی ہے۔