حماس اسرائیل مذاکرات کا دوسرا دور ختم، جنگ بندی کی ضمانت پر سوال؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قاہرہ: حماس اسرائیل مذاکرات کا دوسرا دور ختم ہوگیا، تاہم جنگ بندی کی ضمانت پر سوال تاحال جواب طلب ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق رواں ہفتے شرم الشیخ میں منعقدہ بالواسطہ مذاکرات کے دوسرے دور میں حماس اور اسرائیل کے نمائندوں نے قیدیوں کی رہائی اور فوجی انخلا کے طریقہ کار پر مفصل گفتگو کی، مگر بات چیت کے بعد حماس نے واضح کر دیا کہ وہ صرف اس وقت معاہدے پر آمادہ ہوگی جب جنگ کے دائمی خاتمے کی ضمانت موجود ہو۔
حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ نے شفاف انداز میں کہا کہ فلسطینیوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ایک بار کی جنگ کے بعد پھر وہی جارحیت دہرانے کی گنجائش نہیں رکھی جائے گی ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ خوف اور بے اعتمادی غزہ کے لاکھوں متاثرہ خاندانوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہے کہ امریکا اور اسرائیل جنگ بندی کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں رہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق شرم الشیخ میں ہونے والی بات چیت میں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور امریکی ثالث بھی شامل رہے، جبکہ امریکی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ اور دیگر بین الاقوامی وفود بھی مذاکراتی عمل میں شریک رہے۔
ترک وفد کی قیادت ترک انٹیلی جنس چیف ابراہیم قالن کر رہے تھے اور متعدد ممالک کے نمائندے حکمت عملی طے کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔
حماس نے واضح طور پر کہا کہ قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اسی شرائط پر مبنی ہونی چاہیے جس میں اسرائیلی فوج کا مناسب انخلا مربوط انداز میں ہو، تاکہ قیدیوں کی واپسی اور فوجی انخلا میں عملِ تبادلہ ترتیب سے انجام پائے۔
حماس کے مطالبات میں مستقل اور جامع جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا، غزہ میں امداد کی بلا رکاوٹ رسائی، بے گھر فلسطینیوں کی محفوظ واپسی، اور غزہ کے پائیدار ازسرِنو تعمیر کا جامع منصوبہ شامل ہے۔
فلسطینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ مطالبات محض فنی شرائط نہیں بلکہ انسانی اور سیکورٹی ضمانتیں ہیں جو آنے والے برسوں میں علاقے کو امن اور بقا فراہم کریں گی۔ مذاکرات کے شرکا نے بھی ان ہی نکات پر تبادلہ خیال کیا ہے، تاہم اختلافات ابھی واضح ہیں، جس کے بعد فریقین کے درمیان بات چیت آج بھی جاری رہے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس کی بے باک پوزیشن اور جنگ ختم کرنے کی ضمانت کا مطالبہ درحقیقت غزہ کی پُر تکلیف اور ناقص صورتِ حال کا آئینہ دار ہے۔ فلسطینی گزشتہ حملوں اور صہیونی ریاست کی غیر سنجیدگی و وعدہ خلافیوں کے بعد زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہ گئے ہیں اور وہ اسی بنیاد پر اب پائیدار حل اور واضح سیکورٹی یقین دہانی چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حماس کا موقف واضح اور دوٹوک ہے کہ محض عارضی یا لفظی معاہدے سے کام نہیں چلے گا ، بلکہ عملی، قابل عمل اور بین الاقوامی طور پر نافذ کرائے جانے والے میکانزم درکار ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے بعد
پڑھیں:
کسی تیسرے ملک کی ضرورت نہیں، مذاکرات کی لبنانی دعوت پر ایرانی وزیر خارجہ کا مثبت جواب
اپنے لبنانی ہم منصب کیجانب سے مذاکرات کی دعوت کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ نے دورہ تہران کی دعوت دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ہم لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور اگر مجھے دورہ بیروت کی دعوت دیجائے تو میں بخوشی قبول کر لونگا اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے لبنانی ہم منصب یوسف رجی کی جانب سے دی جانے والی مذاکرات کی دعوت کا مثبت جواب دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ میرے عزیز دوست، لبنانی وزیر خارجہ یوسف رجی نے ایم ٹی وی لبنان (MTV) کے ساتھ انٹرویو میں مجھے مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ سید عباس عراقچی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور ایران و لبنان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے مقصد سے ہونے والی کسی بھی بات چیت کا کھلے دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یاددہانی کروائی کہ ان مذاکرات کے لئے کسی بھی تیسرے ملک کی کوئی ضرورت نہیں! انہوں نے تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ میں اپنے عزیز دوست یوسف رجی کو دورہ تہران کی دعوت دیتا ہوں اور اگر وہ مجھے بیروت کے دورے کی دعوت دیں تو بھی میں بخوشی قبول کر لوں گا۔